خواہش ہے کہ اُردو ادب کا چینی زبان میں ترجمہ کروں

علامہ اقبال کے نزدیک قوم کی ترقی میں دولت سے کہیں بڑھ کر نوجوانوں کا کردار ہوتا ہے


صحافتی تجربے نے مجھے تدریس کے شعبے میں بڑی مدد فراہم کی ، اُردو زبان کی چینی اُستاد اور صحافی ہان ین سانگ (صابرہ) سے بات چیت ۔ فوٹو : فائل

چین اور پاکستان کے درمیان مثالی تعلقات سفارتی دنیا میں اپنی مثل آپ ہیں۔ یہ تعلقات ریاستی و حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پربھی روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہیں۔

اس کا ایک عکس چین میں اردو زبان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے اور اس وقت چین بھر کی نوجامعات میںاردو زبان کا شعبہ قائم ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی کہ قومی سطح پر دوست ممالک کے ساتھ عوامی سطح پر تعلقات کو فروغ دینے کے لئے کن اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان کو بھی انہی خطوط پر کام کرنا چاہیے۔

چین کی نوجوان نسل نے پاکستان اور اردو زبان سے محبت اپنے بزرگوں سے میراث میں پائی ہے۔ ایسی ہی ایک نوجوان چینی خاتون Hanyin Song ہیں جن کا اردو نام صابرہ ہے۔ آپ اس وقت کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ کے شعبہ اردو میں معلمہ ہیں اور اس سے پہلے چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس سے بطور صحافی وابستہ تھیں۔ ان کا تعلق ایک انتہائی پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔ آپ کی والدہ چین کی MINZU یونیورسٹی میں فلسفے کی پروفیسر ہیں جبکہ ان کے والد ایک ریٹائرڈ انجینیئر ہیں۔

Hanyin Song( صابرہ) کے دادا اور دادی بھی دانشورہیں۔ ان کے دادا کو روسی اور جرمن زبان پر عبور حاصل ہے جبکہ ان کی دادی کو بھی جرمن زبان میں مہارت حاصل ہے۔

ان سے ہونے والی بات چیت میں ہم نے ان کی چین میں رہتے ہوئے اردو زبان سے آشنائی، دلچسپی اور پھر اس میںگریجویشن اور اردو ہی کی وجہ سے چین میں روزگار ملنے کے حوالے سے سوالات کئے۔ یہ گفتگو یقیناً ہمارے قارئین کے دلچسپی کا باعث ہو گی۔



سوال : آپ کہاں پیدا ہوئیں اور تعلیم کہاں حاصل کی۔

جواب : میں بیجنگ میں پیدا ہوئی اور ابتدائی اور اعلی تعلیم بیجنگ میں ہی حاصل کی۔

سوال : 'لفظ' ـ اردو پہلی مرتبہ کب سماعتوں سے ٹکرایا۔

جواب : میں نے پہلی مرتبہ لفظ اردو اس وقت سُنا جب کالج میں داخلے کے امتحان کا وقت آیا۔ یہ چین میں نوجوانو ں اور ان کے والدین کے لیے بہت اہم موقع ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت کیا گیا فیصلہ آپ کے مستقبل کا تعین کرتا ہے ۔مستقبل میں کمائی کے ذریعے ، ملازمت کے حصول یا کاروبار کے لیے آپ کی گریجویشن ڈگری کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔ چونکہ مجھے مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا اس لیے میں نے کالج میں داخلے کے وقت کسی ایک زبان کا انتخاب کرنا تھا۔ چونکہ چین اور پاکستان میں اچھے تعلقات ہیں اور اردو زبان میں گریجویشن کے بعد روزگار کے مواقع بہت ہیں تو اس لیے میں نے اردو زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا۔

سوال : اردو زبان سیکھنے کے فیصلے میں کس نے حمایت اور مدد کی۔

جواب : میرے دادا Shusheng Song اور دادی Weili Ji دونوں مترجم کے طو ر پر کا م کرتے رہے ہیں۔ وہ خاندان بھر کے لوگوں کی زبان سیکھنے میں حوصلہ افزائی اور مدد بھی کیا کرتے ہیں۔ میرے دادا کو روسی اور جرمن زبان پر عبور حاصل ہے۔۔ پچاس کے عشرے کے اوائل میں انہوں نے چین میں روسی زبان سیکھی۔ پھر وہ انیس سو پچپن سے اٹھاون تک میری دادی کے ہمراہ مشرقی جرمنی میں رہے اور وہاں انہوں نے جرمن زبان سیکھی۔ میری دادی کو بھی جرمن زبان آتی ہے۔ چین واپسی کے بعد انہوں نے کارل مارکس، اینگلز اور لینن کے کا موں کا ترجمہ کیا اور پھر ساری عمر تراجم کے کام سے منسلک رہے۔

خوش قسمتی سے میرے دادا اور دادی دونوں ابھی حیات ہیں ۔ میرے دادا کی عمر اس وقت 95 سال ہے جبکہ میری دادی کی عمر 93 سال ہے ۔جب میں نے اردو زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا تو میرے دادا اور دادی اور میرے تمام گھر والوں نے اردو زبان سیکھنے کے میرے فیصلے کی حمایت کی اور اس میں میری مدد بھی کی۔ اس معاملے میں مجھے کہیں سے بھی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

سوال : اردو زبان سیکھنے کے لیے تعلیمی ادارے کا انتخاب کیسے کیا۔

جواب : اس وقت پورے چین میں اردو سکھانے والے تعلیمی ادارے بہت کم تھے۔ اگر بیجنگ میں موجود تعلیمی اداروں کی بات کروں تو وہاں محدود مواقع تھے۔ تو میں نے پھر بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی کا انتخاب کیا کیونکہ وہاں اردو زبان سیکھنے کے مواقع موجود تھے۔

سوال : چین کی جامعات کی ایک قابل تحسین روایت ہے کہ وہاں کوئی بھی زبان سیکھتے وقت طالب علم کواسی زبان میں ایک نام بھی دیا جاتا ہے۔ آپ بھی اس روایت کا حصہ بنی ہو ںگی ۔ آپ کا اردو نا م کس نے آپ کو دیا۔

جواب : جی یہ بڑا دلچسپ تجربہ ہے ۔ ایک طالب علم اٹھارہ بیس سا ل تک اپنے گھرمیں اور احباب میں اپنے چینی نام سے جاناجاتا ہے۔ پھر اچانک اس میں بدلاؤ آتا ہے اور اس کو ایک نیا نام دے دیا جاتا ہے ۔

یہ نیا نام اس کا نئی زبان سے ایک تعلق اور رشتہ استوار کرتا ہے اور آپ لاشعوری طور پراس سے اپنائیت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے، میرا اردو نام صابرہ ہے اور یہ نام مجھے چین کے اردو زبان کے ممتاز صاحب دیوان شاعر اور ادیب جناب چانگ شی شوان ( انتخاب عالم) نے دیا۔

سوال : جب آپ پہلی مرتبہ اردو زبان کی کلاس کے لیے گئیں تو کیا احساسات و خیالات تھے

جواب : شروع شروع میں تو میں تھوڑا گھبراتی تھی کیونکہ چینی زبان کے مقابلے میں اردو زبان بہت مختلف ہے۔ مثلا اردو الفاظ دائیں سے بائیں لکھے جاتے ہیں۔ جبکہ چینی الفاظ بائیں سے د ا ئیں لکھے جاتے ہیں اور اردو زبان میں مذکر و مونث کی تمیز ہے جبکہ چینی زبان میں ایسا نظام نہیں ہے۔

خوش قسمتی سے ہمارے اساتذہ ہمیں بہت صبر اور محنت سے پڑھاتے تھے اور اردو زبان سکھانے کے لیے بہت سی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ جس سے مجھے اردو زبان بولنے، پاکستانی ڈشز کھانے اور پاکستانیوں سے بات چیت کا موقع ملا۔

سوال : اردو زبان سیکھنے کے وقت ابتدائی مشکلات کیا تھیں؟

جواب : ابتداء میں بہت مشکل تھی۔ میرے لیے سب سے پہلی مشکل اردو حرف ـــــ ر کا تلفظ تھا۔ آواز پیدا کرنے کے لیے زبان کو ہلانا پڑتا ہے۔ جو میرے لیے اور میرے خیال میں بہت سے چینی طالب علموں کے لیے آسان نہیں ہے۔ میں نے مختلف کوششیں کیں۔ جیسے میں نے منہ میں پانی کا ایک گھونٹ لیااور بار بار مشق سے اس مشکل پر قابو پایا۔

سوال : آپ کے اساتذہ کون تھے اور ان کا طریقہ تدریس کیا تھا؟

جواب : اُس وقت میرے دو چینی اساتذہ اور ایک خاتون پاکستانی ٹیچر تھیں۔ جناب انتخاب عالم ( چانگ شی شوان) چینی شہری ہیں اور اردو زبان کے واحد شاعر بھی ہیں۔ انہیں اردو زبان پڑھانے کا وسیع تجربہ ہے۔ اس کے علاوہ محترمہ نسرین ( چو یوان) ہمیں بنیادی اردو سکھاتی تھیں۔



محترمہ نسرین صاحبہ چونکہ نوجوان تھیں اور ہماری ہم عمر تھیں تو وہ نہ صرف ہمیں اردو سکھاتی تھیں بلکہ عملی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کے حوالے سے بھی ہماری رہنمائی کیا کرتی تھیں۔ محترمہ بشری ظفر صاحبہ پاکستانی نژاد ٹیچر تھیں جنہوں نے چینی زبان میں اعلی تعلیم چین ہی سے حاصل کی تھی ۔

وہ ہمیں زبانی ارد و کا مضمون پڑھاتی تھیں۔ ہمارے تما م اساتذہ کا طریقہ تدریس بہت عام فہم ہوتا تھا۔ وہ ہمیں چینی زبان، معاشرے کی مثالیں دے کر ہمیں اردو زبان کے مختلف قواعد بتاتے تھے۔ اس سے ہمیں سمجھنے میں بہت آسانی ہوتی تھی۔

اس کے علاوہ یونیورسٹی میں باقاعدگی سے مختلف نوعیت کی تقریبات بھی ہوتی تھیںجن سے ہمیں پاکستان کے کلچر، سماج اور اردو زبان کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی۔

سوال : آپ نے اردو زبان کس سطح تک پڑھی ہے؟

جواب : میں نے اردو زبان میں چار سالہ گریجویشن کی ہے اور اس کے بعد بھی میں اردو ہی سے منسلک رہی ہوں۔ اور میری کوشش ہے کہ میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنا اردو زبان کا معیار بہتر سے بہتر کروں۔ ذخیرہ الفاظ بڑھاؤں، زیادہ سے زیادہ ارد و ادب کا مطالعہ کروں تاکہ میں اردو زیادہ بہتر انداز میں بول ،لکھ اور سمجھ سکوں۔

سوال : اردو میں مختلف اصناف ادب ، شاعری ، نثر ، ناول وغیرہ ہیں۔کیا آپ نے ان کا مطالعہ کیا ہے؟

جواب : میں نے اپنے اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے جناب انتخاب عالم صاحب کا نام لیا ہے۔ انہیں اردو زبان سے بڑی محبت ہے اور وہ خود بھی اردو زبان کے شاعر ہیں۔ تو ہمیں کلاس میں پڑھاتے ہوئے وہ اکثر اردو شاعری اور اردو شعراء کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہماری اردو ادب کی بھی کلاس ہوتی تھی جس میں اردو شاعری اور نثر کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔

سوال : آپ کا اردو کا پسندیدہ شاعر یا ادیب کون ہے؟

جواب : میرے پسندیدہ شاعر علامہ اقبال ہیں۔ جن کے نزدیک کسی بھی قو م کی ترقی میں دولت سے کہیں بڑھ کر اس قوم کے نوجوانوں کا کردار ہے۔ اور اقبال کی شاعری میں فکر ، تخلیق اور سوچ کی گہرائی پائی جاتی ہے جو نوجوانوں میں شعور کی بیداری میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

سوال : کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اردو زبان سیکھنے سے آپ کو پاکستان کے بارے میں زیادہ معلومات ملی ہیں؟

جواب : جی بالکل ایسا ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ زبان مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک پل ہے۔ اردو زبان سیکھنے سے مجھے پاکستان کی تاریخ ، ثقافت اور چین پاکستان تعلقات کو جاننے اور سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ پاکستان کے سماج ،سیاست اور معروضی حالات کو بہتر انداز میں سمجھنے میں اردو زبان نے ایک بہتر کردار ادا کیا ہے۔

سوال : پاکستانیوں سے اردو زبان میں گفتگو کر کے کیسا لگتا ہے؟

جواب : شروع میں یہ ایک بڑاچیلنج تھا کیونکہ پاکستانی اردو بہت تیز بولتے ہیں اور لہجہ بھی مختلف ہے۔تو بات کو سمجھنے میں دقت ہوتی تھی لیکن جب پاکستانیوں کو یہ معلوم پڑتا کہ ایک چینی لڑکی اردو بول سکتی ہے تو وہ آہستہ آہستہ بولتے ہیں اور جملوں کو بار بار دہراتے ہیں تاکہ ان کی بات مخاطب کو سمجھ آجائے۔

سوال : چین میں اردو زبان کی بنیاد پر آپ کے لیے روزگار کے کتنے مواقع تھے؟

جواب : دس برس پہلے جب میں نے اردو زبان میں گریجویشن کی تو مختلف شعبہ جات میں اردو زبان جاننے والوں کی ضرورت تھی۔ جیسے نیوز ایجنسی، مختلف قومی محکمے اور دیگر ادارے بینک اورکچھ کمپنیاںوغیرہ ۔

سوال : سی آر آئی اردو سروس کے لیے آپ کا انتخاب کیسے ہوا؟

جواب : یونیورسٹی کے تیسرے سال ہمارے لیے نیوز ٹرانسلیشن کورس کا اہتمام کیا گیا۔ جو سی آر آئی کی مہوش صاحبہ نے ہمیں پڑھایا۔ یہ میرے لیے پہلا موقع تھا جب میں نے میڈیا کے متعلق کچھ سیکھا، اورمجھے بہت لطف آیا۔ پھر مجھے سی آر آئی میں ہی انٹرن شپ کا موقع ملا اور میں نے ایک ماہ تک انٹرن شپ کی۔ اسی انٹرن شپ کے دوران مجھے سی آر آئی میں کام کرنے کا خیال آیا۔

میں نے ملازمت کے حصول کے لیے تحریری امتحان اور انٹرویو دیا۔ یوں میری سیلکشن ہو ئی ۔ سی آر آئی دنیا بھر کی کم وبیش چھیاسٹھ زبانوں میں نشریات پیش کرتا ہے ۔ یہاں دنیا بھر سے آ ئے ہوئے صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔

معمول کے پیشہ ورانہ فرائض کے علاوہ یہاں خبر کا ترجمہ، ریڈیو پروگرامزکی تیاری، پروگرامز کی میزبانی، پروگرام کے لیے مواد کا انتخاب اور اس کی ا یڈٹنگ، مختلف شہروں میں ہونے والی تقریبات، کانفرنسز میں شرکت اور انٹرویو زکا موقع ملا تھا جس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کوملا اور میں نے عملی صحافت کے مختلف مراحل سیکھے۔

سوال : عملی صحافت چھوڑ کر آپ اردو کی تدریس کی طرف کیسے آئیں۔

جواب : سی آر آئی میں جاب کے دوران میری شادی ہوئی ۔ شادی کے بعد مجھے ہانگ کانگ کی صف اول کی ایک یونیورسٹی سے سوشل سائنسز میں ماسٹرز کرنے کا موقع ملا۔ میں اس موقع سے استفادہ کرنا چاہتی تھی مگر میری جاب کی وجہ سے اس میں مسائل آ رہے تھے۔

تو میں نے سوچ بچار کے بعد ماسٹرز کرنے اور سی آر آئی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں یہ فیصلہ بعد میں میرے لیے بہتر ثابت ہوا وہیں دوسری طرف سی آرآئی میں عملی صحافت کا تجربہ میری نئی ملازمت کے حصول میں مددگار بنا۔ دو ہزار انیس میں ، میں نے ہانگ کانگ سے ماسڑز کیا۔ ماسٹرز کی تکمیل کے بعد ملازمت کی تلاش میں تھی تو مجھے پتہ چلا کہ سی یو سی کے شعبہ اردو میں ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو نہ صرف اردو پڑھا سکتے ہوں بلکہ ان کا میڈیا سے بھی تعلق ہو ، یا رہا ہو۔ تو میں نے اس ملازمت کے حصول کے لیے درخواست دی اور متعدد انٹرویوز کے بعد مجھے یہ جاب ملی۔

میں اس وقت سی یو سی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوںجو چین میں اردو زبان سکھانے والی دوسری بڑی یونیورسٹی ہے۔سی آر آئی اردو سروس میں کام کرنے والے کچھ چینی شہریوں نے بھی اسی یونیورسٹی سے اردو زبان سیکھی ہے لیکن اساتذہ کی کمی کی وجہ سے ہماری یونیورسٹی نے کچھ سالوں تک اردو میں داخلہ نہیں دیا۔ اس سا ل ستمبر سے یونیورسٹی دوبارہ طلباء کو اردو میں داخلے کی پیش کش کرے گی۔

سوال: چین میں اردو کا مستقبل کیا دیکھتی ہیں؟

جواب : اس وقت چین کی نو جامعات میں شعبہ اردو قائم ہے۔ اور پورے چین میں اردو زبان سیکھنے والے طلباء کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اردو زبان سے منسلک روزگار کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔اور دونوں ممالک کے تعلقات بھی بہتر رہیں گے۔

سوال: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ادب کے تراجم سے دو ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری آتی ہے ؟

جواب : جی بالکل ۔ میرے خیال میں باہمی تراجم اور عوام کے میل جول سے تعلقات کو فروغ ملے گا جو بہت ضروری ہے۔ کیونکہ چین، پاکستان کے درمیان اعلی سطحی روابط اور باہمی تبادلے بہت زیادہ ہیں لیکن عوامی سطح پر باہمی تبادلوں کی تعداد بوجوہ کم ہے۔

ادب کے ذریعے دونوں ممالک میں افہام و تفہیم بڑھ سکتی ہے اور غلط فہمیاں ختم کی جاسکتی ہیں۔ مستقبل میں میری خواہش اور ارادہ ہے کہ میں پاکستانی ادب کا چینی زبان میںترجمہ کروں۔

سوال ـ : کیا آپ پاکستانی اخبارات و میگزینز کا مطالعہ کرتی ہیں؟

جواب : جی ہاں یہ میرا معمول ہے کہ میںپاکستان کے صف اول کے اردو اخبارات اور میگزینز کا مطالعہ کرتی ہوں ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی اردو سروس کو بھی باقاعدگی سے دیکھتی ہوں۔

سوال : پاکستان کا کونسا سماجی پہلو آپ کو اچھا لگتا ہے؟

جواب : پاکستان میں ہر عمر کے افراد کو مشاعروں میں شرکت کا شوق ہے۔اس لیے پاکستانی لوگ با لخصوص نوجوان شاعری کرنا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں اور پاکستان میں مختلف شعراء کے کلام کو اچھے انداز میں محفوظ کیا گیا ہے ۔ یہ پہلو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ چین میں بھی شاعری کی تاریخ بہت طویل ہے لیکن عمومی طور پرلوگوں کو اوربالخصوص نوجوانوں کو شاعری اتنی پسند نہیں ہے

سوال : پاکستانی کھانوں میں کیا پسند ہے؟

جواب : مجھے تیز مرچ مسالے والی غذائیں پسند ہیں اس لیے پاکستانی کھانے میرے مزاج کے مطابق ہیں۔مثلا چکن قورمہ، کباب ،کڑاہی وغیرہ۔

سوال : کیا آپ پاکستانی فلمیں اور ڈرامے دیکھتی ہیں؟

جواب : جی ہاں۔ میں پاکستانی فلمیں اور ڈرامے دیکھتی ہوں اور حال ہی میں ، میں نے پاکستانی فلم جوائے لینڈ دیکھی ہے۔ اس فلم سے پاکستان کا عالمی تشخص بہتر ہوا ہے جو مجھے اچھا لگا ہے۔

سوال : پاکستانی لباس آپ کو کیسا لگتا ہے

جواب : پاکستانی لباس مجھے بہت پسند ہیں۔ یہ خوبصورت اور مختلف ڈیزائن کے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ موقع کی مناسبت سے بھی لباس مختص ہیں۔ پھر پاکستان کے مختلف صوبوں کے روایتی ملبوسات بھی ہیں۔یہ بھی مجھے اچھے لگتے ہیں۔

سوال : پاکستان کادورہ کتنی مرتبہ کیا اور کن کن شہروں کا دورہ کیا؟

جواب : میں نے صرف ایک مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا ہے ۔ وہ بھی دوہ ہزار پندرہ میں ۔ جب میں ایکسچینج پروگرام کے تحت نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں اردو زبان سیکھنے کے لیے گئی۔ اس دوران میں نے اسلام آباد، ٹیکسلا اور لاہور کے تاریخی اور مذہبی مقامات کی سیاحت کی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔