فلسطینی قیادت متحد ہو

ایڈیٹوریل  جمعـء 22 دسمبر 2023
فلسطین کا تنازع کیسے حل ہو گا‘ اس کے بارے میں دو نقطہ نظر سامنے ہیں۔ فوٹو: فائل

فلسطین کا تنازع کیسے حل ہو گا‘ اس کے بارے میں دو نقطہ نظر سامنے ہیں۔ فوٹو: فائل

غزہ اور مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں کو تاحال جنگ جیسے حالات کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی فورسز اب بھی فلسطینی علاقوں میں کارروائیاں کر رہی ہیں۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے 7 اکتوبر سے غزہ پر جاری حملوں میں فلسطینی شہدا کی تعداد 20 ہزارتک پہنچ گئی ہے۔فلسطینی وزارت صحت کے حکام کے مطابق غزہ میں ان بیس ہزار شہداء میں 8 ہزار معصوم بچے ہیں جب کہ 6 ہزار 200 خواتین ہیں۔

غیرملکی میڈیا تصدیق کر رہا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے تاحال جاری ہیں۔ جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی بمباری سے ایک روز میں 46 افراد شہید ہوگئے۔ مسلسل جنگ کے نتیجے میں66 فیصد فلسطینی اپنے روزگار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔غزہ میں کاروباری زندگی معطل ہے‘ ایسے میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے کوئی روز گار نہیں ہے۔

ادھر غزہ میں انسانی بنیادوں پر امدادی سامان کی فراہمی سے متعلق اقوام متحدہ میں پیش کی گئی قرار داد پر ووٹنگ تیسری مرتبہ ملتوی کردی گئی۔قرارداد پر ووٹنگ امریکا کی جانب سے اسرائیل کے حق میں قرارداد کو ویٹو کرنے کے خدشے کے پیش نظر ملتوی کی گئی۔

امریکا اور یورپی یونین مسلسل اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں‘ امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا حق استعمال کرکے اسرائیل کا حوصلہ بلند رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جیسے ہی اسرائیل اور حماس کے درمیان سات روزہ جنگ بندی ختم ہوئی، اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقوں پر بمباری شروع کردی ہے۔

جن قوتوں نے عارضی جنگ بندی کرائی تھی‘ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ جنگ بندی ختم ہوتے ہی اسرائیل دوبارہ حملے کرے گا لیکن عالمی طاقتوں نے فلسطینیوں کو بچانے کی کوئی قابل عمل کوشش نہیں کی۔ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر دوبارہ حملہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس جنگ کی آڑ میں اپنے کئی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے جن میں سرفہرست فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک حماس کا مکمل خاتمہ کرنا اور غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا ہے۔

ادھر امریکا اور یورپی یونین کی پالیسی بھی یہی لگتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے اسرائیل اپنے اہداف حاصل کر لے تاکہ بعد میں مستقل جنگ بندی کرا دی جائے۔

جن دنوں اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ کا معاہدہ طے پایا تھا تو اس وقت ہی یہ ظاہر تھا کہ جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی کیونکہ جنگ بندی صرف چند ایام کے لیے تھی۔مستقل جنگ بندی کا آپشن رکھا ہی نہیں گیا تھا‘ظاہر ہے کہ اس عارضی ریلیف کا مقصد صرف غزہ میں خوراک اور ادویات پہنچانا تھا‘ عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد کیا ہونا ہے اس کا کوئی میکنزم تیار نہیں کیا گیا تھا‘ جو اب تک بھی تیار نہیں ہے۔

سب کو پتہ ہے کہ جب عارضی جنگ بندی طے پائی تھی‘ اس وقت ہی اسرائیل کے وزیر دفاع واضح کر چکے تھے کہ یہ جنگ بندی محض ایک وقفہ ہے، لڑائی دوبارہ شروع ہو جائے گی اور اس کی شدت پہلے سے بھی زیادہ ہو گی۔اسرائیلی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا تھا کہ جنگ مزید 2 ماہ اور جاری رہ سکتی ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ غزہ اور فلسطینی علاقوں کو مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی 7 اکتوبر 2023ء کو شروع ہوئی، یوں اس لڑائی کو شروع ہوئے ڈھائی ماہ ہو چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کسی کو جنگ جلد بند کرانے میں دلچسپی نہیں ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں اور اس سارے کھیل میں عام فلسطینی مارے جا رہے ہیں۔

تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جب بھی لڑائی ہوئی، اس میں عام فلسطینی شہریوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے کیونکہ فلسطینیوں کی اشرافیہ امریکا، یورپ، بیروت اور قطر میں مقیم ہیں‘ کئی امیرفلسطینی اردن کے دارالحکومت عمان میں رہائش پذیر ہیںاور ان کے خاندان خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ عام فلسطینی شہری کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں یا اسرائیل کے زیرکنٹرول علاقوں میں ڈرے سہمے رہنے پر مجبور ہیں۔

تنازعہ فلسطین کے حل میں سب سے پہلے سٹیک ہولڈر عام فلسطینی ہیں۔ان کے جان و مال کا تحفظ سب سے اہم ہے۔فلسطینی عوام جنگ کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے‘ فلسطینی قیادت کو بھی ان معاملات کا ادراک ضرور ہے لیکن فلسطینیوں کی سیاسی قیادت کے اندر نظریاتی اختلافات نے فلسطینیوں کی وحدت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

فلسطینی قیادت کو ان معاملات پر بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے کہ ان کی نظریاتی تقسیم عام فلسطینیوں پر کتنی بھاری پڑ رہی ہے‘ اس کا اندازہ شاید انھیں نہیں ہو پا رہا، فلسطینی قیادت کو اپنے نظریات اور مفادات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ فلسطینیوں کی تحریک صحیح معنوں میں قومی تحریک بن سکے۔مذہبی تقسیم نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شایدآزاد فلسطین ریاست قائم ہو چکی ہوتی ۔

آج کا سچ یہ ہے اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے پہ نہتے فلسطینی بچوں کی چیخیں اور عورتوں کی آہ وزاریاں سننے والا کوئی نہیں۔ جنگ کے عالمی قوانین اور جنیوا کنونشن طاق نسیاں ہوئے۔ غزہ تباہ و برباد ہوچکا، وہاں کے لوگ نہ توآزادانہ طور پر نقل و حرکت کر سکتے ہیں،نہ کچھ برآمد کر سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ درآمد کر سکتے ہیں،دوسرے الفاظ میں غزہ ایک کھلی جیل کی مانند ہے؟

ان کے پاس باہر کی دُنیا تک رسائی نہیں ہے تو ایسے میں لوگ مایوسی کا شکار ہیں اور اس مایوسی کے عالم میں صرف حکام نہیں بلکہ انفرادی طور پر لوگ ایسے اقدامات کر جاتے ہیں جو انھیں نہیں کرنے چاہئیں اور اس کا جواب بہت بھاری ہوتا ہے۔

اس وقت اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل پر پانچ مستقل ممبران کا غلبہ ہے اور یہ اُس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لے سکتی جب تک پانچ مستقل ممبران اس پر تیار نہ ہوں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایکشن کے لیے امریکا، فرانس اور برطانیہ تیار نہیں ہیں،وہ زیادہ سے زیادہ سیز فائر کا کہہ دیتے ہیں، سیز فائر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر فقط سیز فائر کافی نہیں ہے اور اقوامِ متحدہ اسرائیل سے اپنے احکامات پر زبردستی عمل درآمد نہیں کروا سکتی جب تک امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس اس پر تیار نہ ہوں۔

دہشت گردی کی جو مثال اس وقت اسرائیل نے قائم کی ہے وہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، کئی اسپتالوں پر حملہ کرنا اور مریضوں سمیت کئی ڈاکٹرز کی جانیں لے لینا، یہ کون سا ڈیفنس ہے؟ اگر اسرائیل کو سیلف ڈیفنس کا حق ہے تو فلسطین کو کیوں نہیں؟عالمی برادری کا دہرا معیار دیکھیے کہ کئی دہائیوں سے جاری اسرائیلی بربریت کے جواب میں اسے حماس کا حملہ اور فلسطینیوں کا خود کا دفاع دہشت گردی لگنے لگا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جان چاہے مسلمانوں کی جائے یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی، مساوی طور پر تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔

اسرائیل کے حکام کو اچھی طرح علم ہے کہ حماس اس کی فوجی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘ غزہ میں مقیم عام فلسطینی کے پاس اسلحہ بھی نہیں ہے ‘ غزہ کے پاس باقاعدہ آرمی بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس ٹینک اور ہوائی جہاز ہیں۔ ایسے میں اس جنگ کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے ‘اس کا سب کو پتہ ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ برطانیہ، یورپ اور امریکا جو خود کو انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار مانتے ہیں، مسلسل اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

فلسطین کا تنازع کیسے حل ہو گا‘ اس کے بارے میں دو نقطہ نظر سامنے ہیں۔ ایک تو دو ریاستی حل کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خطے میں اسرائیل اور فلسطین دو الگ الگ اور آزاد ریاستیں ہوں‘ادھر جس نقطہ نظر کی حامی حماس ہے ‘ اس میں اسرائیلی ریاست کے وجود کی گنجائش نہیں ہے۔

ان متحارب نظریات کے ہوتے ہوئے تنازعہ فلسطین کا حل ممکن نہیں ہے۔اس لیے گیند فلسطینی قیادت کے کورٹ میں ہے ‘کم ازکم فلسطینی قیادت کو کسی ایک نقطے پر پہنچ کر جدوجہد کرنا لازم ہے‘ جب تک فلسطینی قیادت کا اتحاد نہیں ہو گا‘ کوئی دوسرا ملک ایک حد سے زیادہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا۔

اسرائیل اور مغربی یورپ کا موقف بالکل واضح ہے جب کہ چین اور روس اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر کام کر رہے ہیں ‘اس کنفیوژن اور ابہام کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔