کوئٹہ میں برساتی نالوں کی تعمیر تاخیر کا شکار

شاہ حسین ترین  جمعرات 15 مئ 2014
ترقیاتی کام عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتے ہیں، مگر ہمارے منصوبہ سازوں نے بیک وقت پورے کوئٹہ شہر کو اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے۔  فوٹو : فائل

ترقیاتی کام عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتے ہیں، مگر ہمارے منصوبہ سازوں نے بیک وقت پورے کوئٹہ شہر کو اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ فوٹو : فائل

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ان دنوں برساتی نالوں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔

جس کے لیے شہر بھر کی سڑکیں توڑ کر تین سے چار فٹ تک کے گڑھے کھو دے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ دو سال قبل نواب اسلم رئیسانی کے دور حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کو چھ ماہ میں مکمل ہونا تھا، مگر کام کی سست رفتاری اور بار بار فنڈ ز کی بندش کی وجہ سے یہ منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو ا ہے۔ ایک ارب تیس کروڑ روپے کے اس منصوبے میں برسا تی نالوں کی تعمیر کے ساتھ خستہ حال سڑکوں کی مرمت اور دو رویہ سڑکوں کے درمیان حفاظتی دیوار کی تعمیر بھی شامل تھی۔ اس منصوبے کو کوئٹہ بیوٹی فیکیشن پروجیکٹ کا نام دیا گیا۔

یہ منصوبہ بر وقت مکمل نہ ہو نے کی وجہ سے اس کی لاگت بڑھ کر دو ارب روپے تک پہنچ گئی ہے اور خدشہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ نظر ثانی شدہ مدت میں بھی مکمل نہ ہو تو اس کی لاگت مزید بڑھ جائے گی۔ کیوں کہ پروجیکٹ حکام نے ایک بار پھر فنڈز کی عدم فراہمی کا رونا شروع کر دیا ہے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ منصوبہ بندی کے فقدان نے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ اس وقت پورے شہر اور گردونواح میں بڑے نالوں کی تعمیر کے لیے سڑکیں توڑکر گہرے گڑھے کھودے گئے ہیں۔

ترقیاتی کام عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتے ہیں، مگر ہمارے منصوبہ سازوں نے بیک وقت پورے کوئٹہ شہر کو اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت شہر کی کوئی سڑک سلامت نہیں بچی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے ایک علاقے میں کام مکمل کیا جاتا، اس کے بعد دوسرے علاقے میں شروع کیا جاتا۔ مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ٹریفک کی روانی متاثر ہے، اور آئے روز ان گڑھوں میں لوگوں کے گر کر زخمی ہونے کے واقعات عام ہیں جب کہ دھول مٹی نے کوئٹہ کے شہریوں کو موذی امراض میں مبتلا کردیا ہے۔

سڑکوں کی کھدائی سے ٹریفک کے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں اور شہر کے ہم علاقوں میں ٹریفک جام کے باعث سیکڑوں گاڑیاں ایک ہی مقام پر گھنٹوں پھنسی رہتی ہیں، جس کی وجہ سے نہ تو طلباء اور طالبات بروقت سکول پہنچتے ہیں اور نہ سرکاری ملا زمین وقت پر دفاتر کو پہنچ پاتے ہیں۔ سڑکوں کی کھدائی سے پانی اور گیس کی پائپ لائنیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ حکام منصوبے کے آغاز سے ہی اس کی جلد تکمیل کے دعوے کرتے آ رہے ہیں، مگر ان دعوؤں کو آج تک وہ عملی جامہ پہنانے میں کام یاب نہیں ہوسکے ہیں۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ بیوٹی فیکیشن پروجیکٹ کے سلسلے میں سٹرکوں اور برساتی نالوں کے کام کی پیش رفت کے حوالے سے ہفتہ وار اجلاس ایڈیشنل کمشنر کوئٹہ ڈویژن کی صدارت میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ کوئٹہ، ڈائریکٹر پروجیکٹ، پروجیکٹ کنسلٹنٹ، چیف انجینئر میٹروپولیٹن کارپوریشن، ڈویژنل انجینئر، ایس پی اور ایس ایس پی ٹریفک کے علاوہ سوئی سدرن، واسا، کیو ڈی اے اور دیگر متعلقہ محکموں کے انجینئرز اور افسران نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ایک بار پھر ایڈیشنل کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے کام میں تاخیر اور سست روی کا نوٹس لیتے ہو ئے کہا کہ برساتی نالوں کے کام کے دوران ٹریفک کے نظام اور عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے متبادل راستوں کا انتظام کیا جائے۔

انہوں نے تنبیہ کی کہ پروجیکٹ میں کا م کی رفتار اور معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ایڈیشنل کمشنر نے ہدایت کی کہ کا م نہ کرنے والے ٹھیکے داروں کو فارغ کرکے ان کی جگہ دوسرے ٹھیکے داروں سے کام مکمل کرایا جائے۔ انتظامیہ نے برساتی نالوں پر کام کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے ڈبل شفٹ میں مزدور لگانے کی ہدایت کی تاکہ کام مقررہ مدت اور معیار کے مطابق مکمل ہوسکے جب کہ کام کے دوران ملبے کو جلد از جلد ٹھکانے لگانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

انتظامیہ نے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو ہدایت کی ہے کہ جن نالوں اور سڑکوں کا کام مکمل ہوچکا ہے، ان پر باقی ماندہ کام بھی جلد ختم کیا جائے، تاکہ لوگوں کے مسائل میں کمی واقع ہو۔ اجلاس میں کنسلٹنٹ نے بتایا کہ فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث کام میں تعطل پید ا ہورہا ہے۔ برساتی نا لوں کے علاوہ کوئٹہ میں اہم اور مصروف ترین شاہ راہوں کو ملانے والے فلائی اوورز کی تعمیر کا منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ فلائی اوور پر بھی پچھلے دو سال سے کام جاری ہے ۔ سریاب روڈ، زرغون روڈ اور جوائنٹ روڈ کو ملانے والے تین ارب روپے کا فلائی اوور منصوبہ، وفاقی حکومت نے کوئٹہ کے لیے منظور کیا تھا۔

اس منصوبے پر کام تو شروع کر دیا گیا، مگر وفاقی حکومت نے اس کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے۔ منصوبے میں تاخیر کے باعث اس کی لاگت اب بڑھ کر پانچ ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ فلائی اوورز کے لیے وفاقی حکومت کی جا نب سے فنڈز نہ ملنے کے بعد صوبائی حکومت نے اپنے وسائل سے اس کے لیے فنڈز فراہم کیے ہیں۔  شہری حلقوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کوئٹہ بیوٹی فیکیشن پروجیکٹ پر کام کی سست رفتاری کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہو ئے غفلت برتنے والے ٹھیکے داروں اور انتظامیہ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور آیندہ کے لیے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عوامی مفاد کا کوئی بھی منصوبہ تاخیر کا شکار نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔