عدلیہ بحالی تحریک کے اثرات…

کوئی ادارہ عوام کے مسائل حل نہیں کر رہا ہے کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ جب عدالت میں مقدمہ جائے گا یا تو التواء کا شکار ہوگا


فارینہ حیدر May 14, 2023

2007ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹا دیا۔

جس کی وجہ سے وکلاء برادری مشتعل ہوگئی اور ان کی بحالی کی تحریک دس مارچ 2007ء کو اس وقت شروع ہوئی جب چیف جسٹس کے رہائش گاہ پر وکلاء رہنماؤں کو چیف جسٹس سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ان وکلاء رہنماؤں نے چیف جسٹس کی اقامت گاہ کے باہر حکومتی رویہ کے خلاف احتجاج کیا۔

اس کے بعد بارہ، تیرہ اور سترہ مارچ کو و کلاء کے جلوس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ پولیس کی چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے ساتھ بد سلوکی نے احتجاج کی شدت میں اضافہ کر دیا اور اس طرح ملک میں احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی تھی کیونکہ وہ طویل عرصے سے خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہی تھیں، اس لیے انھوں نے جنرل پرویز مشرف سے2007ء میں معاہدہ کیا کہ تمام سیاسی کارکنوں کے مقدمات ختم کیے جائیں حالانکہ محترمہ بے نظیر بھٹو 2006ء میں میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کرچکی تھیں لیکن جولائی 2007ء میں نواز لیگ کی بلائی گئی، آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں میں صدرکی وردی کے معاملے پر استعفے دینے کی بات پر اختلافات سامنے آئے۔ جس کے بعد نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے بغیر اے پی ڈی ایم بنائی۔

یوں ملک کی دونوں سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کا نتیجہ صفر رہا۔ اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے جو معاہدہ جنرل مشرف سے کیا اسے بھی ختم کردیا جب انھیں جنرل مشرف نے الیکشن سے قبل پاکستان نہ آنے کا مشورہ دیا۔

نوازشریف کو جنرل مشرف نے2000ء میں طیارہ سازش کیس میں دس سال کے لیے سعودی عرب جلاوطن کیا۔ اس معاہدے کی رو سے میاں صاحب کو 2010ء میں وطن واپس آنا تھا لیکن انھوں نے وطن واپسی کی کوشش محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہی شروع کردی۔ ایک طرف وکلاء برادری سڑکوں پر تھی دوسری طرف محترمہ کی وطن واپسی تیسری جانب میاں نواز شریف بھی وطن واپس پہنچ گئے۔

جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کا اختتام تھا لیکن ان کی یہ خواہش تھی کہ انھیں صدر رہنے دیا جائے، لیکن وکلاء برادری نے جو احتجاج چیف جسٹس کو ہٹانے سے شروع کیا،اس کا دائرہ وسیع ہوگیا اور وکلاء برادری مارشل لاء حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرم ہوگئی اور اپنی موبائل فونز پر '' گو مشرف گو '' کی رنگ ٹون تک سیٹ کر دی۔

یہ احتجاج اس وقت شدت اختیارکرگیا جب سابق چیف جسٹس پوری وکلاء برادری کے ساتھ جلسے کے لیے 12 مئی 2007ء کو کراچی پہنچے جبکہ ان کو حالات خراب ہونے کی رپورٹ تھی اور اس کے نتیجے میں سانحہ 12 مئی کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ اٹھارہ اکتوبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر کی وطن واپسی پر ان کے کاروان پر حملہ ہوا،جس میں سیکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اور پھر 27 دسمبر 2007ء میں ملک اورعالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم اور ایک عالمی لیڈر کو شہید کردیا گیا۔

ان حالات کو سامنے رکھے جائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی ذمہ دارمعزز عدلیہ بھی ہے۔ عدالت کا افسر یعنی اس کا وکیل ایک برطرف چیف جسٹس کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور سیاست دانوں کی طرح سیاست کرنے لگے تو ایسے معاشرے میں لاقانونیت عروج پر ہی ہوگی۔ یہی حال پاکستان کا ہوا ہے، پاکستان کے ہر ادارے نے اپنے مفادات کے لیے سیاست کی۔ افتخار چوہدری دوبارہ بحال ہوئے اور چند سال مزید چیف جسٹس رہے باقی وکلاء حضرات جنھوں نے تکلیفیں اٹھائیں وہ بھی اپنا حصہ لینے میں کامیاب رہے۔

نقصان ان کا ہوا جو ان فسادات کی نظر ہوئے اور پاکستان اپنی عالمی لیڈر سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کی سیاسی تربیت ان کے بچپن سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ ان کے والد کی پھانسی کے بعد ان کی والدہ نصرت بھٹو نے ان کی سیاسی تربیت کرتی رہی۔ اس جمہوریت کے لیے پاکستان کے عوام اور ان کے لیڈروں نے اپنا خون دیا، اگر محترمہ کے ساتھ عوام نہ کھڑی ہوتے تو وکلاء حضرات اگلے پانچ برسوں تک بھی احتجاج کرتے رہتے، تب بھی نہ مشرف جاتے نہ مارشل لاء۔

ان 15 برسوں میں عدلیہ کی یہ کارکردگی رہی ہے کہ وہ اب 135 ویں نمبر پر آگئی۔ ان برسوں میں جتنے سو موٹو لیے گئے وہ صرف عوام کی بدحالی کا موجب رہے چاہے وہ کراچی بد امنی کیس ہوں یا تجاوزات کے خلاف کیس ہو۔کراچی بدامنی کیس میں بشمول پاکستان کی سابق خاتون وزیر اعظم، کسی کو بھی انصاف نہ مل سکا اور نہ ہی تجاوزات کے خلاف آپریشن نے زمینوں کی غیر قانونی خرید و فروخت بند کرائی۔ آج بھی پورشن مافیا کام کر رہی ہے، آج بھی زمینوں اور فٹ پاتھوں پر قبضہ ہو رہا ہے، بلکہ اب تو زرعی اراضی پر بھی ہائوسنگ سوسائٹی بنائی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے منافع بخش کاروبار ریئل اسٹیٹ ہے۔

آج موجودہ چیف جسٹس کے سوموٹو پر عدلیہ اور ایوانوں میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا سوموٹو لینا عوامی مفادات کے خلاف ہے۔ پاکستان کے عوام نے سوموٹو پر وہ وقت بھی دیکھا جب وہ اپنے کاروبار اورگھر بچانے کے لیے بلدیاتی حکومتوں سے لیکر وفاقی حکومت تک گزارشات لے کر گئے لیکن مایوس واپس لوٹے، سابقہ چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہونے گئے تو عدالت کا دروازہ بند کر دیا گیا کہ چیف جسٹس کا فیصلہ ہے اور ماننا پڑے گا، کیونکہ سوموٹو پر اپیل کا حق نہیں ہوتا۔

آج جب سوموٹو کا فیصلہ حکمرانوں کے لیے پریشانی کا سبب بن گیا ہے تو اختلافی نوٹ بھی آرہے ہیں اور قانون میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ آج پھر معزز وکلاء حضرات سڑکوں پر آنے کے لیے بے چین ہیں۔ عدالتوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بینچ ڈسچارج ہو رہے ہیں.آج پھر اس 2007 جیسی تحریک شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ ان کے پسندیدہ جج کو چیف بننے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ فرد واحد کے پیچھے آخر کب تک نظام کو برباد کیا جائے گا؟ کب تک لیڈروں کو عدلیہ اور بیوروکریسی پر قربان کیا جائے گا؟

خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اب ہم اپنے وزرائے اعظم کی گردنیں عدلیہ کو نہیں دیں گے، انھوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کو جو پھانسی دی گئی اس کا حساب ہونا چاہیے، یوسف رضا گیلانی صاحب کو نااہل کیا نواز شریف کو نا اہل کیا اب ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے دو نام نہ لے کر نا انصافی کی ہے ایک ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اور دوسری ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو یہ دونوں ٹھیک ایک ہی مقام پر شہید ہوئے۔

عدلیہ بحالی تحریک نے انصاف کا حصول اور مشکل بنا دیا۔کوئی ادارہ عوام کے مسائل حل نہیں کر رہا ہے کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ جب عدالت میں مقدمہ جائے گا یا تو التواء کا شکار ہوگا یا پھر ان کا وکیل کسی نہ کسی طرح مقدمہ بند کرادے گا۔ وکلاء برادری سوچے کہ پاکستان کا نظام انصاف کس درجہ پر کھڑا ہے؟۔

انصاف جو نادار گھر تک نہیں پہنچا

سمجھوکہ ابھی ہاتھ ثمر تک نہیں پہنچا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں