پیپلز پارٹی اور الیکٹیبلز کی سیاست

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 14 اکتوبر 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

متحدہ اپوزیشن کا ایک اجلاس چند سال قبل اسلام آباد میں ہوا۔ اس اجلاس میں آصف علی زرداری، میاں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن اور دیگر جماعتوں کے اہم رہنما شریک ہوئے تھے۔

میاں نواز شریف نے آن لائن شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں آصف زرداری نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹا جاسکتا ہے اور ان کے پاس اس کا فارمولہ موجود ہے۔

اس وقت اجلاس کے شرکاء نے آصف زرداری کی اس تجویز پر توجہ نہیں دی تھی مگر پھرکچھ عرصہ بعد آصف علی زرداری کا فارمولہ کارآمد ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی ۔ مخلوط حکومت میں بلاول بھٹو وزیر خارجہ بنے اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کو مختلف عہدے دیے۔ ان رہنماؤں میں پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے غیر منتخب رہنما بھی شامل تھے۔

جب چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی توڑ دی تو محسن نقوی کو پنجاب کا نگراں وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ انوار الحق کاکڑ نگراں وزیر اعظم بنے تو وفاقی کابینہ میں جو افراد وزیر بنائے گئے ان میں پانچ کا تعلق براہِ راست اور بالواسطہ طور پر مسلم لیگ ن سے ہے مگر دو وزراء کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے قریب ہیں۔

اگرچہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی تجویز پر جسٹس مقبول باقرکو نگراں وزیر اعلیٰ مقررکیا گیا اور ان کی کابینہ میں شامل کچھ وزراء کا کسی نہ کسی طرح تعلق پیپلز پارٹی سے ہے مگر میاں شہباز شریف کی دورِ حکومت کے آخری مہینوں میں کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن سے آصف زرداری کے بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم کے عہدے پر دیکھنے کی خواہش اور عملی صورتحال میں فاصلے بڑھ گئے۔

بلوچستان میں باپ پارٹی بنانے میں آصف زرداری کی کسی حد تک منشاء شامل تھی۔ زہری حکومت کے خاتمہ اور قدوس بزنجو حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بلوچستان اسمبلی کے اہم اراکین کراچی میں آصف زرداری سے ملے تھے۔

باپ پارٹی نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی تھی۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا تھا کہ بلوچستان پر پیپلز پارٹی کے اثرات بڑھ گئے ہیں، کئی عمائدین اور سردار پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ بلدیاتی انتخابات میں یہ بااثر افراد منتخب ہوئے تھے۔

بلوچستان کی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے بعض صحافیوں نے لکھا تھا کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے منحرفین کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ ان میں سے بھی کئی پیپلز پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے سابق منتخب اراکین کے لیے پیپلز پارٹی میں خاصی گنجائش ہے مگر ان اراکین نے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیارکی۔

آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب کے متعدد دورے کیے۔ بلاول بھٹو لاہور میں پیپلز پارٹی کے پرانے کارکنوں کے گھروں تک گئے مگر جو افراد ان دونوں رہنماؤں کے سامنے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے وہ پہلے درجہ کے الیکٹیبل (Electables) نہیں ہیں۔

انتخابات کی تاریخ کے بارے میں واضح اعلان نہ ہونے سے سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں میں مایوسی بڑھ رہی ہے کیونکہ یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آیندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنے گی، یوں جتنے دن انتخابات میں التواء پیدا ہوگا اتنے دن پیپلز پارٹی کے متوقع وزراء کا کاروباری نقصان ہوگا۔ امیدواروں پر سرمایہ کاری کرنے والے افراد کی دلچسپی کچھ کہیں اور ہوسکتی ہے۔

پروفیسر اعجاز فاروقی نے اپنی کتاب “The case of Karachi” میں لکھا ہے کہ جب عظیم شاعر فیض احمد فیض لیاری کھڈہ مارکیٹ میں عبداﷲ ہارون کالج کے پرنسپل تھے وہاں سندھی طلبہ نے فیض صاحب سے درخواست کی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے کہیں کہ وہ کراچی کو سندھ میں شامل کرنے کے لیے آواز بلندکریں۔

فیض احمد فیض نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط تحریرکیا تھا جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے مطالبہ کیا تھا کہ کراچی کو صوبہ سندھ میں شامل ہونا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت مخالف نعرہ لگا کر اور سوشل ازم کے نفاذ کے نعرہ پر مقبولیت حاصل کی تھی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بنیاد غریب، کسان، مزدور، دانشور اور صحافی تھے۔

پنجاب میں تقسیم سے قبل کمیونسٹ پارٹی نے کام شروع کیا تھا، یوں ٹریڈ یونین تحریک ارتقاء پذیر ہوئی تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں نے ترقی پسند نظریات کی ترویج کے لیے خاصی کوشش کی تھی۔

نیشنل عوامی پارٹی نے مولانا بھاشانی کی قیادت میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تاریخی کسان کانفرنس کی تھی مگر مولانا بھاشانی نے پاکستان کو خدا حافظ کہا، یوں نیپ کی نظریاتی سرمایہ کاری کا فائدہ پیپلز پارٹی نے بھرپور اٹھایا، اگر 70ء کی دہائی میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے بیشتر نیشنل عوامی پارٹی میں تھے، پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں کبھی بھی ایلیٹ اور متوسط طبقہ میں مقبول نہیں رہی۔

90ء کی دہائی سے پیپلز پارٹی کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت امراء اور متوسط طبقے کے ہاتھوں میں آئی۔ پیپلز پارٹی نے کسان اور مزدور تنظیموں اور بائیں بازوکی طلبہ تنظیموں ، ترقی پسند ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں سے ناتا توڑ لیا، اب پیپلز پارٹی الیکٹیبل کو پارٹی میں شامل کرنے لگ گئی۔

پیپلز پارٹی گزشتہ 15 برسوں میں سندھ کو ایک ماڈل صوبہ نہ بنا سکی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہی ہے، یوں سارا دار و مدار اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے حصول کے لیے رہ گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب کے ایک، ایک گاؤں میں پیدل چل کر لوگوں سے رابطہ کا طریقہ کار اختیار کیا۔

اب لاہور کے کروڑوں روپوں سے تعمیر ہونے والے بلاول ہاؤس سے سیاست کی جاتی ہے، یوں پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب میں گنجائش کم ہوگئی ہے، اگر ادارے نے ضرورت محسوس کی تو پیپلز پارٹی کو کچھ مل جائے گا، مگر پیپلز پارٹی کو غیبی مدد کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔