کشمیریوں پر مظالم، بھارت کے ماتھے پر کلنک

ایڈیٹوریل  ہفتہ 16 دسمبر 2023
بھارت اپنے حجم اور عالمی سطح پر سفارتی اثر و رسوخ کے باوجود کشمیری عوام کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار پائے گا۔ فوٹو:فائل

بھارت اپنے حجم اور عالمی سطح پر سفارتی اثر و رسوخ کے باوجود کشمیری عوام کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار پائے گا۔ فوٹو:فائل

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر پر غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلہ دیا ہے۔

کٹھ پتلی عدالتی فیصلوں سے زمینی حقائق نہیں بدلے جاسکتے، دنیا کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

بلاشبہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم نے کشمیریوں کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ بھارت کے غاصبانہ قبضے اور ظلم و جبر کی سیاہ رات جلد ختم ہو جائے گی اور پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جاری جدوجہد میں ان کی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔

بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کے بعد اہم سوال سامنے آیا ہے کہ کیا حق خود اختیاری کے بنیادی انسانی حق سے کشمیریوں کو مستقل طور سے محروم کردیا گیا ہے؟ اس کا جواب تاریخ اور زمینی حقائق کے تناظر میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

درحقیقت مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا تنازع ہے جو تقسیمِ ہند فارمولے کے تحت حل ہونا باقی ہے۔

1948 کی بغاوت سے گھبرا کر بھارت نے خود ہی یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں پیش کیا اور وعدہ کیا کہ حالات معمول پر آتے ہی وادی کے مکینوں کو حقِ خود اِرادیت دیا جائے گا تاکہ وہ خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں کہ بھارت کا حصہ بننا ہے یا پاکستان میں شامل ہونا ہے، جس کے لیے بھارت کے زیرِ تسلط مقبوضہ کشمیر اور پاکستانی حصے آزاد کشمیر میں یو این او امن مشن تعینات کیے گئے۔

اسی مسئلے پر 1965 میں پاک بھارت جنگ بھی ہوئی جس میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے لیکن مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا۔ 1971 کی جنگ کے محرکات سے بھی مسئلہ کشمیر کو کسی صورت خارج نہیں کیا جاسکتا مگر بدقسمتی سے اِس میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا جس سے بھارت کو حوصلہ ہوا کہ وہ کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کے مذموم عمل کو پروان چڑھائے۔

شملہ معاہدے کی دو طرفہ مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی شق پر دونوں حکومتوں کی رضامندی اور اتفاق نے بھارت کو جواز دیا ہے کہ کشمیر پر یکطرفہ اقدامات کرے اب وہ اقوامِ متحدہ کی دو درجن سے زائد منظورکی جانے والی قرار دادوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔

پاکستان، پانچ اگست 2019 کے فیصلے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ خطے میں پرامن ماحول قائم کرنے اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے کشمیر کی حیثیت کو پہلے کی پوزیشن پر بحال کیا جائے۔

پاکستان نے یہ مطالبہ تسلیم ہونے تک بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کیا تھا، اگرچہ یہ سفارتی پوزیشن سابقہ وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین نے اختیار کی تھی لیکن بعد میں قائم ہونے والی وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے بھی اسی موقف پر عمل کیا اور اب نگران حکومت تو پرانی کشمیر پالیسی دہرانے کے سوا کوئی اقدام کرنے نہیں اٹھا رہی ہے۔

مودی حکومت کے 5 اگست 2019کے پارلیمانی فیصلے کو چیلنج کرنے والے سبھی درخواست گزاروں نے یہ آئینی نقطہ اٹھایا تھا کہ کیا کسی ریاست کا درجہ گھٹا کر اسے مرکزی انتظام والا خطہ قرار دینے اور اس کی آئینی حیثیت ختم کرنے کا اختیار اس ریاست کا ہے یا پارلیمنٹ کا؟ انڈین حکومت نے ان قانونی نکات کے جواب میں استدلال پیش کیا کہ جب ریاست میں منتخب حکومت کے بجائے صدارتی راج نافذ ہو تو پارلیمنٹ ریاست کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لے سکتی ہے۔

جب کشمیر کے پہلے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو 1953 میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے معزول کیا اور اس عمل سے کشمیر میں بے چینی کا عالم پیدا ہوا تھا جس کے خاتمے کے لیے جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی آرڈر کے ذریعے انڈین آئین میں دفعہ 370 کو شامل کیا گیا تھا۔ اس دفعہ کے تحت جموں کشمیر کا اپنا علیحدہ آئین، ٹیکس نظام تھا اور یہاں کی نوکریاں صرف یہاں کے مستقل باشندوں کے لیے مخصوص کر دی گئیں۔

انڈیا کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی باشندہ نہ یہاں ملازمت حاصل کر سکتا تھا، نہ زمین خرید سکتا تھا اور نہ ہی ووٹ ڈال سکتا تھا، حالانکہ دیگر انڈین ریاستوں کی طرح اب جموں و کشمیر کا بھی باقاعدہ گورنر اور وزیراعلیٰ تھا لیکن ایک طرح کی نیم خود مختاری تھی، جسے ہٹانے کا عزم بی جے پی نے کئی دہائیاں قبل کر لیا تھا۔

سال 2014 میں بی جے پی کے مرکزی رہنما نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بن گئے تو بی جے پی رہنماؤں نے اعلان کیا کہ دفعہ 370 ختم کر کے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے، سال 2019 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے صرف دو ماہ بعد پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ نے ’’جموں کشمیر تنظیم نو‘‘ کے عنوان سے بل پیش کیا جو اکثریت سے پاس ہوگیا۔

اس بل کے مطابق جموں و کشمیر سے لداخ کا خطہ الگ کر کے اسے بغیر اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا جب کہ جموں و کشمیر کو اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا، جب کہ اس اعلان سے دو روز قبل کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ ٹیلیفون، موبائل فون اور انٹرنیٹ سہولیات معطل کی گئیں اور سبھی سیاسی لیڈروں کو قید کر دیا گیا۔

یہ سلسلہ چند ماہ تک جاری رہنے کے بعد زندگی بحال تو ہوئی تاہم جموں و کشمیر کا آئین منسوخ کردیا گیا اور وفاق کے 800 سے زیادہ نئے قوانین کشمیر میں نافذ کر دیے گئے ان سب اقدامات سے چند سال قبل ہی علیحدگی پسند جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور ان کے رہنماؤں کو جیلوں میں قید کر دیا گیا تھا جب کہ انڈیا نواز رہنماؤں کو بھی سرکاری گیسٹ ہاؤسز میں نظر بند کیا گیا تھا۔

آرٹیکل 370 کے ختم کرنے کے کیس میں 16 روز تک بھارت کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، اس سماعت کے دوران 1947 میں جموں کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کی شرائط سے متعلق پیچیدہ قانونی پہلوؤں پر بحث ہوئی، لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندراچود نے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں آرٹیکل 370 کی حیثیت کو عارضی قرار دیا اور اس صدارتی آرڈیننس کو جائز بتایا جس کا واضح مطلب خود مختاری کو زندہ درگور کرنے کی کوشش تھی۔

آرٹیکل 370 ہٹانے کے بعد مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری ہوگی اور صرف چھ ماہ کے اندر پچاس ہزار نوکریاں فراہم کی جائیں گی اور کشمیری بھی انڈیا کے شانہ بہ شانہ ترقی کریں گے، لیکن طویل قدغنوں کے بعد جب زندگی بحال ہوگئی تو سرکاری تعیناتیوں سے متعلق ایک کے بعد ایک اسکینڈل سامنے آنا شروع ہوگئے اور حکومت کو کم ازکم ایسی چار فہرستوں کو کالعدم کرنا پڑا جن میں کرپشن اور چور دروازے سے تعیناتی کے انکشافات ہوئے تھے۔

دراصل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) ہندوتوا کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی ریاست کو ناجائز طور پر ختم کرنے کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما ہے۔

اس کا ثبوت ساری دنیا نے دیکھا کہ اس اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بگاڑ کر وہاں غیر کشمیری ہندوؤں کو آباد کرنا تھا، جس پر فوری عملدرآمد شروع کیا گیا پھر کشمیری ہندوؤں کی مقبوضہ ومتنازع علاقے میں آباد کاری کے علاوہ مودی حکومت نے وہاں صنعتی زون قائم کرنے کے نام پر ہزاروں ایکٹر اراضی زبردستی سرکاری تحویل میں لے لی ہے۔

یہ کشمیریوں کے خلاف ایک اور گھناؤنی اور بڑی سازش ہے۔ اس سازش کا مقصد بھارتی صنعت کاروں کو لاکر مقبوضہ کشمیر میں صنعتیں لگانا اور پھر ان میں کام کرنے کے لیے غیر کشمیری بھارتی ہندوؤں کو وہاں لانا ہے، تاکہ ان کو وہاں بسا کر کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ دراصل مودی سرکار ہر طریقہ سے بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال کبھی بھی خوش آیند نہیں رہی۔ عالمی تنظیمیں مسلسل اس طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں۔

بھارت اپنے حجم اور عالمی سطح پر سفارتی اثر و رسوخ کے باوجود کشمیری عوام کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار پائے گا۔ اس نا انصافی کو ختم کیے بغیر بھارت کو عالمی برادری میں وہ مقام و مرتبہ نہیں مل سکتا جو ایک حقیقی جمہوری اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والے ملک کو حاصل ہوتا ہے۔

دیگر ممالک اپنے وقتی معاشی یا سفارتی مفادات کے لیے ضرور بھارت کی حمایت کر سکتے ہیں لیکن انسانیت کے خلاف جرائم کا کلنک بہرحال اس وقت تک اس کے ماتھے کا نشان بنا رہے گا جب تک وہ اپنے ملک کے مختلف خطوں میں آباد لوگوں کے حقوق کا احترام کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔