میزان عقل کے دو پلڑے

زاہدہ حنا  بدھ 20 دسمبر 2023
zahedahina@gmail.com

[email protected]

چند دنوں پہلے کراچی میں ’’ ایوان جوش‘‘ کا افتتاح ہوا۔ جوش، فکر و خیال کی آزادی، انسانی ترقی کی بنیاد، جرأت اظہار کی ایک بڑی علامت تھے۔

امید ہے کہ یہ ادارہ جوش کے افکار اور فکری جرأت کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ جوش کے حوالے سے جرأت فکرکی تاریخی روایت کا ذکر کرنا، معاشرے میں موجود جمود کو توڑنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

سقراط سے جوش تلک تمام زمانوں اور تمام زمینوں اور تمام زبانوں میں ان گنت مفکرین کے نام ہیں جنھوں نے انکار کا علم بلند کیا اور جرأت اظہار کو ایمان جانا۔ انکار اور جرأت اظہارکی اس عظیم اور ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی روایت کا جائزہ لیے بغیر جوش کی فکری جرات پر بات کرنا ممکن نہیں ہے۔

یہ سقراط ہی کا زمانہ تھا جب سوفو کلیز کی اینٹی گنی انکار اور جرات اظہار کی نئی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ ایک ایسے سماج میں ہی جرأت فکر اور جرأت اظہار رکھنے والا سقراط پیدا ہوسکتا ہے۔

نیک و بد کی یہی پہچان انسان کو انکارکی تاب اور جرأت بخشتی ہے۔ اس جرأت فکر کی تاریخ ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں سرفہرست یونانی فلسفی، ادیب اور شاعر ہیں جو آزاد خیالی کے باوا آدم کہے جاتے ہیں اور جن کا انکار، جن کی جرأت اظہار کبھی کبھی تو دیوانگی کی حدوں کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ان کاایمان تھا کہ آزادی فکر و خیال ہی انسانی ترقی کی نہاد و بنیاد ہے۔ اس لیے اس کے پھیلانے میں بھرپور جرأت دکھانی چاہیے۔ ارسطو کی جرات فکر نے اسے جان بچانے کے لیے ایتھنز سے نقل مکانی پر مجبور کیا۔ افلاطون تمام دیوی ، دیوتاؤں اور اساطیری قصوں کو یکسر رد کرتا رہا۔

گلیلیو کو اپنے سائنسی نظریے کی پاداش میں ذلت و خواری سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ اس کا زمینی نظریہ، مروجہ عقائد سے متصادم تھا۔

اپنی جرأت اظہار کے نتیجے میں برونو زندہ جلایا گیا۔ یہ والٹیر تھا جس نے عہد نامہ عتیق کی جغرافیائی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’خداوند خدا کا جغرافیہ کمزور تھا۔ چنانچہ اس کی کتابیں چوک میں نذر آتش ہوئیں۔ دیدروکے فلسفہ تشکیک نے اسے بندی خانے کی سیر کرائی۔ نطشے، فیور باخ، مارکس اور اینگلز جرأت اظہار کی بلندی تک پہنچے۔

انھوں نے غیب سے خیال میں آنے والے مضامین کو رد کرتے ہوئے، زمین حقائق کے صحیفے مرتب کیے۔ آج مشرق پر مغرب کی فوقیت کا ایک بہت بڑا سبب اس کے دانشوروں کی جرأت فکر اور اظہار خیال ہے، وہ کسی فرد کے لیے نہیں پورے سماج کے لیے جرأت فکر اور آزادی اظہار کے طلب گار تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی فکر کو فروغ دینے والا اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے والا سماج کی ترقی کرسکتا ہے۔

جوش جو بیسویں صدی کے اردو ادب میں جرأت فکر اور جرأت اظہار کے حوالے سے ایک بڑا نام ہیں وہ اس اسلامی فکر کے وارث ہیں جس کے اکابرین اپنے زمانے میں عقیدہ پرستوں کے سب و شتم کا نشانہ رہے۔ ان میں عمر بن عبید اللہ، ابن سینا، ابوبکر رازی، ابوحیان، ابن رواندی، ابن تیمیہ اور عمر خیام بالکل سامنے کے نام ہیں۔

اسلامی تاریخ میں جرأت اظہارکی سب سے بڑی مثال منصور حلاج کی ہے۔ وہی منصور جو بظاہر ’’ انا الحق‘‘ کہنے کی پاداش میں تین دن اور تین راتوں میں کتر کتر کر ہلاک کیا گیا، مگر بہ باطن سب ہی جانتے تھے کہ اس کی وسیع المشربی، صوفیانہ تصورات اور سیاسی نظریات اسے ذبح کرانے کا سبب ہوئے۔

اورنگ زیب کے تنخواہ دار علماء نے بھی سرمد کے سیاسی اختلاف پر ارتداد کا پردہ ڈالا اور وہ جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر قتل ہوا۔ فکری جرأت و اظہار کی شاندار روایت ہمیں مولانا جلال الدین رومی کے یہاں ملتی ہے۔

قرۃ العین طاہرہ نے انیسویں صدی میں انحراف و انکار کی اسی روایت کو اختیارکیا اور جرات فکر کی قیمت اپنی جان سے چکائی۔ بیسویں صدی میں جرأت اظہار کا یہ سلسلہ فروغ فرخ زاد اور دوسرے فارسی شاعروں تک دراز ہوتا نظر آتا ہے۔

سرکار و دربار کے معتوبین میں ہم میرزا جعفرز ٹلی کا نام کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ جس نے اپنے عہد کے سیاسی و سماجی حالات کے بارے میں جرأت و بے باکی سے کہا۔ اپنی اسی جرأت اظہار کے نتیجے میں وہ فرخ سیر کے حکم پر قتل کیا گیا۔

وارث شاہ، بلھے شاہ، خواجہ فرید اور شاہ لطیف ہیں جو اپنے اپنے حوالوں سے انکار اور جرأت اظہار کے نئے اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ غرض کیا میر، کیا غالب اور کیا اقبال، کیا رومی و سعدی، عرفی شیرازی اور شاہ فضل مشہدی، نعیمی کون ہے جس نے فکری جرات انکار اور جرات اظہارکا مظاہرہ نہیں کیا۔

جوش انکار و انحراف کی اسی شاندار روایت کا تسلسل اور توسیع ہیں۔ توسیع اس حوالے سے کہ انیسویں صدی کے خاتمے اور بیسویں صدی کے اوائل تک ہمارے شعرا اور ادبا کی جرأت فکر اور جرأت اظہار اہرمن و یزداں، شیخ و برہمن، کعبہ و کلیسا اور دربارکے عصا بردار پر اپنی تلوار کے جرأت دکھاتی تھی۔

یہ بیسویں صدی تھی جب اس جرأت اظہار نے استعمار کی یلغار اور سیاست کی وادی پرخار کو اپنا موضوع بنایا۔ ان کی نظمیں ’’دین آدمیت‘‘، ’’طلوع فکر‘‘، ’’ایک مکالمہ مابین بندہ و خدا‘‘ ان کا طویل منظوم ڈراما ’’حرف آخر‘‘ ان کی جرأت فکر کی داستان سناتی ہیں۔

جوش نے جس دور میں آنکھ کھولی، ہوش سنبھالا، وہ ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ ایک طرف ہندوستان میں فرنگی استعمار سے آزادی کا غلغلہ تھا۔

دوسری جانب دنیا جنگ عظیم کی چکی میں پس رہی تھی اور تیسری طرف سوویت یونین کی جانب سے آنے والی ہواؤں میں سرخ انقلاب کی سنہری گرمی تھی۔ اس صورتحال نے جوش کے التہاب نے انھیں نعرہ انقلاب بلند کرنے پر مجبور کیا۔ جوش سماج کے مروجہ عقائد اور رسوم و روایات سے انکار و انحراف کی مہیب قوت اور اسے بیان کرنے کی بے مثال قدرت رکھتے تھے۔

لیکن ان کی رندی اور سر مستی نے انھیں دوسرے بہت سے کاموں میں الجھائے رکھا۔ وہ جرأت اظہار کے رہوار پر سوار منزلوں پر منزلیں مارتے گئے اور داد و بے داد کو ایک شان بے نیازی سے سنتے گئے۔

انھوں نے ترک عقائد کے نعرے تو بہت لگائے لیکن کبھی ’’ قشقہ‘‘ کھینچ کر دیر میں نہیں بیٹھے۔ کسی شمس تبریز کے فراق میں جامہ چاک کرکے جنگلوں کی تنہائیوں میں نہیں نکلے۔ محفل آرائیوں سے منہ موڑ کر انھوں نے اپنی ذات کے سمندر میں غواصی نہیں کی۔ جرأت فکر اور جرأت اظہار، میزان عقل و خرد کے دو پلڑے ہیں۔

یہ پلڑے جب برابر رہیں تب ہی مقالات افلاطون کا نزول ہوتا ہے۔ تب ہی ’’طواسین‘‘ لکھی جاتی ہے اور جوش نے اپنی اخلاقی اور شاعرانہ وفور کا بیشتر وزن جرأت اظہار کے پلڑے میں ڈالا۔ جوش کو ملحد و بے دین، کافر وزندیق کہنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کا جی چاہتا ہے۔

وہ پیر و فقیہہ اور شیخ و برہمن سے تنگ آئے اور ستائے ہوئے تھے۔ اس لیے انھوں نے کٹر پن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ عشق رسولؐ اور عشق امامؓ میں گرفتار اس شخص نے احترام آدمیت، عقل پرستی، انسان دوستی اور ادب شناسی کے اجزا سے اپنا مذہب تشکیل دیا۔

اردو ادب میں انحراف انکار اور جرأت اظہار کے حوالے سے جوش بیسویں صدی کا آخری بڑا نام ہیں۔

انھوں نے لفظوں کے سیل رواں سے شوریدہ سری کے طوفان اٹھائے، اس میں کوئی ان کا ہم سر نہیں۔ ایک فتنہ اوہام میں گرفتار سماج کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں سطح پرہلچل مچانا بھی ایک بڑا کارنامہ ہے اور جوش نے یہ کام خم ٹھونک کر کیا۔ جوش کے ساتھ بیسویں صدی بھی ختم ہوئی۔ آج ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ صدی میں انحراف و انکار اور جرأت اظہار کے سمندروں کی شناوری کس کے حصے میں آئے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔