تھوڑا تھوڑا یاد ہے! (پہلا حصہ)

راؤ منظر حیات  پير 18 دسمبر 2023
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

1972میں والد محترم کو خط موصول ہوا کہ میرا داخلہ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ہو چکا ہے۔ دراصل ماں جی کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ اس عظیم درسگاہ میں تعلیم حاصل کروں۔ ماضی میں والدین اپنے بچوں کو سخت کوش بناتے تھے۔

تعلیم کے میدان میں بہتر کارکردگی حاصل کرنے کے لیے گھر میں اسکول سے زیادہ سختی کی جاتی تھی۔ اچھی طرح یاد ہے کہ کیڈٹ کالج میں داخلے کے لیے تحریری امتحان‘ لوئرمال پر واقع لاہور کے سب سے پرانے اور کشادہ اسکول میں ہواتھا۔ عمر یہی کوئی گیارہ برس تھی ۔ خیر تیاری خوب تھی۔ لہٰذا امتحان پاس کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔

اس کے بعد انٹرویو کا سلسلہ تھا۔ یہ مرحلہ ایچی سن کالج میں طے ہوا۔ کرنل این ڈی حسن اس وقت کالج کے پرنسپل بن چکے تھے۔ انھوںنے انٹرویو لیا، اس وقت کالج کا ایک درزی ملحقہ کمرے میں یونیفارم کے لیے ناپ لے رہا تھا۔

درزی نے راز داری سے بتایا کہ آپ کا داخلہ ہو چکا ہے۔ کیونکہ پرنسپل صاحب کا حکم ہے کہ کامیاب بچوں ہی کے لیے یونیفارم سلنی ہوتی ہے۔ بہر حال جب کالج سے خط ملا کہ سلیکٹ ہو چکا ہوں۔ تو مجھے از حد خوشی ہوئی۔ خوشی کی اصل وجہ یہ تھی کہ میری والدہ اس داخلہ پر بہت پرمسرت تھیں۔ انھیں یقین تھا کہ کم از کم پاکستان میں اس بلندسطح کا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے اور یہ بات سو فیصد درست تھی۔

خیر مئی کے مہینے میں آٹھویں کلاس میں داخلہ ہوا، یہ بورڈنگ اسکول تھا، یہاں آٹھویں سے ایف ایس سی تک‘ یعنی پانچ برس وقت گزارنا تھے ۔

یہ پانچ برس بچے کے ذہن اور کردار کو بدل دیتے ہیں۔مجھے یہ معلوم نہیں تھاکہ جہاں اب پڑھنے آیا ہوں، وہ ایک ملٹری اسکول ہے۔ یہاں ڈسپلن اور ڈیلی روٹین سو فیصد فوجی طرز کی تھی۔ آٹھویں کلاس کالج کی سب سے جونیئر کلاس تھی چنانچہ ہرسینئر کو آپ پر سختی کرنے کا قانونی حق تھا۔ مجھے، والد صاحب خود یہاں چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔

استقبالیہ کیمپ میں حد درجہ مستعدسینئر کیڈٹ بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوںنے بڑی عزت اور آرام سے مجھے وصول کیا۔ والد صاحب کو تسلی دی۔ وہ واپس تشریف لے گئے۔ اب میں تھا اور استقبالیہ کیمپ میں میرا ایک سینئر تھا۔ مجھے اورنگ زیب ونگ الاٹ ہوا تھا۔

ایک سینئر میرے نزدیک آیا اور کہا کہ چلو اپنا سامان اٹھاؤ اور ونگ تک لے کر آؤ۔سرخ رنگ کا میرا یہ بکسہ خاصا وزنی تھا۔ سینئر کی خاکی وردی پر اس کا نام مسعود لکھا ہوا تھا۔ مجھے علم نہیں تھاکہ سینئر کو اس کے نام سے نہیں بلانا بلکہ سر کہہ کے مخاطب کرنا ہے، میں نے کہا کہ یار ذرا ‘ سامان لے جانے میں میری مدد کرو۔

یہ طرز مخاطب ڈسپلن کے خلاف تھا۔ مسعود نے اسی مقام پر مجھے مرغہ بنا دیا۔ بیس منٹ تک یہ سزا بھگتنے کے بعد مسعود اختر نے حکم دیا کہ اب کھڑے ہو جاؤ اور اپنا سامان گھسیٹ کر اپنے ونگ میں لے جاؤ۔ مسعود اختر ایک برس سینئر تھا۔ بعد میں اس سے دوستی ہو گئی، اس نے میٹرک میں سرگودھا بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی۔

اورنگ زیب ونگ پہنچا تو ایک ڈوم میں سامان رکھنے کا حکم ملا۔ ڈوم کا لفظ شائد آپ کے لیے شناسا نہ ہو۔ ویسے اس وقت‘ مجھے بھی‘ اس کا مطلب نہیں پتہ تھا ۔ یہ ایک لمبا چوڑا کمرہ تھا۔ جس میں آٹھ بیڈ دونوں طرف لگے ہوئے تھے۔ ہر بیڈ کے ساتھ پڑھنے کے لیے ایک کرسی اور میز تھی۔ بیڈ کی پچھلی طرف ایک الماری تھی ۔

جس میں قرینے سے آپ نے خود کپڑے تہہ کر کے رکھنے تھے۔ بیڈ پر چادر بھی خود بچھانی تھی۔ میں نے یہ کام کبھی نہیں کیے تھے مگر تھوڑی دیر میں سب کچھ آگیا، حالات اور وقت ‘ انسان کو سب کچھ سکھا دیتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہوا ۔ میرے ساتھ والا بیڈ خالد محمود کا تھا۔ جو چارلی کے نام سے ایسا مشہور ہوا کہ مرتے دم تک اس کا یہی نام رہا۔ جلد ہی وہ میرا لنگوٹیا یار بن گیا۔

ڈوم میں سولہ کے لگ بھگ طالب علم تھے۔ پہلی رات‘ کالج میں ہم سب کے لیے ایک میجک شو کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں جانے کے لیے‘ سب نے ڈنر سوٹ پہن رکھا تھا۔ مگر فوجی بوٹ پہلی بار پہنے تھے، ان کے تلوے کے نیچے‘ لوہے کے دانے دانے سے لگے ہوئے تھے۔ اکثر طالب علم فرش پر اس وجہ سے پھسل جاتے تھے۔ نزدیکی بیڈ پر رضوان ہاشم تھا۔

وہ جیسے ہی جوتے پہن کر چلنے لگا تو دھڑام سے گر گیا۔ سب نے قہقہے لگانے شروع کر دیے۔ تقریباً ہم سب یکے بعد دیگرے پھسل رہے تھے۔ خیر کافی تردد سے میجک شو تک پہنچے۔ تو ایک روایتی جادوگر اسٹیج پر کھڑا کرتب دکھا رہا تھا۔

وہ ایک بڑے سے لفافے میں سے چند چیزیں نکالتا تھا ۔ پھر زور سے کہتا تھا۔ One More یعنی ایک اور چیز بھی نکلے گی۔بہر حال ’’ون مور‘‘ کا جملہ ٔ اتنا پر کشش تھا کہ آج تک ہم پرانے دوست گفتگو کے دوران ون مور کہتے ہیں اور پھر قہقہے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

کیڈٹ کالج میںد ن کی روٹین ’’شروع شروع میں حد درجہ دشوار معلوم ہوئی۔ صبح ساڑھے چھ بجے‘ سلیپنگ سوٹ اتار کر پی ٹی کرنے کے لیے نیکر اور بنیان پہننی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں جوگرنہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا سفید رنگ کے فلیٹ بوٹ ہوتے تھے۔ تیس منٹ پی ٹی کرنے کے بعد‘ ونگ آتے تھے۔ پھر خاکی یونیفارم پہنتے تھے۔

اسی اثنا میں میس کی طرف ناشتے کے لیے جانا ہوتا تھا۔ واپسی پر‘ ٹوپی اور بیلٹ کا اضافہ ہوتا تھا اور اکیڈمک بلاک میں کلاس شروع ہو جاتی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ دو بجے ‘ لنچ کے لیے جاتے تھے۔ واپس آ کر سفید کرتا شلوار پہننا ہوتا تھا۔ چار بجے‘ دوبارہ سپورٹ ڈریس پہنا جاتا تھا۔ کھیل کے ایک گھنٹے کے دورانیہ کے بعد دوبارہ کرتا شلوار پہننا ہوتا تھا۔

اس کے ساتھ رام پوری ٹوپی پہن کر مغرب کی نماز کے لیے ‘ مسجد جانا ہوتا تھا۔ واپس آ کر واکنگ آؤٹ ڈریس پہن کر ذاتی پڑھائی کا ایک حد درجہ سنجیدہ پریڈ ہوتا تھا۔ اسی ڈریس میں ڈنر کے لیے میس روانہ ہوتے تھے۔ واپس آ کر ‘ دوسرا اسٹڈی پریڈ ہوتا تھا۔ جس میں سفید کرتا شلوار پہن لیتے تھے۔ ٹھیک ساڑھے نو یا دس بجے‘سلیپنگ سوٹ پہننا ہوتا تھا۔ اور پھر لائٹس آف ہو جاتی تھی۔ یاد ہے کہ دو تین منٹ میں ہم تمام بچے نیند کی وادی میں گم ہو جاتے تھے۔ دن میں متعدد بار کپڑے بدلنا اب عادت سی بن چکی تھی۔ جو آج تک قائم ہے۔

اتوار کا دن چھٹی کا ہوتا تھا۔ ویسے میں نے بطور طالب علم اپنی روٹین حد درجہ سخت بنائی ہوئی تھی ۔ صبح ساڑھے چار بجے اٹھتا تھا۔ تمام مضامین کے سبق یاد کرتا تھا۔ پھر فجر کی اذان دینے کے لیے مسجد چلا جاتا تھا۔ بچپن میں دو چیزوں سے عشق تھا۔ ایک تعلیم اور دوسرا مذہب‘ کوشش کرتا تھا کہ جو بھی وقت ملے، اس کو ضایع نہ کروں اور اکیلا پڑھتا رہوں۔

اکثر باقی طالب علم میرا مذاق اڑاتے تھے۔ اتوار والے دن بھی‘ خالد چارلی ‘ رضوان ہاشم اور میں‘ مسجد میں جا کر خاموشی سے پورے ہفتے کے مضامین کو حد درجہ سنجیدگی سے پڑھتے رہتے تھے۔ بس ایک دھن تھی کہ والدین ہم پر اتنا خرچ کر رہے ہیں، ہمیں اس اعتماد پر پورا اترنے کے لیے ‘ ہر وقت پڑھنا چاہیے۔ اب واپس مڑ کر دیکھتا ہوں تو سب کچھ خواب سا لگتا ہے۔ حد درجہ محنت کی بدولت‘ میٹرک میںکالج میں اؤل پوزیشن حاصل کی۔  (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔