مشرق و مغرب میں معاشرتی مسئلوں کا حل

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعرات 17 اپريل 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

یہ مشاہدے کی بات ہے کہ ہمارے پاس عموماً دو قسم کے ڈاکٹر حضرات پائے جاتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر اس طرح علاج کرتے ہیں کہ مریض کے مرض کی پہلے تشخیص کرتے ہیں اور پھر مرض کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے دوا تجویز کرتے ہیں۔ اس عمل سے مریض کو مرض سے مکمل طور پر نجات مل جاتی ہے مگر دوسری قسم کے ڈاکٹر ہمارے فوری علاج کچھ اس قسم کا کرتے ہیں کہ مرض کی ظاہری علامت کو ختم کرنے کی دوا دیتے ہیں۔ مثلاً درد ہو رہا ہو تو درد کے خاتمے (پین کلر) کی دوا دے کر مریض کو فوری طور پر سکون کی حالت میں لے آتے ہیں مریض بھی سمجھتا ہے کہ بہت اچھا ڈاکٹر ہے پہلی خوراک سے ہی فائدہ ہوگیا، لیکن مرض حقیقتاً ختم نہیں ہوتا اور اندر ہی اندر بڑھتا رہتا ہے اور پھر کسی وقت دوبارہ بڑا مسئلہ بن کر سامنے آجاتا ہے۔

یہی حال معاشرتی مسائل کا ہوتا ہے اگر معاشرتی مسائل کی بھی بروقت صحیح تشخیص کرکے مرض کا علاج کیا جائے تو مسائل میں اضافہ نہیں ہوتا۔ مشرق اور مغرب میں معاشرتی مسائل حل کرنے کی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس کی وجوہات کو جاننے اور ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی البتہ سامنے آنے والے مسئلے کے حل کے لیے وقتی علاج کرکے حل نکال دیا گیا جس کے نتیجے میں اس حل سے پھر دیگر مسائل نے جنم لیا۔

ایک ایسا ہی مسئلہ جو پہلے مغرب میں تھا اب ہمارے مشرقی معاشرے میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہم نے بھی مغرب کی نقالی میں اس مسئلے کی وجوہات کو جاننے کے بجائے اور ان وجوہات کو ختم کرنے کی بجائے اس کا وقتی حل تجویز کرنا شروع کردیا اور اس پر بڑے خوش ہیں اور اب تو ٹی وی چینلز سے باقاعدہ اس مسئلے کے وقتی حل کے لیے عوام سے تعاون کی اپیل بھی کی جاتی ہے جب کہ اس کی تشہیر سے حقیقتاً اس مسئلے کا حل تو نہیں البتہ اس میں اضافہ ضرور ہونے کا قوی امکان ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل راقم کو اس ضمن میں اس وقت شدید حیرت ہوئی جب ایک معروف ’’میڈیا مین و مذہبی اسکالر‘‘ نے اپنے ایک پروگرام میں ایک سماجی فلاحی تنظیم کے بانی کو دعوت دی اور اس مسئلے کے حل میں دونوں نے ایک دوسرے کے کردار کی خوب داد دی۔

یہ مسئلہ کیا ہے؟ جی ہاں یہ مسئلہ ایسے نومولود بچوں کے حوالے سے ہے جس کو معاشرے میں کوئی بھی اپنانے کو تیار نہیں ہوتا حتیٰ کہ خود بچے کو جنم دینے والے افراد اپنے خون کو کسی کچرا کنڈی پر پھینک جاتے ہیں۔ ان معروف سماجی شخصیت اور میڈیا مین و مذہبی اسکالر نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ایسے بچوں کو کچرا کنڈی میں مت پھینکیں بلکہ ان کے متعین کردہ مقام پر رکھ دیں کہ یہ فلاحی سماجی تنظیم نہ صرف ان کی پرورش کرے گی بلکہ بے اولاد لوگوں کو گود لینے کے لیے فراہم کرے گی۔ یعنی اس پیغام کا مرکزی خیال یہ تھا کہ اگر آپ سے برائی یا غلطی ہوگئی ہے تو کوئی بات نہیں ہم آپ کی اولاد کو نہایت اچھی طرح پال پوس کر بڑا کریں گے بلکہ بے اولاد جوڑے ان سے یہ بچے گود لینے آئے تو ان کا انٹرویو کرکے مطمئن ہوکر انھیں آپ کا بچہ گود دے دیں گے۔ باالفاظ دیگر ان لاوارث بچوں کو بہترین وارث دیں گے۔

آئیے! ذرا اس آفر پر غور کریں جو میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچائی جا رہی ہے۔ اس آفر سے قبل کوئی گناہ کرنے والا اور غلط راستے کا انتخاب کرنے والا دو مرتبہ خدا کا یا معاشرے کا خوف محسوس کرتا تھا یعنی ایک جرم کرتے وقت اور دوسرا اس وقت جب ایک ننھی جان کو یوں لاوارث کسی ویرانے میں چھوڑتا تھا کہ نہ جانے اب اس کا کیا بنے گا؟ اب ان آفر کے بعد ایسا کام کرنے والوں کے لیے راستے آسان ہوگئے ہیں کیونکہ میڈیا کے ذریعے انھیں یہ پیغام مل رہا ہے کہ جناب! آپ سے گناہ کی غلطی ہوجائے تو آگے کے معاملات میں بے فکر ہوجائیں اپنا جرم ہمارے منتخب پوائنٹ پر پہنچادیں بس! اس کے بعد دیکھ بھال اور اچھے والدین تک کی تلاش اور اس کی بہترین زندگی کی ضمانت ہم آپ کو دیتے ہیں۔

میڈیا سے جب یہ اپیل کرنے والے معروف سماجی تنظیم کے کوئی بزرگ صفت شخصیت ہو اور ساتھ ہی کوئی اپنے آپ کو مذہبی اسکالر کہلانے والا میڈیا مین بھی ہو جس کا پروگرام سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پروگراموں میں سرفہرست ہو تو معاشرے کے افراد اس غلط عمل سے توبہ اور یہ معاشرتی مسئلہ ختم کرنے کی سوچ رکھیں گے یا بے فکر ہوجائیں گے کہ ایسے نیک لوگ ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے موجود ہیں؟ دوسری جانب لوگ ثواب سمجھ کر عطیات بھی ان تنظیموں کو دیں تو غور کریں معاشرتی کلچر کیا بن جائے گا؟

راقم نے اس سے قبل بھی اپنے ایک کالم میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مغربی معاشرے میں بھی مسئلے کے حل کے لیے وجوہات کو ختم کرنے کے بجائے اس کی نئی دوا تجویز کردی تھی جو مسئلے کی وجوہات کو تو ختم نہیں کرتی تھی البتہ وقتی طور پر ریلیف ضرور دیتی تھی اور کچھ ہی عرصے بعد پھر یہ دوا ایک اور نیا مسئلہ کھڑا کردیتی تھی۔ مثلاً مغرب میں خواتین کو بھی گھروں سے نکال کر ملازمت پر جانے کو آزادی کا نام دے دیا گیا مگر جب بچوں کی پرورش کا مسئلہ سماجی مسئلہ بننے لگا تو پھر ڈے کیئر سینٹر متعارف کروا کے اس مسئلے کا حل یا دوا تجویز کی گئی۔

چنانچہ اس دوا کے نتیجے میں جب بچوں کی پرورش اور تربیت متاثر ہوئی اور اس نسل نے بھی بڑے ہوکر اپنے والدین کو اپنا وقت دینے سے انکار کردیا کیونکہ انھوں (والدین) نے بھی بچپن میں وقت نہیں دیا تھا تو پھر اس نئے معاشرتی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اولڈ ہاؤسزکا حل (دوا) تجویز کی گئی اور اس حل یا دوا کے بعد پھر ایک نیا معاشرتی مسئلہ سامنے آیا کہ مغرب کا پورا خاندانی نظام ہی زمین بوس ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ایسے مسئلے سے دوچار بعض ممالک میں سن 2050 تک نوجوانوں کی آبادی محض 30 فیصد تک رہ جائے گی۔ غرض مرض کی وجوہات سمجھنے اور وجوہات کو ختم نہ کرنے سے مغربی معاشرہ آج تباہی کے دہانے پر پہنچ رہا ہے اور اس کے گواہ خود ان کے جاری کردہ اعداد و شمار اور تجزیے ہیں۔

آخر میں ایک واقعہ سن لیجیے۔ ایک بچہ ماں کی گود میں بار بار رو رہا تھا، خلیفہ وقت نے پوچھا کیا بات ہے؟ عورت نے جواب دیا، میں اس بچے کا دودھ چھڑانے کی کوشش کر رہی ہوں کیونکہ جن بچوں کا دودھ چھڑ جاتا ہے بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر کردیا جاتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ خلیفہ وقت کو اپنی نیکی کے فیصلے میں چھپی خامی نظر آگئی اور اس نے فوراً حکم دیا کہ آج سے جو بچے اپنی ماں کا دودھ پیتے ہیں ان کا بھی وظیفہ دیا جائے گا کیونکہ ایسا نہ کرنے سے ایک معاشرتی برائی پیدا ہو رہی ہے جس کا شکار بچے ہو رہے ہیں۔

آئیے! غیر جانبدار ہوکر مذکورہ معاشرتی مسئلے کے خطرناک پہلوؤں پر غورکریں اور مرض کی حقیقی وجوہات کو جاننے اور ختم کرنے کی کوشش کریں نہ کہ محض مغرب کی نقالی کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔