موبائل جرنلزم کا کمال۔۔۔ مستقبل اب ہمارے ہاتھ میں

ایاز مورس  اتوار 21 مئ 2023
بنیادی صحافتی مہارتوںاور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال سیکھ کر آپ اپنا اور صحافت کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

بنیادی صحافتی مہارتوںاور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال سیکھ کر آپ اپنا اور صحافت کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

ٹیکنالوجی نے ہمارے سوچنے، دیکھنے اور جینے کے انداز بدل دیے ہیں۔ میں نے اپنی عملی زندگی میں موبائل جرنلزم کا آغاز 2016 سے کردیا تھا۔ اس کے بھرپور اور موثر استعمال نے مجھے اور میرے کام کو ایک منفرد پہچان دی ہے۔

شروع میں ٹیکنالوجی عام نہ ہونے کی وجہ سے مہنگی تھی، تاہم 2019کے بعد موبائل جرنلزم میں کئی نئے فیچرز اور آلات کا عام دست یاب ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

موبائل جرنلزم کیا ہے؟ اس کا بڑھتا ہوا استعمال کیسے فرد اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے؟ موبائل جرنلزم کی باقاعدہ تربیت کیوں حاصل کرنی چاہیے؟ موبائل جرنلزم کا مستقبل کیا ہے؟ موبائل جرنلزم کیسے روایتی صحافت میں جدت لاسکتا ہے؟ اس مضمون میں ان سوالوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے ہم آگے بڑھیں میں آپ کو بتا تا چلوں کہ میں نے موبائل جرنلزم کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے یوٹیوب چینل پر 500 سے زاید ویڈیوز ریکارڈ کی ہیں جن میں کئی یادگار انٹرویو اور سیشن ہیں۔ موبائل جرنلزم کی بدولت مجھے اپنے گاؤں میں اپنے دادا کے حیات ہوتے ہوئے ان کے 3 انٹرویو ریکارڈ کیے تھے جو میرے لیے ایک تاریخی اور قابل فخر سرمایہ ہیں۔ یہ سب کچھ موبائل جرنلزم کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا تھا۔

میں نے موبائل جرنلزم کے باقاعدہ سیشن، آن لائن ٹریننگ اور عملی مشقتوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اپنی آواز کو موبائل جرنلزم کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچانا سیکھا ہے۔

میں اب یہ ٹریننگ مختلف اداروں، افراد، کالجز اور انسٹی ٹیوٹس کو کرواتا ہوں۔ موبائل جرنلزم صحافت کی دُنیا میں ایک انقلاب ہے جس کا موثر اور مثبت استعمال ہی ہمیں اس کے فوائد سے ہم کنار کروا سکتا ہے ورنہ یہ ایک ایسا عذاب ہے جو معلومات کا سیلاب لے کر آتا ہے اور ہمیں اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ اس کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ عام انسان کی پہنچ میں ہے اور تھوڑی سی مہارت اور تربیت کے ساتھ آپ اس کا عمدہ استعمال کر سکتے ہیں۔

موبائل جرنلزم کا تعارف:

موبائل جرنلزم ملٹی میڈیا کے دُور میں نئے انداز میں اپنی کہانی سنانے کی ایک منفرد شکل ہے جو عام صحافیوں کو اسمارٹ فونز جیسے چھوٹے نیٹ ورک سے منسلک آلات کا استعمال کرتے ہوئے خبروں کو ریکارڈ کرنے، ایڈیٹنگ کرنے اور شیئر کرنے کے قابل بناتا ہے۔

موبائل فون کا استعمال کرنے والے صحافی اپنے پورٹیبل آلات پر ایپس کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیو، آڈیو، فوٹو گرافی اور گرافکس میں رپورٹ تیارکرسکتے ہیں۔ موبائل جرنلزم کے لیے موجو کی اصطلاح 2005 سے استعمال ہو رہی ہے۔ روایتی طریقوں کے مقابلے میں موبائل جرنلزم کے کچھ اہم فوائد میں قابل حصول ہونا، ہر جگہ بہ آسانی دستیاب ہونا، خود مختار ہونا، بہ آسانی میسر ہونا، اور ابتدائی افراد کے لیے رسائی کی آسانی ہونا شامل ہیں۔

پاکستان میں موبائل جرنلزم:

ہمارا معاشرہ ہر نئی چیز کو کچھ زیادہ ہی دیر سے قبول کرنے کا عادی ہے اس لیے موبائل جرنلزم کے معاملے میں بھی صورت حال ایسی ہے۔ اس ضمن میں بہت کم پیشہ وار صحافی ہیں جو موبائل جرنلزم کا استعمال کررہے ہیں اور دوسروں کے سکھانے کے قابل ہیں۔ شاید اداروں میں آہستہ آہستہ ٹریننگز کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔

کئی ایک یونیورسٹیز میں میڈیا اسٹڈیز اور ماس کیمونیکشن میں اس کے کورسز شامل ہیں۔ لیکن ابھی تک اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سارے لوگوں کو موبائل جرنلزم کا استعمال کررہے ہیں لیکن وہ بنیادی صحافتی اقدار اور مہارتوں سے روشنا س نہیں ہیں۔

موبائل جرنلزم (موجو) ہی کیوں؟

موجو پاکستان کے بانی ایازاحمدخان کا کہنا ہے کہ آج کے دُور میں موبائل جرنلزم کے ذریعے خبریں جمع کرنے اور کہانی سنانے کے لیے ایک ابھرتا ہوا رجحان ہے۔

آج دُنیا میں ہر کوئی، جس کے پاس اسمارٹ فون ہے وہ متعدد فارمیٹس میں خبروں کو ریکارڈ، ایڈٹ اور نشر کر سکتا ہے۔ موبائل جرنلزم (MOJO) عام شہریوں کو خبروں کو بطور کیمرہ مین، ایڈیٹر، پروڈیوسر اور پبلشر کا کردار ادا کرنے کی سہولت دیتا ہے۔

موبائل جرنلزم کی اہمیت:

میڈیا ٹرینر اور موجو ایکسپرٹ نورین شمس کا کہنا ہے موبائل فون کو وجود میں آئے ہوئے30 سال ہو چکے ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ صرف مواصلاتی آلات تھے، تاہم، پچھلی دہائی میں ہونے والی پیش رفت نے انہیں بات چیت، رپورٹنگ اور سیکھنے کے حیرت انگیز عالمی ٹولز میں تبدیل کر دیا ہے۔

آج، 70% پاکستانی (تقریباً 146 ملین افراد) سیل فون استعمال کرنے والے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ایک تہائی، ایک اندازے کے مطابق 49 ملین لوگ انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں جو زیادہ تر اپنے اسمارٹ فونز پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔

اسمارٹ فونز کا بنیادی استعمال ڈیجیٹل طور پر تیار کردہ مواد کو استعمال کرنا ہے۔ اسے مواد بنانے اور اسے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کرنے میں بھی بہت زیادہ دل چسپی لی جارہی ہے۔ اسمارٹ فونز لوگوں کے لیے ذاتی نقطۂ نظر سے اپنی منفرد کہانیاں شیئر کرنے کا بھی ذریعہ ہیں۔ جدید ترین ڈیجیٹل ٹولز اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے MOJO ٹریننگز اسمارٹ فونز کی طاقت کو استعمال کرتی ہیں جو ذاتی اور مقامی کہانیاں سناتی ہیں۔

موبائل جرنلزم عام صحافت سے کیسے مختلف ہے؟

میڈیا اور موجو ٹرینر جبران اشرف کا کہنا ہے کہ روایتی صحافیوں کو رپورٹنگ کرتے وقت بہت سی مشکلات اور مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

مواد کے مختلف پیکجز بنانے کے لیے محنت سے معلومات جمع کرنا، اس کے بعد ایڈیٹنگ اور پھر اسے اشاعت یا نشریات کے لیے ’’ماہرین‘‘ کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل بہت بوجھل اور وقت طلب ہوتے ہیں، اور موقع اور وقت پر دست یاب نہیں ہوتے، ان میں اکثر ایڈیٹنگ کی کئی مراحل بھی شامل ہوتے ہیں، نیز مواد کی تیاری اور اشتراک کے لیے بڑے اور مہنگے عملے کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف موبائل جرنلزم (MOJO) کہانی سنانے والے کو ان تمام رکاوٹوں سے آزاد کرتا ہے۔ یہ مواد کو ریکارڈ کرنے، تیار کرنے اور شائع کرنے کی طاقت افراد کے ہاتھ میں دیتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ مقام اور ماہرین سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس پورے عمل کو بڑی لاگت سے بچایا جا سکتا ہے۔ آج، روایتی صحافت کے معیارات اور اخلاقیات کو برقرار رکھتے ہوئے کہانی سنانے کی طاقت ہماری جیبوں میں فٹ بیٹھتی ہے بلکہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

موبائل جرنلزم کا مستقبل:

موبائل جرنلزم نے کہانی سنانے کے انداز کو بدل رہا ہے۔ کچھ روایتی صحافی اس تبدیلی کی مزاحمت کر رہے ہیں، لیکن بہت سارے لوگ اسے قبول کر رہے ہیں۔ موبائل جرنلزم ایک حقیقت بن چکا ہے، اور یہ برقرار رہنے کے لیے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موبائل جرنلزم ختم نہیں ہو رہا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ روایتی صحافت کی جگہ لے لے گا۔ دونوں مختلف ہیں، اور ہر ایک کے اپنے فوائد ہیں۔

بہت سے میڈیا آؤٹ لیٹس نے موبائل جرنلزم کو اپنے فریم ورک میں شامل کیا ہے، بہت سی نیوز کارپوریشنز اپنے سوشل میڈیا کوریج کے لیے موبائل جرنلزم کا استعمال کرتی ہیں، جب کہ زیادہ روایتی طریقوں میں اپنے بڑے نیوز کیمروں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ یاد رکھیں وہ وقت دور نہیں ہے جب ہم اسمارٹ فون کے ساتھ کسی ملک کے صدر کا انٹرویو ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے ۔

یہ تمام پیش رفت اور تبدیلیاں اتنی آسان نہیں ہیں۔ آج ڈیجیٹل میڈیا کے دُور میں صحافت کو سب سے بڑا خطرہ اور چیلینج فیک نیوز سے ہے۔ جعلی خبروں کی دُنیا میں، موبائل جرنلزم رپورٹنگ کی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لوگوں کو ہمیشہ اس بے پناہ طاقت کا احساس نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں ایک فون رکھتے ہیں، اور اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ صحافت اخلاقیات، دیانت، درستی اور سچائی کی بنیاد پر استوار ہے۔

مناسب تربیت اور دیکھ بھال کے بغیر، بنیادی صحافتی معیارات پر پورا نہ اترنے سے یہ بنیادیں ہل سکتی ہیں۔ آج جس تیزی سے خبریں چلتی ہیں، اس کے ساتھ سب سے زیادہ نیک نام رپورٹر بھی جلدی محسوس کر سکتا ہے، اور تنقیدی غلطیوں والی کہانی شائع کر سکتا ہے۔ لوگ بڑی تیزی کے ساتھ غلط معلومات پھیلانے کے لیے اس نئے قابل رسائی نظام کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو موبائل جرنلزم کا استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے، لیکن یہ کہ انتہائی احتیاط ایسا کرنا چاہئے۔ صحافت، کہانیاں سنانے کا عمل ہے، جو اب بھی ایک نیک عمل ہے۔ صحیح نقطۂ نظر کے ساتھ، اور تھوڑی سی معلومات، تیاری، اور گیئر کے ساتھ، آپ ایک موبائل صحافی بننے کے راستے پر گام زن ہو سکتے ہیں اور معاشرے میں اپنا مثبت اثر قائم کر سکتے ہیں۔

انٹرنیشنل جرنلسٹ نیٹ ورکر کی ویب سائٹ پر موبائل جرنلزم پر اپنے ایک آرٹیکل میں NADYA HERNÁNDEZ لکھتی ہیں کہ ’’ذرا تصور کریں کہ اگر میں آپ کو کہوں کہ آپ کی جیب میں ایک مکمل ٹی وی اسٹوڈیو ہے؟ یا یہ کہ آپ اس فون یا لیپ ٹاپ کے ساتھ ایک پورا پوڈ کاسٹ تیار کر سکتے ہیں جس پر آپ یہ آرٹیکل پڑھ رہے ہیں؟ تو آپ کا کیا خیال ہوگا؟

آپ کا موبائل مواد کی تیاری کے لیے ایک حیرت انگیز ٹول ہے اور دُنیا بھر کے صحافی اپنے اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹس، ڈیجیٹل کیمروں اور لیپ ٹاپس سے براہ راست خبریں نشر، شوٹنگ، ایڈیٹنگ اور پوسٹ کر رہے ہیں۔ موبائل جرنلزم (موجو) میڈیا کی کہانی سنانے کے لیے ایک نیا ورک فلو ہے جس میں رپورٹرز کو مکمل طور پر موبائل پر خود مختار ہونے کے لیے تربیت دی جاتی ہے اور تیار کیا جاتا ہے۔ صحافی، میڈیا کمپنیاں اور براڈکاسٹ کارپوریشن اس بات سے واقف ہیں کہ اس طرح کام کرنے کے کئی فائدے ہیں۔‘‘

موبائل جرنلزم کا استعمال اور احتیاط:

میں سمجھتا ہوں کہ جہاں موبائل جرنلزم کا استعمال پیشہ ور اور ذمے دار لوگ کررہے ہیں وہیں اسے کئی شرپسند اور منفی عزائم رکھنے والے لوگ بھی بڑے منظم اور مؤثر انداز میں کام کررہے ہیں۔ موبائل جرنلزم کا استعمال ، اس کی تربیت نہ صرف پروفیشنل لوگوں کو دینی چاہیے بلکہ اس سلسلے میں والدین، اساتذہ اور اسکول وکالجز کے طلبہ کو آگاہی اور ٹریننگ دینے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔

بچوں میں موبائل فون اور سوشل میڈیا کا بے حد استعمال بڑی حد تک خطرناک ہے۔ اس لیے اُن کو Digital Wellbeing  اور Digital Intelligence  ٰ کے بارے میں سیکھانے وقت کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں اس وقت بے شمار لوگ موبائل جرنلزم کا استعمال کررہے ہیں لیکن بہت کم ہیں جو ذمے داری اور معاشرتی اصلاح و بہتری کے لیے کام کررہے ہیں۔ موبائل جرنلزم ہم سب کو اس قابل بناتا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے اپنے حصے کا کام کریں۔

میڈیم بدلا ہے اقدار نہیں:

میڈیا ٹرینر اور سنیئر صحافی عون ساہی کا کہنا ہے کہ موبائل جرنلزم نے جہاں بہت سہولت دی ہے وہاں اس نے نئی نسل پر ایک بھاری ذمے داری بھی عائد کی ہے۔ موبائل جرنلزم کی جدت کی بدولت صحافتی اقدار نہیں بلکہ صرف میڈیم بدلا ہے۔ صحافتی اقدار اور پریکٹس ہمیشہ وہ ہی رہیں گی۔ وقت اور ٹیکنالوجی کے باعث میڈیم بدلتے رہیں گے لیکن اخلاقیات نہیں بدلیں گی۔

میں اپنی ٹریننگ میں شرکاء سے یہ خیال شیئر کرتا ہوتا کہ ہم آج جس دور میں زندہ ہیں ہمیں اپنی کہانی انتہائی ذمے داری سے اس طرح سنانی چاہیے کہ آنے والی نسلیں بھی اس سے سبق حاصل کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔