قصوں کے میلے سے کچھ سوغاتیں

محمد علی عمران خان  اتوار 31 مارچ 2024
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 (حصہ اول)

اردو زبان کے نثری ادب کو اپنی قابل رشک متنوع اصناف کے سبب اردو شعری ادب پر فوقیت حاصل ہے۔ افسانچے سے داستان تک، تحقیق سے تنقید تک اور مضمون نگاری سے ترجمہ نگاری تک، نثری ادب کے مطالعاتی سفر کا ہر پڑاؤ قاری کے ذہن و قلب اس طرح مسحور کر لیتا ہے کہ وہ دادِذوق دیے بنا نہیں رہ سکتا۔

ایک محتاط اندازے اور عمومی جائزے کے مطابق مختلف معیاری، جامع اور ہمہ رنگ اصناف کے باوجود، نثری ادب میں ’’آپ بیتی اور سوانح‘‘ کو سب سے زیادہ پڑھی جانے والی صنف کی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ دیگر شعبۂ ہائے زندگی کے نمائندہ افراد کی تحریرکردہ آپ بیتیوں کے مقابل، اردو شعر و ادب سے وابستہ صاحبان قلم کی آپ بیتیاں اپنی ادبی چاشنی، مرصع اسلوب، دل آویز اندازبیاں، دل چسپ مشاہدات و واقعات کی بنا پر صاحبان ذوق میں زیادہ مقبول اور ہردل عزیز ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ’’خودنوشتی ادب‘‘ کا معتدبہ حصہ اہالیان شعر و ادب کے قلم کا مرہون منت ہے۔

زیرنظر مضمون، انہی حاملان شعر و نثر کی معروف وغیرمعروف آپ بیتیوں اور سوانح سے منتخب چند ایسے منفرد، قابلِ ذکر، پُرکشش اور حاصلِ مطالعہ واقعات پر مشتمل ہے، جس میں شعراء و ادباء کی ادب پروری، تخلیق و تحقیق، تحسین و تنقید، معاصرانہ چشمک، سخن وری و خوش کلامی، حیاتیاتی نشیب و فراز اور ذہنی و قلبی تاثرات سے مزین رنگا رنگ قصے بیان کیے گئے ہیں۔ وقت طلب، محنت پسند اور طویل مطالعاتی ریاضت کا یہ ماحصل، میر تقی میر کے الفاظ میں اس امید کے ساتھ پیش خدمت ہے کہ:

؎باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا

پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا

ادبی رسالہ ’’سب رس‘‘ کے زور ؔنمبر میں ڈاکٹر سیدہ جعفر محی الدین قادری زور ؔپر تحریر اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ ایک روز ڈاکٹر زور ؔکہنے لگے کہ ’’بڑی تلاش اور تحقیقِ بسیار کے بعد لال دروازے کے اس گورستان کا پتا چلایا جہاں اوائل دور کے قدیم استاد شاعر میر شمس الدین فیض ؔکا مدفن تھا۔ یہاں ہر طرف ایک ہو کا عالم تھا۔ قبروں کی حالت انتہائی شکستہ تھی۔ ہر طرف مٹی کے ڈھیر اور کوڑاکرکٹ کے انبار لگے ہوئے تھے۔

مقامی لوگوں کی نشان دہی پر جب میں فیضؔ صاحب کی قبر پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کی قبر دوسروں کے مقابلے میں صاف اور گردوغبار سے پاک تھی۔ میں اپنی جگہ حیران تھا کہ اس ویرانے میں فیضؔ صاحب کے مزار کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟ غرض میں فاتحہ خوانی کے بعد گھر واپس آگیا، لیکن یہ سوال میرے ذہن میں ہنوز موجود تھا۔ میں نے فیض ؔکا دیوان اٹھایا، اور اس سوال کا اعادہ کرتے ہوئے دیوان کھولا اور دائیں ہاتھ کے پہلے صفحے پر دیکھا تو سب سے اوپر یہ شعر لکھا پایا:

؎موجۂ بادِ بہارِ چمنستانِ بہشت

مشہدِ فیضؔ پہ جاروب کشی کرتا ہے‘‘

اخلاق احمد دہلوی اپنی کتاب ’’اور پھر بیاں اپنا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے اورئینٹل کالج میں ایک بار فراقؔ صاحب شاعر کے بے عمل ہونے کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہنے لگے، ’’پہلی شاعری دنیا میں بے عملی سے ہی شروع ہوئی، کیوںکہ جب انسان نے درختوں سے اتر کر غاروں میں رہنا شروع کیا تو کچھ بے عمل لوگ ایسے بھی تھے غذائی ضروریات کے عمل کی تکمیل کے لیے شکار پر جانے والے اپنے ساتھیوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے باعمل ساتھیوں کی عدم موجودگی میں غار کو صاف ستھرا رکھتے اور غاروں کو پھولوں سے آراستہ کرتے، میرے نزدیک یہ دنیا کی پہلی شاعری تھی۔

چناںچہ غاروں کی تزئین و آرائش سے لے کر آج تک شاعر کا کام یہی رہا ہے کہ وہ کیسے اس دنیا کو مزید پر آسائش اور خوب صورت بنا سکتا ہے۔ ہر چند کہ یہ کام اب آرکیٹیکٹ، انجنیئر اور سائنس داں کرتے ہیں ِمگر ان کو یہ خواب بظاہر بے عمل شاعر ہی دکھاتا ہے، کیوںکہ عمل ایک غیرشاعرانہ فعل ہے، جیسے کھانا جب دسترخوان پر سجا ہو تو بہت مرغوب لگتا ہے، لیکن کھانا پکانا، دسترخوان چننا اور کھانا کھانا، یہ سب غیرشاعرانہ افعال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال جیسا داعی عمل خود ساری زندگی اسی بات کا شکوہ کرتا رہا کہ:

اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا‘‘

ڈاکٹر محمد حسن اپنے ایک مضمون بیادِجوش ؔمیں لکھتے ہیں کہ جوش ؔصاحب نے ایک محفل میں اپنی ایک نظم پڑھی جس کا ٹیپ کا مصرعہ کچھ یوں تھا:

؎رواں دواں بڑھے چلو، رواں دواں بڑھے چلو

محفل کے اختتام پر مسعود حسین ادیب ؔنے بڑی شائستگی سے جوش صاحب سے کہا،’’جوش صاحب!!آپ جب یہ نظم شائع کریں تو ساتھ یہ نوٹ ضرور دیں کہ ’رواں دواں‘ کا لفظ لغوی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، محاورے کے اعتبار سے نہیں۔‘‘ جوش ؔصاحب نے چوکَنّا ہو کر پوچھا کہ محاورے کے اعتبار سے کیا معنی ہیں؟ مسعود صاحب نے بتایا کہ محاورے کے اعتبار سے وہ مفہوم ہے جو صفی ؔلکھنوی نے یتیموں کے بارے اپنی ایک نظم میں ادا کیا ہے:

؎رواں دواں ہیں، غریب الدیار ہیں ہم لوگ

رواں دواں یعنی ’’مارے مارے پھرنے والے بے سہارالوگ۔‘‘ اب محاورے کے حساب سے آپ کی نظم کے ٹیپ کے مصرعہ کا مطلب یہ ہوا کہ ’’مارے مارے پھرنے والے بے سہارا لوگوں کی طرح بس چلتے رہو۔‘‘

تابشؔ دہلوی اپنی خودنوشت ’’دید بازدید ‘‘میں بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں نے فانیؔ بدایونی سے کہا کہ مجھے اپنی شاگردی میں لے لیں تو فانیؔ بولے، اگرچہ سوال بے جا نہیں اور اس کا چلن بھی عام ہے لیکن شاعری میں استاد شاگرد والے فلسفے کے بارے میں میری رائے تھوڑی مختلف ہے۔ پھر فرمانے لگے دیکھو! اگر تم کو خیاطی سیکھنی ہے تو اور بات ہے، کیوںکہ کپڑے کی کتربیونت کے بارے میں تو بتایا جاسکتا ہے، لیکن شعر کہنے کے لیے مبادیات شعر سے واقفیت نہایت ضروری ہے، جو مطالعے سے آ سکتی ہے مگر حسنِ کلام کی نعمت مطالعے کی دین نہیں، وہ ودیعت ہوتی ہے، اس طرح فطری شاعر کو شاعری سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر تم اپنی شاعری کو استادی کا محتاج سمجھتے ہو تو ایسی شاعری فوراً چھوڑ دو۔ فانیؔ مرحوم کے اسی فلسفہ شاعری کو محبوب خزاں ؔنے اس رنگ میں بیان کیا ہے:

؎بات یہ ہے کہ آدمی شاعر

یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

ہندوستانی ادیب اور شاعر عابد سہیل اپنی آپ بیتی ’’جو یاد رہا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اورئی میں قیام کے دوران ایک محفل میں ہمارے دوست ابرار صاحب نے غالبؔ سے منسوب شعر سنایا:

؎چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط

بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

میں نے کہا، یہ شعر غالبؔ کا نہیں ہو سکتا، سب حیران ہوئے، میری دلیل یہ تھی کہ ’’تصویر بتاں‘‘ کی ترکیب غلط ہے، یہاں ’تصاویر بتاں‘ ہونا چاہیے، اور غالبؔ ایسے قادرالکلام شاعر کے لیے یہ عیب دور کرنا مشکل نہ تھا۔ علاوہ ازیں 1922 میں نظامی پریس سے شائع ہونے والے غالبؔ کے دیواں کے علاوہ بعد میں شائع ہونے والے کسی بھی دیوان غالب میں یہ شعر شامل نہیں۔ حقیقتاً یہ شعر ایک غیرمعروف شاعر بزمؔ اکبر آبادی کا ہے جس کی اصلی شکل کچھ یوں ہے:

؎ایک تصویر کسی شوخ کی اور نامے چند

گھر سے عاشق کے پسِ مرگ یہ ساماں نکلا

ایک روز صادقین لاہور آرٹس کونسل کی عمارت میں اپنے مداحوں کے جھرمٹ میں سورہ الرحمٰن کی آیات کی خطاطی کے نمونے دکھا رہے تھے کہ کالج کی کئی طالبات نے انہیں گھیر لیا۔ اپنی فطری حسن پرستی کے سبب انہیں دیکھ کر صادقین نے یہ آیت پڑھی:

فَبایِ اَلاء رِبِکُما تُکذِبٰن

مجمع میں موجود ایک زاہد خشک، درازریش نے اُنہیں ٹوکتے ہوئے کہا، صادقین صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیں قرآن کی آیات کا بے جا استعمال کرتے ہیں، اور لاحول پڑھا۔ صادقین نے مسکرا کر جواب دیا،’’حضرت! اپنی اپنی فکر کی بات ہے، آپ کو اس موقع پر شیطان الرجیم یاد آیا اور مجھے رب العالمین۔‘‘ اور پھر میر انیس ؔکا یہ شعر پڑھا:

؎پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو

یخیال صنعت صانع ہے پاک بینوں سے

غیرمعروف مگر باکمال شعراء کے تذکرے پر مبنی کتاب ’’وہ جنہیں کوئی نہیں جانتا‘‘ کے مصنف انورصابری لکھتے ہیں کہ جالندھر سے تعلق رکھنے والے سر تیج بہادر سپرو کے داماد، پنڈت شیو نرائن شمیم کے پوتے منشی چاندؔ نرائن رینہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے واحد شاگرد تھے جن کے کلام پر علامہ نے باقاعدہ اصلاح دی تھی۔ علامہ سے ان کی عقیدت اور محبت کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے علامہ کی وفات سے ڈیڑھ ماہ پیشتر ان کے روبرو پڑھا تھا:

؎ساغرِدل میرا جذبوں سے ترے لبریز ہے

جس میں مے تیری چھلکتی ہے میں وہ پیمانہ ہوں

ان کا شعری مجموعہ ’’کاروان سخن‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ ان کے کلام پر علامہ کی چھاپ واضح دیکھی جا سکتی ہے:

؎خرد جنوں کی لطافت کا راز پا نہ سکی

وہ ایک گوشۂ وحشت میں بھی سما نہ سکی

؎وہ عقل، عقل نہیںجو خجستہ گام نہ ہو

وہ عشق، عشق ہے جو عقل کا غلام نہیں

تمثیل احمد اپنی کتاب ’’مرزا یاس یگانہ چنگیزی، حیات اور شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ لکھنؤ میں منعقدہ ایک مشاعرے میں محشر ؔلکھنوی نے اپنی غزل سنائی اور مطلع پڑھا:

؎ارے محشرؔ ہی کبھی کہہ کے پکارا ہوتا

مارنا تھا تو اسی تیر سے مارا ہوتا

تو مشاعرہ اڑ گیا کہ ’’پکارا‘‘ کا قافیہ اس سے بہتر باندھنا نا ممکن ہے، مگر جب یگانہ ؔنے اپنی باری پر غزل کا مقطع پڑھا تو مشاعرے پہ سناٹا چھا گیا کہ اس پہلو سے پکارا قافیہ کے بارے سوچا ہی نہیں گیا:

؎دیکھتے رہ گئے یاسؔ آپ نے اچھا نہ کیا

ڈوبتے وقت کسی کو تو پکارا ہوتا

نظیرؔ صدیقی اپنے خاکوں کی کتاب ’’جان پہچان ‘‘میں عندلیب ؔشادانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کراچی کے ایک مقامی انگریزی رسالے کے ایڈیٹر نے مجھ سے فرمائش کی کہ شادانی صاحب سے اردو کی چند نمائندہ نظموں کے انگریزی تراجم کرواوں۔ منتخب نظموں میں ساحرؔ لدھیانوی کی نظم ’’تاج محل‘‘ بھی شامل تھی۔ شادانی صاحب نے اس کا ترجمہ کرنے کی بجائے اس پر ایسی تنقید کی کہ وہ نظم میری نظر سے گرگئی، بلکہ میں خود اپنی نظر سے بھی گرگیا ۔ مثلاً پہلے تو انہوں نے کہا کہ اس نظم کی ہیئت میں باقاعدہ کوئی order نہیں، قافیوں کے استعمال میں خوش آہنگی کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ نظم کا ایک شعر ہے:

؎کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

کیوںکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

’’اپنی ہی طرح‘‘ پہ اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگے،’’ساحرؔ چوںکہ پنجابی تھے لہٰذا یہاں بھی پنجابی طرز بیان کو کو اردو قالب میں ڈھال دیا یعنی ’ساڈے ورگے‘ کا اردو ترجمہ ’اپنی ہی طرح‘ کردیا، جب کہ یہاں ’’ہماری ہی طرح ‘‘ہونا چاہیے تھے:

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ؎کیوںکہ وہ لوگ ’’ہماری ہی طرح‘‘مفلس تھے

پھر اس نظم کا مصرع ہے:

میرے محبوب! پسِ پردہِ تشہیرِوفا

اس مصرعہ میں تشہیر کے لفظ کا استعمال بے محل ہے، جب کہ ’’ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود ‘‘ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا غریبوں کے مقابر کہاں سے آئے؟ غریبوں کی تو قبریں ہوا کرتی ہیں۔

مجاز ؔصاحب کے زمانے میں ایک معروف سید صاحب سے کسی خوبرو محترمہ کے دوستانہ تعلقات پر معتبر حلقوں میں طرح طرح چہ می گوئیاں ہورہی تھیں۔ اسی دوران ایک صاحب جو غالباً خود کبھی مذکورہ خاتون کے پرستاروں میں شامل تھے، مجاز کے پاس ایک تصویر لے کر آئے جس میں موصوف سید اور وہ خاتون اکٹھے دکھائی دے رہے تھے، اور مجاز ؔ سے کہنے لگے،’’بھئی اس تصویر کو فریم کر کے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں، تم اس پر کوئی چبھتا ہوا شعر لکھ دو۔‘‘ مجاز نے ایک نظر تصویر کو دیکھا اور اس کے نیچے لکھا:

؎ ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید ’’کام‘‘ کرتا ہے

نہ بھولو فرق ہے جو کہنے والے، کرنے والے میں

آل احمد سرور ؔ اپنی آپ بیتی ’’خواب باقی ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک محفل میں جہاں نواب جعفر علی خان اثرؔ بھی موجود تھے، شعراء کی مشکل پسندی اور آسان گوئی پر بحث چل نکلی تو جعفر خان اثر ؔبولے کہ میر ؔ کی آسان پسندی اور سادہ طرزادائی سے لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں جب کہ ان کے اکثر اشعار انتہائی غوروخوض کے متقاضی ہیں۔ بطور نمونہ انہوں نے میرؔ صاحب کا درج ذیل شعر سنایا اور مطلب پوچھا‘‘:

؎اُگتے تھے دستِ بلبل و دامانِ گُل بہم

صحنِ چمن نمونۂ یوم الحساب تھا

حاضرین محفل کی جانب سے شعر مذکورہ کی نوع بنوع تشریحات کے بعد وہ بولے۔۔۔ یہاں ’دستِ بلبل‘ سے مراد وہ پتیاں ہیں جو پھول کے نچلے حصے پر ہوتی ہیں اور چوںکہ پانچ ہوتی ہیں، اس لیے پنجے سے مشابہ ہیں۔ ’’دامانِ گل‘‘ سے مراد پھول کی سرخ یا گلابی پنکھڑیاں ہیں۔ اب شعر کا مطلب یہ ہوا کہ بلبل اپنے پنجے میں گل کا دامن تھامے گل کی بے اعتنائی پر فریاد و فغاں کر رہی ہے۔ لہٰذا جس طرح حشر میں مظلوم ظالم کا دامن پکڑ کر فریاد کرے گا اسی طرح صحن چمن میں بھی بلبل کی فریاد سے روزحشر کا منظر سامنے آتا ہے۔

خاکوں پر مبنی کتاب ’’گم شدہ لوگ‘‘ میں آغا ناصر لکھتے ہیں کہ پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی ذوالفقار بخاری جن لوگوں کو عزیز رکھتے تھے ان میں سے اگر کسی کے ساتھ ناراض ہوتے تو اپنی خفگی کے اظہار کے لیے ان سے بول چال بند کر دیتے۔ اسی تناظر میں، جب بزرگ شاعر ارمؔ لکھنوی اور بخاری صاحب میں بول چال بند تھی، تو کراچی کے ایک مشاعرے میں جس کی صدارت بخاری صاحب کر رہے تھے، ارمؔ لکھنوی بھی بطور شاعر مدعو تھے۔ اپنی باری آنے پر جب انہوں نے غزل سنائی تو ساری محفل داد و تحسین کے شور سے گونج اٹھی، مگر بخاری صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے، خشمگیں نگاہوں اور تنی ہوئی بھنوؤں کے ساتھ ساری غزل سماعت کی۔ غزل کے اختتام پر ارم ؔصاحب نے بخاری صاحب کو مخاطب کرتے کہا، حضور! ایک شعر صرف آپ کی خدمت میں عرض ہے، اور پھر بڑی رقت کے ساتھ درج ذیل شعر پڑھا:

؎یوں وہ گزرے نظر چرائے ہوئے

ہم لیے رہ گئے سلام اپنا

بخاری صاحب شعر سن کے پھڑک اٹھے اور جذباتی انداز میں اپنی نشست سے اٹھ کر ارمؔ لکھنوی کو گلے لگا لیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔