عمران خان کی سیاست

سلمان عابد  منگل 23 مئ 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

عمران خان مشکل میں ہیں اور سیاسی پنڈتوں کے بقول وہ کئی معاملات میں ریڈ لائن کراس کرچکے ہیں۔ کئی سیاسی اور صحافتی دانشور وں کے بقول ان پر کراس لگ چکاا ہے اور فور ی طو رپر ان کی اقتدار میں واپسی ممکن نہیں ہوگی۔موجودہ حالات میں عمران خان تنہا نظر آتے ہیں جب کہ ان سیاسی مخالفین متحد ہیں۔

عمران خان کی مزاحمتی سیاست محض اپنے سیاسی مخالفین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی چیلنج کرچکے ہیں۔ ٹکراؤ کی سیاست نے ان کو کئی محاذوں پر الجھادیا ہے۔ ان کے بقول وہ تن تنہا ہی ان سب کا مقابلہ کرسکتے ہیں ,مگر ایسا نہیں ہے ۔

بیک وقت کئی محاذوں پر ان کی لڑائی نے ان کو واقعی مشکل میں ڈال دیا ہے بلکہ ان کے گرد سیاسی ، انتظامی اور قانونی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان قومی سیاست میں اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں پاپولر راہنما ہیں۔ ایسے میں ایک مقبول سیاسی راہنما کی سیاسی ذمے داری بھی ہمیں باقی تمام سیاسی قیادت کے مقابلے میں زیادہ نظر آنی چاہیے۔

کیونکہ ملک کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں عمران خان سے عوامی توقعات زیادہ ہیں۔ لیکن اگر مجموعی طو رپر عمران خان کی سیاست کو دیکھیں تو اس میں ہمیں مہم جوئی، ٹکراؤ، محاذآرائی یا مزاحمت کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آتا ہے ۔

ممکن ہے کہ عمران خان کئی معاملات میں اپنے موقف میں درست ہوں مگر ان مسائل سے نمٹنے کی جو پالیسی ہے، انھوں نے اختیار کررکھی ہے ، وہی ان کے لیے بڑا چیلنج بھی بن گیا ہے ۔عمران خان کی گرفتاری کے رد عمل میں جو کچھ 9مئی کو ہوا ، وہ واقعی قابل مذمت ہے اور اس کی ذمے داری پی ٹی آئی کی قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی کا یہ موقف کہ جلاؤ گھیراؤ میں پی ٹی آئی کے نام پر شرپسند تھے، ممکن ہے درست ہو مگر ان شرپسندوں کو روکنا ،کنٹرول کرنا او ران کی نگرانی کرنا بھی پی ٹی آئی قیادت ہی کی ذمے داری بنتی تھی ۔بنیادی طو رپر سیاسی لڑائی سیاسی انداز میں ہی ہونی چاہیے ، یہ لڑائی نہ صرف پرامن ہوبلکہ آئینی اور قانونی دائرہ کار تک ہی محدود رہنی چاہیے ۔

پی ٹی آئی کے جو بھی رہنما اپنے کارکنوں اور حامیوں کو فوجی تنصیبات، دفاتر سمیت گھروں تک لے گئے، ان سے سنگین غلطی ہوئی ہے، انھیں اور پی ٹی آئی کو اس کا بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

پی ٹی آئی کی پہلے سے جاری جدوجہد میں 9مئی کے واقعہ نے ان کو عملا دفاعی پوزیشن پر لاکر کھڑا کیا ہے ، انھیں سخت تنقید اور قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے ۔یہ جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے اس میں حکومتی حکمت عملی کا بھی حصہ ہے ۔

اول حکومت ان کی بھی خواہش تھی کہ عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ جاری رہے۔ دوئم عمران خان کو سیاسی اورقانونی محاذ پر اس حد تک پریشان کردیا جائے کہ وہ ان معاملات سے باہر ہی نہ نکل سکیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کو کئی محاذوں پر نہ صرف سخت مزاحمت کا سامنا ہے بلکہ ان کے خلاف 150سے زیادہ مقدمات بنانا ، دہشت گردی کے مقدمات جیسے معاملات حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ان کے معاملات میں بہتری آنے کے بجائے کافی بداعتمادی پائی جاتی ہے ۔

عمران خان اس بداعتمادی کو ختم نہیں کرسکے بلکہ معاملات کو عوامی جلسوں میں لے آئے ، یہ حکمت عملی تباہ کن ثابت ہوئی۔سوئم ان کے مخالفین ان کو سیاسی طور پر نااہل کرنا یا ان کی جماعت پر پابندی لگانا چاہتے ہیں ۔عمران خان کی مزاحمتی سیاست کا براہ راست فائدہ پی ڈی ایم کو ہورہا ہے اوریہ جماعتیں اسٹیبلیشمنٹ کے قریب اور عمران خان کافی فاصلے پر نظر آتے ہیں۔

بدقسمتی سے عمران خان نے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ جو ٹکراو کی سیاست کو اختیار کیا ہواہے اس سے ان کی مقبولیت تو بڑھی ہوگی مگر عملا سیاسی طاقت کے مراکز میں ان کو فی الحال مزاحمت کا سامنا ہے اور اس مزاحمت نے اب بالخصوص 9مئی کے واقعات کے بعد ان کی اپنی جماعت میں نہ صرف بڑے پیمانے پر سیاسی توڑ پھوڑ کی ہے بلکہ پارٹی کے لوگ ہی پارٹی سے خود کو علیحدہ کررہے ہیں۔

پارٹی کی مجموعی قیادت جیلوں میں ہے او ران پر دہشت گردی کے مقدمات بھی درج ہیں اور بیسیوں کارکن جیلوں میں موجود ہیں۔ پارٹی کے اندر بھی عمران خان کی سیاسی مہم جوئی پر پارٹی میں ایک متبادل نقطہ نظر بھی موجود ہے کہ ہماری سیاسی حکمت عملی اور عمران خان کا سخت گیر پالیسی پر سختی سے قائم رہنے کی پالیسی بھی درست نہیں ہے ۔

اصولی طور پر عمران خان کی سیاسی حکمت میں جوان کو مسائل درپیش تھے یا ہیں اس میں بات چیت، مذاکرات یا ان کے ساتھ جڑکر موجود جو بھی اختلافات یا متبادل سوچ ہے اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے تھا۔ ویسے بھی سیاسی لڑائی میں جب آپ ایک ہی وقت میں تمام محاذوں پر ٹکراو کی سیاست کریں گے تو آپ کے لیے آسانیاں کم او رمشکلات زیادہ ہوںگی۔ عمران خان کے سامنے ایک طرف بڑی سیاسی جنگ ہے اوراسی جنگ نے ان کے تمام سیاسی مخالفین کو یکجا کیا ہوا ہے جو خود عمران خان کی برتری کو نمایاں کرتی ہے۔لیکن دوسری طرف ان کو قانونی محاذ پر اور انتظامی سطح پر اپنے سیاسی اور غیر سیاسی حریفوں سے مزاحمت کا سامنا ہے۔

وہ اپنی سیاسی طاقت کو محض ٹکراو کی سیاست کی نذر نہ کریں او رنہ ہی اپنی جماعت یا کارکنوں کو اس حد تک جذباتیت کی سیاست میں الجھادیں کہ ا ن میں ٹھراو کی سیاست قائم نہ ہوسکے۔ عمران خان کی جو بڑی طاقت نئی نسل ہے اس کو جذباتیت یا جنوں کی سیاست کے ساتھ ساتھ مثبت طور پر ملک و قوم کی تعمیر میں بھی استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ ان کی سیاست لمبے عرصہ تک اپنی ساکھ کو قائم رکھ سکے ۔

یہ بات اصولی طو رپر ٹھیک ہے کہ آپ اپنی بات منوانے کے لیے مزاحمت کا کارڈ کھیلتے ہیں اور آپ کی مضبوط مزاحمت ہی آپ کے لیے باقی فریقوں پر دباؤ کی سیاست کے نتیجے میں نئے سیاسی امکانات پیدا کرتی ہے۔لیکن اس میں جو مزاحمتی پہلو ہے اول وہ سیاسی ، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر ہی لڑنی ہے اور دوسرا سیاسی لڑائی میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ میں توازن قائم کیا جانا چاہیے۔

سیاسی ترجیحات کا تعین کیا جانا چاہیے کہ حکمت عملی کی ترجیحات او راس کی درجہ بندی کیا ہو او رکیسے حکمت کے ساتھ ان معاملات کو سیاسی اور قانونی محاذ پر نمٹا جائے۔ وہ اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت کو مستقل بنیادوں پر قائم کریں اور اپنے ایجنڈے کو ایک بڑے سیاسی، انتظامی ، معاشی اور ادارہ جاتی اصلاحاتی عمل کے ساتھ جوڑ کر وہ کچھ کرنے کی کوشش کریں جو ان کے سیاسی مخالفین نہیں کر رہے۔

اس وقت تحریک انصاف پر جو مشکل وقت ہے وہ بھی گزرجائے گا لیکن اس مشکل وقت میں عمران خان کا دھیمے انداز میں آگے بڑھنا ہی ان کے لیے سود مند ہو سکتا ہے۔

کوئی عمران خان کو یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ اپنی مزاحمتی سیاست سے دست بردار ہوجائیں بلکہ اصولی بات یہ ہے کہ اسی مزاحمتی سیاست میں ان کو سوچ سمجھ کر تدبر، فہم وفراست ، عقل و دانش کی مدد سے آگے بڑھنا چاہیے۔ سیاسی اننگز اسی صورت میں کھیلی جاتی ہے جب آپ ایک لمبی سیاسی اننگز کے لیے میدان میں رہتے ہیں۔کیونکہ سیاسی وکٹ پر کھڑا رہنا ہی سیاسی طاقت کو برقرار رکھتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔