ہم تو اس چڑیا سے بھی بد تر ہیں!

شیریں حیدر  اتوار 19 نومبر 2023
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

نمرود ملک شغار کا بادشاہ تھا، اس کا قصہ بائبل میں بھی درج ہے۔ اس کا نام نمرود، بن کنعان بن سام بن نوح تھا، اس کا پائے تخت بابل تھا۔ اس کے زمانے میں دنیا کے چار بادشاہ تھے، ان میں سے دو مومن اور دو کافر تھے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام بن داؤد علیہ السلام اور حضرت ذوالقرنین اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر تھے۔ نمرود انتہائی ظالم اور جابر بادشاہ تھا، بادشاہوں کے سر پر تاج پہننے کی رسم اسی نے دریافت کی تھی، اس سے پہلے کوئی بادشاہ اپنے سر پر تاج نہیں پہنتا تھا۔ وہ خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور لوگوں سے اپنی پرستش کرواتا تھا۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنے لوگوں تک پہنچانا شروع کیا اور اللہ کی توحید کی دعوت لوگوں کو دینا شروع کی تو اس وقت کے بادشاہ نمرود کو یہ بات برداشت نہ ہوئی اور اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے حکم پر آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کروایا گیا۔

نمرود کی سلطنت کے ہرکارے دور دور سے لکڑیوں کے گٹھے لا کر اس الاؤ میں ڈالتے اور اس آگ کو بھڑکانے کی کوششیں کرتے رہے۔ کئی دن تک اس الاؤ کو بھڑکایا جاتا رہا، اس کی حدت اس قدر ہو گئی کہ ارد گرد کے علاقے بھی جہنم زار بن گئے ، وہاں بھی لوگوں کا رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کے باوجود بھی نمرود اس آگ کو مزید سے مزید بھڑکاتا رہا۔

نمرود کا خیال تھا کہ حضرت ابراہیم کی دعوت توحید جو کہ اس کی خدائی کے دعوے کی تردید کرتی تھی، اس سے بچنے کا واحد ذریعہ یہی تھاکہ حضرت ابراہیم کو آگ میں زندہ جلا دیا جائے۔ نمرود کے لشکر اس آگ کو بھڑکانے کی کوششوں میں تھے۔ اسی اثنا میں ایک چڑیا اس آگ کے گرد بے قراری سے پرواز کرتی نظر آئی، وہ ایک چکر لگاتی اور لوٹ جاتی، پھر واپس آتی۔

کسی صاحب حال بزرگ نے اس سے پوچھا کہ اے ننھی چڑیا، تو یہاں کیسے ہے اور بار بار کیا کرنے آتی ہے؟ چڑیا نے زبان حال سے جواب دیا کہ میں جب بھی آتی ہوں تو میری زبان میں پانی کا ایک قطرہ ہوتا ہے، وہ قطرہ میں نار نمرود پر ڈال کر دوبارہ پانی اپنی چونچ میں بھرنے کے لیے چلی جاتی ہوں اور پھر واپس آکر نمرودی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔

چڑیا سے سوال کرنے والے نے اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے چڑیا، تو بھی کیسی سادہ اور بھلی مانس ہے کہ جس آگ نے میلوں کے علاقے کو جہنم زار بنا رکھا ہے ، جس آگ کے شعلے آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں، جس آگ کو دہکانے اور بھڑکانے کے لیے نمرود نے اپنے سارے لشکر وقف کر رکھے ہیں، تو اپنی ننھی سی جان سے اس آگ کو کیسے بجھا سکتی ہے؟  وہ ایک چڑیا کہ جس کے پاس شاید دماغ بھی ہمارے دماغ کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوگا مگر اس کے ننھے سے دماغ میں جو کچھ آیا اور جس طریقے سے اس نے عمل کیا ہم تو اس کے پاسنگ بھی کچھ نہیں کر رہے ہیں۔

ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ دیکھتے ہیں، یا تو اسے scroll کر دیتے ہیں اور اگر پڑھتے ہیں تو ایک لمحے کے لیے ہلکا سا درد محسوس کرتے ہیں اور اس کے اگلے ہی لمحے ہم ٹک ٹاک پرراکھی ساون کی نئی ریل دیکھنا شروع کردیتے ہیں، درد کوبھلانا بھی تو ہوتا ہے۔

ہر ہر فورم پر شور مچا ہوا ہے کہ کم از کم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں … ان کی فہرستیں جاری کی جاتی ہیں اور ہم تھوڑی بہت کوشش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بائیکاٹ کریں مگر ان میں بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں کہ ان کے کچھ برانڈ کی مصنوعات ہماری پسندیدہ بھی ہیں اور ساری عمر سے ہم انھیں استعمال کررہے ہیں۔ کھانے پینے کی کتنی ہی چیزیں ہیں جنھیں ہم چاہیں تو ہمیشہ کے لیے بھی اپنی زندگیوں سے منہا کر سکتے ہیں۔

ہم سوشل میڈیا پر ان کا بائیکاٹ کرنے کی پوسٹ پڑھتے ہیں، اسے دوسروں کو بھی فارورڈ کرتے ہیں مگر میں اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر دیکھتی ہوں کہ ابھی تک لوگ بیٹھے وہ اسرائیلی مصنوعات کھا رہے ہیں۔دل اس قدر تکلیف میں ہوتا ہے کہ رات کو آنکھوں میں تیرتے ہوئے مناظر جو دن کو سوشل میڈیا پر دیکھے ہوتے ہیں، وہ نیند نہیں آنے دیتے۔

جس طرح فلسطین کے لوگ مصیبت کی گھڑی میں، امت مسلمہ کی طرف دیکھتے ہیں، فریاد کرتے ہیں، نبیء پاک ﷺ کا واسطہ دیتے ہیں ، اسے سن کر دل تڑپ اٹھتا ہے اور ہم کتنے بے حس ہیں، یہ سوچ کر خود پر شرم محسوس ہوتی ہے، ہم تو اس چڑیا سے کئی گنا زیادہ بد تر ہیں۔

ہم تو اس خوف میں بھی مبتلا نہیں ہوتے کہ روز قیامت ہم اللہ تعالی کے سامنے کس طرح کھڑے ہوں گے، اپنے پیارے نبیء پاک ﷺ کے سامنے کس طرح سر اٹھا کر کہیں گے کہ ہم مسلمان تھے، ہمارے اور فلسطین کے مسلمانوں کے بیچ وہی رشتہ تھا جو کہ آپ نے بتایا تھا کہ ایک جسم کی طرح تھے۔

ہمارے جسم کا ایک حصہ کٹتا ، درد سے چیختا، تڑپتا رہا، اس میں سے لہو بہہ بہہ کر غزہ کی گلیوں کو سیراب کرتا رہا جہاں برسوں تک اب لہو کے گلاب کھلیں گے۔

ہم بے حس نہ کچھ کر سکے نہ کیا کیونکہ ہم کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ کہنے کوہم مسلمان تھے، ساری نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے تھے، زکوۃ دیتے تھے، کئی عمرے اور حج بھی کیے… مگر جب تیری امت کے فلسطینی عوام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے اور یہود انھیں اس طرح ناپید کرنے کی کوششوں میں تھے جس طرح نمرود اور فرعون کے لشکروں نے ان کی سلطنت میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو مار کر اپنی دانست میں ان کی نسلیں ہی ختم کر دی تھیں مگر ان میں سے ہی موسی اور ابراہیم سلامت رہے اور ان کی تباہی کا باعث بنے۔

میں ان لوگوں کا جذبہء ایمانی دیکھتی ہوں تو دھاڑیں مار مار کر رونے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اب بھی اللہ کا نام لے لے کر پکارتے ہیں کہ اللہ ہی ان کی مدد کرے کیونکہ… انھیں معلوم ہے کہ امت مسلمہ اپنے اپنے مفادات کی قیدی ہے، اسرائیل کے سر پر امریکا کا ہاتھ ہے اور باقی ساری امت مسلمہ امریکا کے قدموں کو چوم رہی ہے۔ اس بے حسی پر افسوس ہے، اس طرز عمل پر افسوس ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔