چین، ماحولیات اور جیرڈ ڈائمنڈ (آخری حصہ)

شیخ جابر  بدھ 30 اپريل 2014
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

اگر چین کے لوگ دوسرے ملکوں کا سفر نہ کریں اور چین دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارتی روابط منقطع کر دے پھر بھی باقی دنیا اس کے باعث متاثر ہوتی رہے گی کیونکہ چین انھی سمندروں اور اسی فضا میں اپنے فضلے خارج کر رہا ہے اور گیسیں چھوڑ رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین کے باقی دنیا کے ساتھ روابط میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے مسائل بھی کئی گنا بڑھ گئے ہیں ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں معاشی بڑھوتری کی رفتار بڑھی ہے لیکن ماحولیات کے حوالے سے ڈی گریڈیشن ہوئی ہے۔

آگے دیکھتے ہیں کہ باقی دنیا چین کو اور چین باقی دنیا پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے پر یہ اثر و رسوخ گلوبلائزیشن کی وجہ سے بڑھا ہے۔ معاشروں کے ایک دوسرے پر انحصار نے اس بات پر اختلافات پیدا کر دیے ہیں کہ ماضی میں ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے کیا طریقہ استعمال کیا گیا اور آج کی دنیا میں اس حوالے سے کیا ہو رہا ہے۔ چین نے باقی دنیا سے جو بری ترین چیز حاصل کی ہے وہ معاشی لحاظ سے نقصان کا باعث بننے والی انواع ہیں۔ ایک اور اہم درآمدات کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہیں۔ پہلی دنیا کے کچھ ممالک کے اپنے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کم ہو رہے ہیں اور چین کو رقوم ادا کر رہے ہیں کہ وہ یہ کوڑا کرکٹ خرید لے جس میں خطر ناک کیمیکل بھی شامل ہیں۔

چین کی پھیلتی ہوئی معیشت اور صنعتیں بھی اس کوڑا کرکٹ کو وصول کر رہی ہیں تا کہ ان میں سے انھیں کچھ خام مال دستیاب ہو سکے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس در آمدات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح دنیا براہ راست آلودگی چین منتقل کر رہی ہے۔ اس کوڑا کر کٹ سے بھی زیادہ خطر ناک یہ ہے کہ جہاں بہت سی کمپنیاں جدید ٹیکنالوجی چین منتقل کر کے اس کے ماحول کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہاں دوسری کمپنیاں آلودگی میں اضافہ کرنے والی صنعتیں چین منتقل کر رہی ہیں اور یہ ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ان کے اپنے ملکوں میں متروک قرار دی جا چکی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پھر چین سے دوسرے ملکوں کو بھی منتقل ہو رہی ہے جو کم ترقی یافتہ ہیں۔

اس سلسلے میں اس ٹیکنالوجی کو مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے جو 1992 میں چین میں در آمد کی گئی۔ یہ فصلوں کے کیڑے مارنے کی دوا ہے۔ جو17 برس پہلے جاپان میں بند کی جا چکی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی فیوجیان صوبے میں قائم چین جاپان مشترکہ کمپنی کو دی گئی جہاں یہ کئی لوگوں کی موت کا باعث بنی اور گمبھیر نوعیت کے ماحولیاتی مسائل پیدا ہوئے۔ صوبے گوئین ڈون میں اوزون کی تباہی کا باعث بننے والے کیمیکل کلورو فلور کا ربنز کی در آمد 1996 میں 1800ٹن تک پہنچ چکی تھی اور ظاہر ہے اس کے نتیجے میں اوزون کو نقصان پہنچا۔ چین کے لیے اوزون کی تباہی میں اپنے کردار کو کم کرنا مشکل ہی نہیں محال بھی ہے۔

چین کی بر آمدات کی بات کی جائے تو چین سے بہت سی ایسی حیاتیاتی انواع دوسرے ملکوں تک پہنچ رہی ہیں جو ماحول میں جلد اپنی جگہ بناتی ہیں اور پہلے سے موجود حیاتیات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ یہ اپنے ساتھ بیماریاں بھی لاتی ہیں ۔ سب سے بڑھ کر چین کے لوگوں کی پہلی دنیا کے ممالک کی طرح کا طرز ِزندگی اپنانے کی خواہش اور امنگ ہے۔ اس کا مطلب ہے تیسری دنیا کے ملکوں کے افراد کے لیے انفرادی طور پر گھر، آلات دیگر ضروری اشیاء اور سہولیات کی فراہمی ۔ پہلی دنیا کے لوگ اچھے گھروں میں رہتے ہیں، اچھا کھاتے پیتے ہیں، ان کے کپڑے بہترین اور قیمتی ہوتے ہیں، بہترین اور جدید ادویات تک ان کی رسائی ہوتی ہے۔

چین کے باشندوں کی یہ خواہش پوری ہو گئی تو اس کی اس دنیا کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور باقی ساری دنیا بالکل اس طرح رہے جس پر اس وقت ہے تو محض چین کی آبادی کو پہلی دنیا کا طرزِ زندگی فراہم کرنے کے لیے پیداوار94 فی صد بڑھانا پڑے گی۔ اس کے ماحول اور انسانی وسائل پر دوگنے اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہاں موجود انسانی وسائل کو برقرار رکھنے کا معاملہ بھی شکوک کا شکار رہے۔ چہ جائیکہ اسے دوگنا کر دیا جائے لیکن راستہ تو دینا ہی پڑے گا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ چین کے مسائل خود بخود دنیا کے مسائل بن جاتے ہیں۔

چین کے رہنما ؤں کا خیال تھا کہ انسان قدرت کو فتح کر سکتا ہے اور اسے یہ کام کرنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی تصور تھا کہ ماحولیات کے مسائل صرف سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی معاشروں کو متاثر کر رہے ہیں اور یہ کہ سوشلسٹ معاشرے ایسے مسائل کا شکار نہیں ہو سکتے۔ اب چینی کس نوعیت کے ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہیں وہی اس بارے میں بہتر جانتے ہیں۔ چینی رہنماؤں کی سوچ میں تبدیلی 1972 میں اس وقت آنا شروع ہوئی جب انھوں نے انسانی ماحول کے موضوع پر اقوام متحدہ کی پہلی کانفرنس میں اپنا وفد بھیجا۔ 1973 میں حکومت نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے ایک گروپ قائم کیا۔

1998 کے سیلابوں کے بعد جس کو ماحولیات کے تحفظ کے حکومتی ادارے میں تبدیل کر دیا گیا 1983میں ماحولیات کے تحفظ کو قومی پالیسی کا حصہ بنایا گیا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ماحولیات پر بھر پور توجہ دینے کے باوجود معیشت کی مضبوطی حکومت کی ترجیح رہی۔ ایسی صورتحال میں چین کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ سوال دنیا بھر میں اٹھایا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی مسائل بڑھ رہے اور ان کے حل کی کوششیں بھی تیز تر ہو رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دوڑ میں کونسا گھوڑا جیتتا ہے۔ چین میں یہ سوال زیادہ ہنگامی طور پر اٹھایا جا رہا ہے اور اس کی وجہ چین کے بڑھتے ہوئے مسائل نہیں ہیں بلکہ چین کی اندھیروں کی طرف بڑھتی، لڑکھڑاتی، الٹتی تاریخ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔