سیاسی مقاصد کے لیے کرپشن کا واویلا

محمد سعید آرائیں  پير 25 مارچ 2024
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک کے نو منتخب صدر اور وزیر اعظم دونوں نیب گریجویٹ ہیں حکومتی ذمے داری ہے کہ نیب قوانین واپس لے کر نیب کا خاتمہ کرے۔

نیب کے خوف سے ملک میں کوئی افسر کام کرنے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے نیب کے جھوٹے مقدمات بھگتے ہیں اور ان کے رہنماؤں نے طویل اسیری جیلوں میں گزاری ہے جن کے ثبوت نہ ہونے کے باعث انھیں ملک کی عدالتوں سے ضمانت پر رہائی ملی اور میں اب بھی پانچ سالوں سے نیب کے مقدمات میں عدالتوں میں حاضری دے رہا ہوں اور اس سے قبل بھی نو سال مجھے مقدمات سے نجات میں لگے تھے، اب نیب کا تماشا ختم ہونا چاہیے۔

مختلف تجزیہ کار بھی اس بات پر متفق تھے کہ ملک میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کرپشن کے بیانیے بنائے جاتے رہے ہیں اور احتساب قوانین کے تحت جو مقدمات بنائے گئے‘ ان کا مقصد کرپشن روکنے اور ذمے داروں کو سزائیں دلانے کی بجائے ملک کے سیاسی منظر کو بدلنے کے لیے کردار ادا کیا اوراسے سیاسی انجینئرنگ ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نیب کرپشن کے مقدمات کو عدالتوں میں جس طرح پراسکیوٹ کرتا ہے اس میں شدید غلطیاں ہوتی ہیں بہت سے سقم اور خامیاں ہوتی ہیں جو اعلیٰ عدلیہ میں جا کر ہائی لائٹ ہوتی رہی ہیں اور ثبوت نہ ملنے پر ملزم بری اور مقدمات ختم ہوتے آ رہے ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی حکومت میں احتساب بیورو بنایا تھا جس کے سربراہ سیف الرحمن تھے، سیاسی مخالفین کے لیے احتساب بیورو کا غلط استعمال کیا گیا تھا ۔ جنرل پرویز کا بنایا گیا احتساب کے قوانین متنازع رہے بلکہ سپریم کورٹ تک نیب کے خلاف انتہائی سخت ریمارکس دیے گئے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ موجودہ صدر مملکت اور وزیر اعظم شہباز شریف نیب کے گریجویٹ ہیں اور ان پر اب تک نیب کے مقدمات قائم ہیں اور حال ہی میں منتخب صدر زرداری کے لیے صدارتی استثنیٰ مانگا گیا ہے۔

نیب کا سب سے زیادہ سیاسی استعمال جنرل پرویز کے بعد پی ٹی آئی حکومت میں ہوا جس کے انتقامی وزیر اعظم عمران خان نے نیب کے ذریعے یہ ریکارڈ ضرور قائم کیا کہ ان کی حکومت میں نیب نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے سابق صدر آصف زرداری، تین بار کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف، سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، سابق وزیروں اور پی ٹی آئی کے تمام مخالفین نیب کے مقدمات میں گرفتار ہوئے جو طویل عرصہ جیلوں میں رہے مگر کسی نے حکومت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور قید رہ کر عدالتوں میں حاضریاں دیتے رہے اور ہائیکورٹس سے ضمانتوں پر اس لیے رہا ہوئے کہ نیب ان پر عدالتوں میں کوئی جرم ثابت نہ کر سکا کیونکہ نیب کا مقدمات کو پراسکیوٹ کرنے والا نظام ناکارہ تھا جس کے پاس ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کیونکہ نیب نے حکومت کی خوشنودی کے تحت حکومت کے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات احتساب عدالتوں میں بھجوائے تھے جن میں قانونی سقم اور خامیاں تھیں جو عدالتوں میں سالوں زیر سماعت رہنے کے بعد بھی ثابت نہیں ہوئے اور شاہد خاقان عباسی پر نیب کیس پانچ سال سے احتساب عدالت میں زیر سماعت ہے آئے دن شاہد خاقان کو عدالت آنا پڑتا ہے اور ان کے خلاف نیب کے این ایل جی ریفرنس کی حالیہ سماعت بغیر کارروائی ملتوی ہوگئی۔

سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں نے سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے سیکڑوں مقدمات قائم کرائے۔ پہلے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے اپنی حکومتوں کے خلاف ایک دوسرے پر کرپشن کے مقدمات بنائے پھر ان دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کو جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کے سیاسی عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ اب عمران خان خود بھی کرپشن میں اسی طرح سزا پا چکے ہیں جس طرح نواز شریف اور شہباز شریف کو سزا ہوئی تھی جو حکومت بدلنے کے بعد عدالتوں سے ختم ہوگئی۔

ملک کے عوام کئی عشروں سے ملک میں کرپشن کے الزامات پر سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں، بعد میں عدالتوں سے رہائی اور نیب کے باعث سیاسی وفاداریوں کی تبدیلیوں کا احتسابی تماشہ دیکھ رہے ہیں جس سے ملک میں کرپشن ہر حکومت میں بڑھی مگر کم نہیں ہوئی۔

بھارت کی طرح پاکستان میں کسی کرپٹ سیاستدان کو عدالتوں سے سزا نہیں ہوئی مگر کرپشن کے مقدمات میں سیاسی وفاداریاں ضرور تبدیل ہوتے دیکھی گئیں جو بھی مبینہ کرپٹ حکومت کو پیارا ہوا وہ مقدمات سے محفوظ رہا اور ہر حکومت میں رہ کر مال کماتا رہا اور عوام اب چور ڈاکو، چور ڈاکو کی تکرار سن کر تنگ آگئے ہیں کیوں کہ یہ تکرار سیاسی مفاد کے لیے ہوئی اور کرپشن بڑھتی ہی رہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔