چین کا ’نیو ورلڈ آرڈر‘

غلام محی الدین  ہفتہ 2 ستمبر 2023
gmohyuddin@express.com.pk

[email protected]

مارچ 2023ء میں دنیا نے عالمی سیاسی افق پر ایک ایسی غیر معمولی تبدیلی دیکھی جس کا تصور بھی کرنا محال تھا۔ یہ تبدیلی ایران اور سعودی عرب میں صُلح اور سفارتی تعلقات کی بحالی تھی۔

دنیا کے لیے اس واقعہ میں دو طرح کی حیرتیں پوشیدہ تھیں پہلی یہ کہ معلوم تاریخ عالم کے اولین ادوار سے لے کر آج تک یہ دونوں ملک ہمیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے نظر آتے ہیں اور پھر دین اسلام کے غلبہ پانے کے بعد جب دونوں ملکوں کی غالب اکثریت دائرہ اسلام میں داخل ہو چکی تھی، ان اقوام کی باہمی مخالفت نے مختلف روپ تو بدلے لیکن وہ ختم نہیں ہوئی۔

اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہو سکتیں کہ ان دو ملکوں کا باہمی اتحاد و اتفاق اس خطے کی مجموعی ترقی کے لیے کس قدر معاون ثابت ہو سکتا ہے اور یقیناً ان دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت بھی اس ضرورت سے آگاہ تھی لیکن پھر بھی باہمی چشمک جاری رہی اور دونوں ملک مشرق وسطیٰ میں زیادہ سے زیادہ اختیار اور رسوخ حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے حامی سیاسی گروہوں کو لڑاتے بھی رہے۔

یقیناً اس تصادم سے کچھ عالمی کھلاڑیوں کے مفادات بھی وابستہ تھے جو انھیں باہم دست گریباں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری حیرت یہ رہی کہ اس صلح کا محرک چین ہے۔ چین نے ماضی کے ان دشمنوں کو قریب لانے کے لیے خفیہ ثالثی کی اور یہی بات امریکا اور اس کے قریبی اتحادیوں کے لیے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں۔ عالمی سیاست اور سفارت کاری پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اسے دنیا کے اہم ترین خطوں میں سے ایک یعنی مشرق وسطٰی میں امریکی سفارتی حکمرانی کا تختہ الٹ دینے کی سنجیدہ کوشش قرار دے رہے ہیں۔

اگر مشرق وسطٰی کے معاملات میں چین کو برتر حیثت حاصل ہو جاتی ہے تو مطلب یہی ہو گا کہ سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی لحاظ سے دنیا کے ایک نہایت اہم خطے سے امریکا کی چودھراہٹ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ امریکا اس تبدیلی کو ’اسپورٹس مین اسپرٹ‘ کے ساتھ مزاحمت کے بغیر قبول کرلے گا یا اس پر تصادم کے خطرات بڑھتے چلے جائیں گے؟۔

چین کی عالمی سیاسی کے میدان میں غیر معمولی پیش قدمی سوچے سمجھے تصور کے تحت جاری ہے جس کا اعلان چینی صدر ’شی جن پنگ‘ باقاعدہ طور پر کر چکے ہیں۔ اس تصور کو Global Security Initiative ( جی ایس آئی ) کا نام دیا گیا ہے۔

اسی جی ایس آئی کی روشنی میں تیار کردہ مشرق وسطٰی کے بارے میں حکمت عملی میں ایران سعودی عرب تناؤ کو ختم کرنے کو کلیدی اہمیت دی گئی تھی۔ چین خفیہ طور پر دونوں ملکوں کے ساتھ طویل عرصے سے بات چیت میں مصروف تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس گفت و شنید میں پاکستان کی سہولت کاری بھی شامل رہی ہے۔

اس برس اپریل کے آخری ہفتے میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیر کی چین کے دارالحکومت بیجنگ میں چینی قیادت کی موجودگی میں ملاقات ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے سفارتی‘ تجارتی اور دیگر روابط کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کیے۔

اس معاہدے کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی میں امور خارجہ میں اعلیٰ ترین سطح کے قائد اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا۔ ’’ایران اور سعودی عرب کے درمیان گفت و شنید اور اس کے نتیجے میں معاہدہ ’جی ایس آئی‘ کے تصور پر عمل کا کامیاب اظہار ہے‘‘۔ اب امریکی بلاک میں اس کامیابی اور عالمی سطح پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر پیدا ہونے والے ردعمل سے قطع نظر اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ عالمی نظام یا ’’ورلڈ آرڈر‘‘ روز بروز چین کی جانب جُھکتا چلا جا رہا ہے۔

غیرجانبداری کے ساتھ بات کی جائے تو امریکا کے عالمی قیادت سنبھالنے سے قبل دنیا پر نوآبادیاتی تسلط کا دور گزر رہا تھا جس کا سب سے بڑا کھلاڑی برطانیہ تھا۔ زیر تسلط اقوام کا استحصال اور ان کے قومی وسائل کی ظالمانہ لوٹ مار عام تھی۔

اسی دور میں دنیا نے تباہ کن جنگیں دیکھیں جو دراصل اسی لوٹ میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کی دوڑ کے نتیجے میں ہوئیں۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد دنیا کی قیادت امریکا کے ہاتھ میں آ گئی تو ایک نئے قسم کے نوآبادیاتی نظام کی داغ بیل ڈالی گئی جس میں ترقی پذیر ممالک ہی سے لوگوں کو منتخب کر کے انھی کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔

امریکی تسلط کا دور جو تاحال جاری ہے عالاقائی جنگوں، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حکومتیں گرانے بنانے اور مقبول رہنماؤں کو مروانے کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ امریکا کے عروج پر تبصرہ کرتے ہوئے فرانس کے صدر ’ڈیگال‘ نے کہا تھا، ’’ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا کا ہر ملک امریکا کا ہمسایہ ہے‘‘۔ اس دانشورانہ تبصرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ امریکا کے ہمسائے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی پہنچ سے باہر ہیں۔

پھر دنیا نے دیکھا کہ امریکا نے دنیا کے ہر حصے میں عسکری مہمات کی قیادت کی اور دنیا پر اپنی برتر حیثیت کو قائم رکھنے کے لیے کسی اخلاقی اور انسانی قانون ضابطے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ چین نے ’جی ایس آئی‘ کی شکل میں دنیا کو چلانے کا جو نیا تصور پیش کیا ہے وہ آفاقی دستاویز نہیں بلکہ اس میں جو باتیں کی گئی ہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے دنیا کو چلانے کے طریقہ کار اور رویے کے بالکل اُلٹ ہیں اور یہی بات اسے دنیا کے کمزور ملکوں کے لیے پر کشش بناتی ہے۔

اس کے کچھ اہم نکات کا ذکر کیا جائے تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ عالمی برادری کے لیے یکساں‘ جامع‘ باہمی تعاون پرمبنی پائیدار امن و استحکام کو یقینی بنانا جس میں سب کو برابر حیثیت حاصل ہو ۔ تمام ممالک کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سلامتی کا احترام لازم ہو۔ اقوام متحدہ کے چارٹر، مقاصد اور اصولوں کی مکمل بلا مشروط پابندی۔ بلا امتیاز تمام ملکوں کے اپنی سلامتی سے متعلق جائز تحفظات کو اہمیت دی جائے۔

دنیا مل کر تمام دو طرفہ اور دیگر تنازعات کو حل ترجیحی بنیادوں پر کرائے۔ عالمی سلامتی ناقابل تقسیم ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ملک کی سلامتی کی قیمت دوسرا ملک ادا کرے۔ عالمی محاذ پر چین کی کامیابیاں یقیناً مخالف بلاک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہی ہیں۔ اگر عالمی طاقتیں اس بارے میں کسی تصفیے پر پہنچ جاتی ہیں تو دنیا کے لیے خیر کے دروازے کھل جائیں گے‘ ورنہ امریکا کی حیثیت کو چیلنج کرنے کے نتیجے میں تصادم کے خطرات مزید بڑھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔