پہاڑوں میں جا بسا شہری نوجوان

سید عاصم محمود  اتوار 24 مارچ 2024
تیزرفتار شہری زندگی اور مقابلے کی دوڑ کے دباؤ سے نجات پانے کی خاطر اس نے قدرتی ماحول کو اپنا مسکن بنا لیا
فوٹو : فائل

تیزرفتار شہری زندگی اور مقابلے کی دوڑ کے دباؤ سے نجات پانے کی خاطر اس نے قدرتی ماحول کو اپنا مسکن بنا لیا فوٹو : فائل

یہ 2020 ء کی بات ہے ، چین کے قصبے ، ژی جیانگ(Xijiang)کا اٹھارہ سالہ نوجوان ، لیو وین روزگار کی تلاش میں ایک بڑے چینی شہر، گوانگ ڈونگ جا پہنچا۔صرف بیس ہزار باشندوں والے قصبے میں روزگار کے مواقع محدود تھے۔

اس لیے باپ اور بھائیوں کے اصرار پہ وہ گوانگ ڈونگ چلا گیا جو ایک بڑا صنعتی وکاروباری شہر ہے۔چین میں پچھلے چار عشروں سے کروڑوں نوجوان دیہات چھوڑ کر شہروں کا رخ کر چکے۔ان کی مدد سے شہروں میں نئے کارخانے اور کاروبار قائم ہوئے ۔یوں چین صنعتی وکاروباری لحاظ سے محیرالعقول ترقی کرنے کے قابل ہو گیا۔

مگر اب چین کی آبادی ایک ارب بیالیس کروڑ تک پہنچ چکی۔اس لیے شہروں میں زیادہ ملازمتیں نہیں رہیں اور حکومت ِ چین نے دیہی آبادی کو متنبہ کر دیا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقوں میں رہ کر ہی روزگار کا بندوبست کریں تاکہ شہروں میں پہنچ کر وہ ملازمت کی تلاش میں خوار نہ ہوں۔مسئلہ یہ ہے کہ سبھی ملکوں کی طرح چین میں بھی نوجوان مادہ پرستی کا شکار ہو چکے۔انھیں زندگی کی تمام آسائشیں درکار ہیں، مثلاً کار، کوٹھی اور دیگر لگژری اشیا۔ اس لیے اب بھی دیہات سے ہر سال لاکھوں چینی نوجوان شہروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح کمائی کر کے پُرآسائش زندگی حاصل کر سکیں۔

لیو وین مگر پڑھا لکھا نہیں تھا اور نہ ہی کسی ہنر میں مہارت رکھتا۔اس لیے اسے ملازمت تلاش کرتے ہوئے زیادہ دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔کبھی وہ سیلزمین رہا تو کبھی کار میکنیکی کا کام سیکھنے کی کوشش کی۔کپڑا مل میں بھی کام کرتا رہا۔ترقی کی آس لیے اسے شہر میں تین سال گذر گئے۔دن رات محنت کرنے سے اس کی صحت متاثر ہوئی۔رفتہ رفتہ اسے احساس ہوا کہ شہر میں مقابلے کی دوڑ نے اس کی جسمانی وذہنی صحت پہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ ناتواں و کمزور ہو چکا۔

لیو وین سوچ بچار کرنے لگا کہ آخر شہر میں اس کا مستقبل کیا ہے؟اس غوروفکر سے نوجوان پہ القا ہوا کہ انسان کو اپنی زندگی میں کار ،کوٹھی ، بے پناہ پیسا اور آسائشیں نہیں خوشی، سکون اور اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ حقیقی دولت تو یہی ہے۔اور یہ دولت خواہشیں محدود کر کے، اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے اور سادہ زندگی اپنا کر ہی مل سکتی ہے۔یوں شہر میں مقیم دیہاتی نوجوان کو گویا بدھا کی طرح ایک فلسفہ ِزندگی کا نروان حاصل ہو گیا جس سے ضروری نہیں کہ ہر کوئی اتفاق کرے۔

2923ء کے اوائل میں لیو وین واپس اپنے قصبے چلا آیا۔اس واپسی پہ اس کے والدین اور بھائی بہت ناراض ہوئے۔انھوں نے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کرے گا؟لیو کو محسوس ہو گیا کہ انھیں خطرہ ہے، وہ ان پہ مالی لحاظ سے بوجھ نہ بن جائے۔ وہ خود بھی ان پہ بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا، بلکہ اپنی ضروریات ازخود پوری کرنے کو تیار تھا۔

ژی جیانگ سرسبز و شاداب پہاڑیوں سے گھرا قصبہ ہے۔لیو نے قصبے کے قریب ایک پہاڑی منتخب کی اور وہاں اپنا جھونپڑا تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ وہاں رہ کر خود کھیتی اور مویشی پروری کرنا چاہتا تھا تاکہ پیٹ بھرنے کا سامان ہو سکے۔ایک بار پھر والدین نے اسے خبردار کیا کہ ایسی زندگی گذارنا بہت دشوار گذار ہے۔اسے کئی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔مگر لیو قدرتی ماحول میں سادہ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

لیو نے کچھ رقم پس انداز کر رکھی تھی۔اسی کو برائے کار لا کر لیو نے لکڑی اور گھاس پھونس کی مدد سے اپنا نیا ٹھکانہ بنا لیا۔قریب ہی کھیت بنایا جہاں وہ سبزیاں کاشت کرنے لگا۔مرغیاں اور بکریاں پال لیں ۔مرغیوں سے اسے انڈے اور بکریوں سے دودھ ملنے لگا۔ جب کھیتی باڑی اور مویشی پالنے کا کام ختم ہوتا تو وہ قصبے میں جا کر کوئی جزوقتی کام کر لیتا۔یوں لیو وان کی زندگی نئی ڈگر پہ رواں دواں ہو گئی۔

اکیس سالہ چینی نوجوان صاف وشفاف قدرتی ماحول میں رہ کر بہت خوش ہے۔اسے مقابلے کے ماحول کے دباؤ کا کوئی سامنا نہیں کرنا پڑتا۔وہ لامحدود تمناؤں کے بوجھ سے بھی نجات پا چکا۔شہر کا تیزرفتار ٹریفک بھی اس پہ کوئی مضر اثرات نہیں ڈالتا۔گاڑیوں اور کارخانوں کے زہریلے دھوئیں سے بھی اسے چھٹکارا مل گیا۔یہ سہولتیں اور نعمتیں مل جانے کا نتیجہ ہے کہ چند ہی ماہ میں لیو وین کی ذہنی وجسمانی صحت بہت اچھی ہو گئی۔وہ اب پُرسکون و مطمئن رہتا ہے۔

ترقی کی دوڑ کے منفی اثرات سے دور رہ کر زندگی گذارتا یہ چینی نوجوان اپنا کھانا خود تیاّر کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے:”میں جب شہر میں تھا تو صبح 8 بجے سے رات 10 بجے تک کام کرتا تھا۔ اس کے علاوہ اوور ٹائم بھی لگاتا۔تب دن بھر میرا وقت میرا اپنا نہیں تھا۔لیکن اب میں پرندوں کی چہچہاہٹ کی آوازوں سے بیدار ہوتا ہوں۔اور بیدار ہونے کے بعد رات کو نیند آنے تک میں اپنے سارے کے سارے وقت کا مالک ہوں۔‘‘

شہر میں لیو کی ناکامی اور اچھی ملازمت پانے میں مایوسی چین کے نوجوانوں میں فرسٹریشن کے بڑھتے احساس کی عکاسی کرتی ہیں۔ان میں سے بہت سے نوجوانوں کو من پسند ملازمت پاتے ہوئے مشکلات کا سامنا ہے۔وہ برسوں دن رات محنت کر کے تعلیم پاتے ہیں، مگر جب عملی زندگی میں داخل ہوں تو مقابلے کی سخت دباؤ والی نئی دوڑ ان کی منتظر ہوتی ہے۔یہ طرز زندگی انھیں جدید و مادہ پرستانہ دور سے برگشتہ کررہا ہے۔

اعداد و شمار کے قومی بیورو کے مطابق، چین کے شہروں اور قصبوں میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح پچھلے سال جون میں ریکارڈ 21.3 فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ اس کے بعد حکومت نے یہ پریشان کن اعداد و شمار جاری کرنا بند کر دئیے۔جواب میں حکام نے شہری نوجوانوں کو دیہی علاقوں کا رخ کرنے کی ترغیب دی ۔ یہ بہرحال شہر میں رہنے والوں کے لیے ایک متنازع تجویز ہے۔

گزشتہ دسمبر میں چینی رہنما شی جن پنگ نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ “دیہی معیشت بحال کرنے” کے لیے اقدام کریں۔ اس بیان کا موازنہ سابق رہنما ماؤ زے تنگ کی طرف سے دہائیوں قبل شروع کی گئی مہم سے کیا گیا۔اس مہم کے ذریعے لاکھوں چینی نوجوانوں کو دور دراز علاقوں میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔انھوں نے بھر دیہی باشندوں کے ساتھ کام کرتے اپنے کئی شب وروز بسر کیے تھے۔

صدر شی خود بھی بھیجے گئے نوجوانوں میں شامل تھے۔وہ وسطی چین کے دیہی علاقوں میں گذرے اپنے وقت کو ایک فائدہ مند، زندگی کو بدلنے والے تجربے کے طور پر دکھاتے ہیں جس نے ان کے جسم اور دماغ کو بیش بہا صلاحیتوں سے نوازا اور انھیں ایک مضبوط انسان بنا دیا۔وہ پورا گاؤں جہاں کبھی صدر شی رہے تھے، ایک کمیونسٹ مزار میں تبدیل ہو چکا جو ان کے لیے وقف ہے۔ اس نے ملک بھر سے حکام اور سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

چین کے سب سے زیادہ گنجان آباد صوبوں میں سے ایک اور لاتعداد کارخانوں کے ایک بڑے مرکز ،گوانگ ڈونگ کے حکام نے اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ وہ تین لاکھ سے زائد بے روزگار نوجوانوں کو کام تلاش کرنے کے لیے دیہی علاقوں میں بھیجنے کی اُمید رکھتے ہیں۔

پہاڑوں میں رہنے کے لیکن اپنے چیلنج ہیں، جیسا کہ لیو نے دریافت کیا۔پہلے تو اس کے والدین پہاڑ پہ اکیلے ہونے کی وجہ سے اس کی حفاظت کے بارے میں فکر مند تھے۔ اسی لیے انھوں نے اپنے خرچ اس پر نظر رکھنے کے لیے جھنوپڑے کے قریب سی سی ٹی وی نصب کر دیا۔پھر لیو کو جلد احساس ہوا کہ اسے بجلی بھی درکار ہے کہ جدید دور کی یہ ایجاد اب بنیادی انسانی ضرورت بن چکی۔یہ مسئلہ سولر پینل لگا کر حل کر لیا گیا۔

بجلی آئی تو لیو نے چھوٹا سا لیپ ٹاپ خرید لیا۔سمارٹ فون تو پہلے ہی رکھتا تھا۔شہر میں رہ کر وہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کا گر جان چکا تھا۔اب وہ اپنی دیہی زندگی کے مناظراپنے فون کی مدد سے ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پہ ڈٓلنے لگا۔چین ہی نہیں دنیا بھر کے لوگوں نے اس کی سرگرمیوں کو شوق و دلچسپی سے دیکھا کہ بہت کم نوجوان ہی دنیاوی آسائشیں تج کر پہاڑ میں تن وتنہا زندگی گذارتے ہیں۔

اس کے پرستاروں کی تعداد بڑھی تو سوشل میڈیا سے اسے آمدن شروع ہو گئی۔یوں اس کو کمائی کا ایک ذریعہ مل گیا۔وہ اپنے وی لاگ کے ذریعے دوسرے لوگوں کو بھی کہتا ہے کہ مادہ پرستانہ طرز زندگی کو خیرباد کہہ کر سادہ وفطری طرزِ حیات کو اپنا لیں کہ حقیقی مسّرت و اطمینان اسی طرح ملتا ہے۔

مستقبل میں لیو مرغی خانہ بنانے کے لیے اپنے گھر کو وسعت دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے تاکہ وہ مرغیوں کا گوشت گاہکوں کو فروخت کر سکے۔ وہ ان چینیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے جو دیہی علاقوں میں جانا چاہتے ہیں کہ وہاں اپنی نئی زندگی اور اپنا کاروبار شروع کریں۔وہ کہتا ہے:

“پہاڑوں پہ زندگی گذارنا آسان نہیں مگر وہ بہرحال شہر کی زندگی سے بہت بہتر ہے۔ شہر میں تو پینے کا پانی بھی دام دے کر ملتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔