(پاکستان ایک نظر میں)- پنجاب کے وزیراعلٰی کی خدمت میں چند باتیں

محمد سعید گھمن  منگل 27 مئ 2014
سنا ہے آپ کا ایک ہی شوق ہے جس ملک میں جاتے ہیں اُس ملک سےمتاثر ہو کر کوئی نہ کوئی اسکیم ملک درآمد کر کے لے آتے ہیں۔ فوٹو فائل

سنا ہے آپ کا ایک ہی شوق ہے جس ملک میں جاتے ہیں اُس ملک سےمتاثر ہو کر کوئی نہ کوئی اسکیم ملک درآمد کر کے لے آتے ہیں۔ فوٹو فائل

جنا ب عالی !
معمول کے مطابق جب آج کے اخبارات کا مطالعہ کررہا تھا تو روز کی طرح کوئی بڑی خبر تو نظروں سے نہیں گزری مگر پورے صفحے پر مبارکبادوں پر مشتمل ایک اشتہار دیکھا۔اِن پیغامات کو دیکھا تو خوشی سے پھو لے نہیں سمایا اور سوچا شاید آپ نے لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، دہشتگردی ،صحت اور تعلیم کے بنیادی مسائل حل کر دیے ہیں مگر جب نیچے دیکھا تو میرے سارے گمان چکنا چور ہوگئے کہ بنیادی مسائل تو اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور یہ مبارکبادیں توآپ کو میٹروٹرین کے منصوبے پر دی جارہی ہیں۔

اِس اشتہار کو دیکھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہم نے آپ کو ووٹ تو کسی اور مقاصد کے لیے دئیے تھےاور آپ سارے کام اُس کے برعکس کررہے ہیں۔ انتخابات کے دوران آپ نے وعدے تو بنیادی مسائل کے حل کے کیے تھے مگر اب کام کچھ اور کررہے ہیں ۔ وہ غریب ووٹرز جس نے پچھلی حکومت سے بیزار ہو کرآپ کو ووٹ دیا تھا کہ شاید آپ اِس بار ہمارے مسائل کردیں گے وہ اب کیا سوچ رہے ہونگے۔جناب اعلٰی آخر کیا اِن بڑے بڑے منصوبے سے غریب کی بھوک مِٹ جائے گی، اُن کی جان کو امان مل جائے گی؟ صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات کا مسئلہ حل ہوجائےگا؟

سرکار میں نے سنا ہے کہ آپ کا ایک ہی شوق ہے کہ جس ملک میں جاتے ہیں اُس ملک سے متاثر ہو کر کوئی نہ کوئی اسکیم اس ملک درآمد کر کے لے آتے ہیں۔آپ تُرکی گئے تو وہاں سے میٹرو بس سروس کا منصوبہ لائے جو اب راولپنڈی میں بھی شروع ہوچکی ہے اور اب چائنہ گئے تو وہاں سے متاثر ہو کراورنج میٹرو ٹرین پروجیکٹ لے کر آ گئے ۔ لیکن جناب اعلٰی اب تو آپ کی پنجاب کے ساتھ ساتھ وفاق میںبھی حکومت ہےتو کیا آپ نے باہر سے لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے، دہشتگردی پر قابو پانے، تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنے، اور غریب کو روز گار مہیا کرنے کا کوئی فارمولا باہر سے لانے کا بھی کوئی ارادہ کیا ہے یہ نہیں؟ وہ دن کب آئے گا کہ آپ کسی بیرون ملک دورے سے واپس آکر اپنی رعایا کہ یہ خوش خبری دیں گے کہ میں نے آپ کے بنیادی مسائل کے حل کا ایک منصوبہ منظور کرلیا ہے اور اب جلد آپ کو بجلی بھی ملے گی، روزگار بھی میسر ہوگا اور تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیت سے بھی آپ مستفید ہوسکیں گے۔

مجھے ذاتی طور پر میٹرو بس اور میٹرو ٹرین سے بہت زیادہ اختلاف نہیں ہے لیکن ذرا ایک بار اُن ووٹرز کے بارے میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے جن کی اکثریت شہروں سے نہیں بلکہ دیہاتوں سے تعلق رکھتی ہےجو انتہائی غربت و افلاس میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کیا آپ کے یہ منصوبے غریب کے مسائل حل کرنے کے لیے کافی ہیں۔میرا یہاں ہر گز مقصد تنقید برائے تنقید نہیں ہے ۔ بس اِس بات کا خواہ ہوں کہ اگر حکومت وقت اربوں روپے بڑے بڑے منصوبوں پر خرچ کررہی ہےاور پھر بھی غریب کی زندگی بہتر نہیں ہورہی تو یقینی طور پر یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ۔

میری بھی خواہش ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے عوامی مفاد کے لیے اُٹھائے ہر فیصلہ کا خیرمقدم بھی کروں اور اُس پر خوشی اور مسرت کا اظہار بھی کروں مگر سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیسے کروں ؟ کیونکہ جناب میں نے آپ کی جانب سےشروع کی گئی ہر اسکیم یہ سمجھا کہ اب کچھ تبدیلی آجائے گی مگر ہر بار دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس مقصد کے لیے وہ پروگرام شروع کیا تھا اُس میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ پھر چاہے بات سستی روٹی اسکیم کی ہو، ییلو اور بلیک کیب ٹیکسی کی ہو، لیپ ٹیب کی اسکیم ہو یا پھر دانش اسکول اور آشیانہ ہاوسنگ اسکیم۔ کیونکہ نہ تو غریبوں کو دانش اسکول میں تعلیم ملی اور نہ ہی اُن کو آشیانہ ہاوسنگ اسکیم میں کوئی چھت۔ لیپ ٹاپ جن کو ملنا چاہیے تھا اُن کے علاوہ ہر کسی کو مل گیا۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ جذبات میں فیصلے تو ہوجاتے ہیں مگر کچھ عرصے بعد اِس بات پر یقین ہوجاتا ہے کہ جذبات کے فیصلے اکثر ٹھیک نہیں ہوتے۔ اور ابھی یوتھ لون اسکیم کا معاملہ جاری و ساری ہے۔ اُمید تو اِس بار بھی یہی کرتا ہوں کہ ضرورت مندوں کو اُن کا حق ضرور ملے گا باقی تو وقت ہی بتائے گا۔

جناب اعلٰی اِس لیے اب بھی وقت ہےآپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ عوام کا پیسہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے صرف ہونے چاہیے ۔کچھ جذبات کو قابو میں رکھیے، اور کچھ لوگوں سے مشورہ بھی کیجیے۔ مشورے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ اِس طرح کام کو بہتر بنایاجاسکتا ہےتاکہ اِتنی محنت کے باوجود بھی آپ کو تنقید اور برائی نہ سننی پڑے بلکہ عوام آپ کو اچھے نام کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔