سانحۂ تفتان؛ ایک اور کارواں لُٹا

سید بابر علی  منگل 10 جون 2014
جُنوں پرستوں نے پھر زائرین کو خون میں نہلادیا۔  فوٹو : فائل

جُنوں پرستوں نے پھر زائرین کو خون میں نہلادیا۔ فوٹو : فائل

گذشتہ اتوار کی شب ایک بار پھر ایران سے آنے والے زائرین کو دہشت گردوں نے خاک و خون میں نہلا دیا۔

مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ بربریت کا نشانہ بننے والے ان افراد کا قصور محض اہل تشیع ہونا تھا۔ یہ واقعہ بھی بلوچستان میں ایک مخصوص فرقے کے خلاف ہونے والی دہشت گردی، لاقانونیت اور ظلم و بربریت کے گذشتہ واقعات کا تسلسل ہے، جو ایک مدت سے جاری ہیں۔ ایک روز قبل 8 جون کو شر پسندوں نے بلوچستان کے سرحدی شہر تافتان میں زائرین کی بس اور ہوٹلوں پر فائرنگ اور خود کش حملے کیے، جس کے نتیجے میں 10 خواتین اور 2 بچوں سمیت تادم تحریر ملنے والی اطلاعات تک24 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور 25 زخمی ہوئے ہیں۔

لیویز ذرائع کے مطابق 4 نقاب پوش حملہ آور زائرین کے قافلے پر فائرنگ اور دستی بموں سے حملوں کے بعد فائرنگ کرتے ہوئے اس ہوٹل میں داخل ہوگئے جہاں زائرین مقیم تھے۔ ہوٹل پر قابض مورچہ بند مسلح ملزمان کے سیکیوریٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک حملہ آور ہلاک ہوگیا جب کہ تین نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ہلاک ہونے والے شیعہ زائرین میں سے چار کا تعلق کوئٹہ سے ہے جب کہ 20 کا تعلق خیبر پختون خواہ کے شہر کوہاٹ سے ہے۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم جیش الاسلام نے قبول کرلی ہے۔

تافتان میں زائرین پر حملے نے ملک بھر میں شیعہ برادری کو سراپا احتجاج بنادیا ہے۔ ’’شیعہ علما کونسل‘‘، ’’مجلس وحدت المسلمین‘‘ ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ اور دیگر جماعتوں نے زائرین پر حملے کی شدید مذمت کی ہے جب کہ ’’ تحفظ عزاداری کونسل‘‘ نے پورے ملک میں 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

ریاست بلا تفریق ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے ذمہ دار ہے، لیکن چند سالوں سے بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی اہل تشیع برادری کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کارروائیوں میں تیزی آرہی ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زائرین پر ہونے والے حملوں میں اب تک سیکڑوں افراد دہشت گردی کی کارروائیوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔

بلوچستان کی انتظامیہ زائرین کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، راولپنڈی سے گلگت و بلتستان جانے والی بس سے شیعہ افراد کو اتار کر گولیاں ماری جائیں یا چلاس کا دردناک واقعہ ہو، یا تسلسل کے ساتھ کوئٹہ میں زائرین پر حملے، ریاست ہر جگہ اپنے شہریوں تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ حکومت اگر واقعی ریاستی رٹ بحال کرنا اور دہشت گردی و بربریت پر قابو پانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلوائے۔

اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کو مسافر بسوں سے اتار کر ان پر گولیاں برسائی جاتی رہیں، زائرین کی ہر بس پر اندھا دھند فائرنگ اور حملے کیے جاتے رہے تو پھر یقیناً فرقہ پرستی کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے مذمتی بیان اور قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری کے بلند و بانگ دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قاتلوں کی گرفتاری سے قبل ایک اور سانحہ درجنوں افراد کو موت سے ہم کنار کردیتا ہے۔

بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ ایک مخصوص فرقے اور زائرین پر حملے ہو رہے ہیں، حکومت جب تک دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کرے گی تب تک معصوم انسانوں کو خون میں نہلانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اگر فرقوں کی بنیاد پر قتل و غارت کا کھیل ختم نہیں کیا گیا تو ہم فرقہ وارانہ دہشت گردی کی اس آگ میں جل کر خاکستر ہوجائیں گے۔ تمام مسلک اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کو متحد ہوکر زائرین پر حملہ آور ہونے والوں کے خلاف لب کشائی کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کا سلسلہ 2001 میں اس وقت شروع ہوا جب بلوچستان کے علاقے پود گلی چوک پر گھات لگائے ملزمان نے فائرنگ کرکے 8 افراد کو قتل کردیا۔ جون 2003 میں پولیس ٹریننگ اسکول کوئٹہ جانے والی وین پر نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں وین میں سوار 11 اہل کار جاں بحق ہوگئے۔

اس واقعے میں ہلاک و زخمی ہونے والے اہل کاروں کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے تھا۔ اس واقعے کے محض ایک ماہ بعد جولائی 2003 میں مسلح افراد نے کوئٹہ کی میچھانگی روڈ پر واقع ہزارہ مسجد پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے دوران اندھا دھند فائرنگ اور خودکُش حملہ کردیا گیا، جس کے نتیجے میں 47 افراد موت سے ہم کنار ہوئے۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے ملنے والے دو بموں کو ناکارہ کردیا تھا۔ مارچ 2004 میں کوئٹہ میں عاشورہ کے جلوس پر نامعلوم ملزمان نے دستی بموں سے حملوں کے بعد فائرنگ کردی۔ اس حملے میں ہزارہ کمیونٹی کے 42 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ چھے سال کے طویل عرصے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع افراد کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ ستمبر 2010 میں کوئٹہ میں نکلنے والی ایک ریلی پر خود کش حملہ کیا گیا، جس میں 50 افراد لقمۂ اجل بنے، بعدازاں اس حملے کی ذمے داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کرلی تھی۔

مئی 2011 میں مسلح افراد نے ایک پارک میں موجود ہزارہ کمیونٹی کے افراد پر راکٹ فائر کیا گیا اور فائرنگ کردی گئی، جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت 8 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی ذمے داری بھی ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی۔ جون 2011 میں مسلح دہشت گردوں نے کوئٹہ کے علاقے ہزار گنج میں ایران سے آنے والی زائرین کی بس پر حملہ کردیا۔ اس حملے میں تین زائرین ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ ستمبر 2011 میں عید کے دن ایک خودکش حملے میں چار خواتین سمیت 13 اہل تشیع جاں بحق ہوگئے۔

دشت گردوں کا ہدف عید گاہ تھی، لیکن گاڑی میں موجود خودکش بم بار نے اپنے ہدف سے چند گز پہلے ہی خود کو اڑا لیا تھا۔ اسی مہینے دہشت گردوں نے کوئٹہ سے آنے والی زائرین کی بس کو مستونگ میں روک کر فرداً فرداً گولیاں ماریں۔ اس اندوہ ناک واقعے میں 26 زائرین کو شہید کیا گیا۔ جون 2012 کو کار سوار خودکش بم بار نے ایران سے واپس آنے والی زائرین کی بس پر ہزار گنج کے علاقے میں حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں دو پولیس اہل کاروں اور ایک خاتون سمیت 14افراد جاں بحق ہوگئے۔ 18 ستمبر 2012 کو دہشت گردوں نے زائرین کی بس کے نزدیک کار بم دھماکا کیا۔ اس واقعے میں تین زائرین جاں بحق اور نو زخمی ہوئے۔ 30 دسمبر 2012 کو کوئٹہ سے ایران جانے والی بس کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ دھماکا خیز مواد ایک کار میں نصب تھا جسے زائرین کی بس کے قریب پہنچتے ہی ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا اس سانحے میں 19 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔

7 جولائی 2012 کو بلوچستان کے علاقے تربت میں ایران جانے والی زائرین کی بس پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 18 زائرین جاں بحق جب کہ متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ دس جنوری 2013 کی رات ہزارہ کمیونٹی کے لیے بدترین ثابت ہوئی، جب کوئٹہ کے علمدار روڈ پر واقع اسنوکر کلب میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دو دھماکوں کے نتیجے میں نجی ٹی چینل کے رپورٹر ، کیمرا مین اور دس سیکیوریٹی اہل کاروں سمیت 81 افراد جاں بحق ہوگئے۔

اس خود کش حملے میں مرنے والے جان سے جانے والوں میں اکثریت کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے تھا۔ علمدار روڈ سانحے کے تقریباً ایک ماہ بعد ہی 16 فروری کو شیعہ اکثریتی علاقے ہزارہ ٹاؤن کے نزدیک کرانی روڈ پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکا کیا گیا، جس میں خواتین اور بچوں سمیت 78 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس حملے کی ذمے داری بھی ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی۔ پولیس ذرایع کے مطابق اس حملے کا مقصد بھی اہل تشیع برادری کو نشانہ بنانا تھا۔ 26 اکتوبر 2013 کو ایران جانے والی شیعہ زائرین کی دو بسوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ بم سڑک کے کنارے کھڑی ایک گاڑی میں نصب کیا گیا تھا اور جب سیکیوریٹی پر مامور ایف سی اہل کار اس مشکوک گاڑی کو چیک کرنے کے لیے قریب پہنچے تو دھماکا ہوگیا اور دو اہل کاروں نے جام شہادت نوش کیا۔

کوئٹہ میں رواں سال کا آغاز ایران سے آنے والی زائرین کی سب پر خود کش حملے سے ہوا، جس کے نتیجے میں ایک زائر ہلاک اور 34 زخمی ہوگئے تھے۔ خود کش حملہ آور نے بارودی مواد سے بھری گاڑی کو زائرین کی بس سے ٹکرا دیا تھا۔ اس حملے کی ذمے داری بھی جیش الاسلام نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔21 جنوری 2014 کو ضلع مستونگ میں ایران سے کوئٹہ آنے والی شیعہ زائرین کی بس پر خودکش حملے کے نتیجے میں 28 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوگئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی تھی۔ مستونگ پولیس کے مطابق اس قافلے کی سیکیوریٹی پر چار گاڑیاں مامور تھیں، لیکن اِس کے باوجود خودکش بمبار نے اپنی گاڑی بس سے ٹکرا دی۔ جنوری کے مہینے میں زائرین کی بس پر حملے کا دوسرا واقعہ تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔