الیکشن 24 کا منظرنامہ

ایم جے گوہر  بدھ 31 جنوری 2024
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

ملک میں 8 فروری2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں اب محض ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔ بظاہر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ پی ٹی آئی بطور پارٹی الیکشن سے باہر ہے لیکن اس کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں ۔

اس کے حمایت یافتہ تمام امیدوار مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ البتہ ’’بلے‘‘ کا انتخابی نشان نہ ہونے کے باعث پی ٹی آئی کے امیدوار، ووٹرز اور سپورٹرز سب میں مایوسی، بے چینی، بددلی اور کامیابی کے حوالے سے ناامیدی کا پایا جانا ایک فطری بات ہے جو ناقابل فہم نہیں۔

مبصرین، تجزیہ نگار اور سیاسی ماہرین الیکشن 2024 کی غیر جانبداری، شفافیت اور منصفانہ و آزادانہ انعقاد پر اپنے اپنے سوالات اٹھا رہے ہیں۔کچھ کا خیال ہے کہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں لا کر میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنوانے کے لیے راستے ہموار کیے جا رہے ہیں۔

انھیں جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالنے کی مکمل آزادی حاصل ہے تو پی ٹی آئی کے لیے کارنر میٹنگزکرنا بھی عذاب جاں بنا دیا گیا ہے کجا بڑے بڑے جلسے اور جلوس۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ایسے الیکشن کو شفاف، منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود اپنی مدت پوری کیوں نہ کرسکے؟ ہر بار ’’پنجہ آزمائی‘‘ کیوں کرتے ہیں؟ پھر خود ہی ’’ مجھے کیوں نکالا؟ ‘‘ کی گردان کیوں کرتے ہیں؟ کیا ن لیگ کے پاس ان سوالوں کے تسلی بخش جوابات ہیں؟

آپ انتخابی جلسوں میں (ن) لیگ کے رہنماؤں کی تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں سوائے مخالفین پر ’’ گولہ باری‘‘ کے اور کچھ کام کی بات نہیں ہے۔ ماضی کے ’’ کارناموں ‘‘ کے گن گائے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دور کی بخیہ دری تو بڑے زور و شور سے کر رہے ہیں لیکن شہباز حکومت کے 16 ماہ کی کارکردگی کا ذکر نہیںکرتے ۔ پوری انتخابی مہم کے دوران لیگی رہنماؤں کی تقریروں کا سارا زور ماضی کی کارکردگی پر ہے ۔

’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ (ن) لیگ نے ’’ پاکستان کو نواز دو‘‘ کے نام سے جو منشور پیش کیا اس میں ایک کروڑ نوکریاں دینے سمیت بڑے بلند و بانگ دعوے کیے گئے ہیں لیکن ڈوبتی معیشت کے باعث ان کے دعوؤں کی تکمیل کیسے اور کیوں کر ممکن ہے۔ اس بارے میں منشور خاموش ہے۔ پیپلز پارٹی ملک کی اہم سیاسی قوت اور چاروں صوبوں میں ووٹ بینک رکھنے والی سیاسی جماعت ہے۔ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ کسی اور سیاسی جماعت نے نہیں دیں۔

2008 کے الیکشن میں جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو آصف زرداری نے صدارت کا منصب سنبھالا اور اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیے۔ پانچ سالہ جمہوری مدت پوری کر کے آئینی طریقے سے اقتدار منتقل کیا۔ آج بی بی کا بیٹا بلاول بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کر رہا ہے۔ بلاول کے لیے سب سے بڑا چیلنج پنجاب میں پی پی پی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا ہے۔

الیکشن 24 کے حوالے سے بلاول بھٹو بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔ بلاول نے بالکل درست کہا کہ ملک اس وقت ایک طرف معاشی بحران کا شکار ہے تو دوسری طرف جمہوری بحران کا شکار ہے۔ آصف زرداری کا کہنا بھی درست ہے کہ ملک میں بہترین جمہوریت نہیں ہے، باہم مسائل کا حل صرف سیاسی قوتیں ہی حل کر سکتی ہیں۔

بلاول نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ چوتھی بار کے بجائے مجھے پہلی بار وزیر اعظم بنوائیں تو ہماری پارٹی ملک کو معاشی و سیاسی بحرانوں سے نکالے گی۔ پی پی پی نے بھی اپنے دس نکاتی منشورکا اعلان کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پانچ سال میں آمدنی دگنی، تین سو یونٹ تک بجلی فری اور کسان کارڈ کا اجرا جیسے اعلانات اور وعدے کیے گئے، لیکن بدحال معیشت کے سامنے اپنے منشور کی تکمیل ایک بڑا چیلنج ہے۔

الیکشن 2024 کے حوالے سے جو منظر نامہ بنتا نظر آ رہا ہے‘ اس کے پس منظر میں کہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) سمیت کسی جماعت کو سادہ اکثریت بھی نہیں ملے گی۔ مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔ آزاد امیدواروں کی منڈی لگے گی جو پی ٹی آئی کا کڑا امتحان ہوگا۔ ریاستی اداروں بالخصوص الیکشن کمیشن کو ہدف تنقید بنایا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔