’’بچوں‘‘ کے خلاف ’’بچوں‘‘ کو کھلاتے

سلیم خالق  پير 15 اپريل 2024
دونوں ٹیموں کے مابین سیریز کا پہلا میچ 18 اپریل کو شیڈول ہے (فوٹو: کرک انفو)

دونوں ٹیموں کے مابین سیریز کا پہلا میچ 18 اپریل کو شیڈول ہے (فوٹو: کرک انفو)

جب صرف پرنٹ میڈیا کا زمانہ تھا تو مشہور شخصیات کو اپنی کہی ہوئی کسی بھی بات سے پھرنے میں آسانی ہوتی تھی، ’’میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کرشائع کیا گیا‘‘ یہ مخصوص جملہ اکثر سننے کو ملتا تھا، پھر ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی، کسی نے جو بھی کہا وہ آرکایوز کا حصہ بن گیا اور کسی بھی وقت دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اب کسی کیلیے اپنے بیان سے پیچھے ہٹنا آسان نہیں رہا، سوشل میڈیا کے آنے سے یہ ہوا کہ کسی نے پہلے کچھ کہا ہو اور پھر اپنی بات سے مکر جائے تو دونوں بیانات کی ساتھ کلپس لگا کر اسے شرمندہ کیا جاتا ہے،البتہ اب لگتا ہے کہ معروف شخصیات بھی ’’شرمندگی پروف‘‘ ہوتی جا رہی ہیں، انھیں آپ لاکھ احساس دلائیں کوئی نہ کوئی تاویل دے کر اپنا دامن بچا لیا جاتا ہے، گذشتہ دنوں عبدالرزاق اور وہاب ریاض کے بیانات کا بڑا ذکر رہا، دونوں نے بابر اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں پر سوال اٹھائے تھے لیکن پھر خود انھیں دوبارہ ذمہ داری سونپ دی۔

آج کل کے نوجوان صحافی بھی لگی لپٹی نہیں رکھتے اور صاف بات کرنے کے عادی ہیں، لاہور میں پریس کانفرنس ہوئی تو دونوں سلیکٹرز سے رائے میں اتنی جلدی تبدیلی آنے کی وجہ پوچھ لی گئی تو بجائے شرمندہ ہونے کے عجیب سی وضاحتیں دینے لگے، عبدالرزاق اسٹیج ڈراموں سے بیحد متاثر ہیں، حال ہی میں ایک ٹی وی شو کے دوران بھی کامیڈی کی کوشش کرتے نظر آئے تھے، ان کی لاٹری کھل گئی اور پی سی بی میں نئی ملازمت مل گئی، عبدالرزاق کی باتوں سے یہ تاثر سامنے آیا کہ ٹی وی کے تبصروں کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے، جب سے محسن نقوی پی سی بی میں آئے وہاب کے تو وارے  نیارے ہیں، نگراں حکومت میں ان کے ساتھ وزارت کے دنوں میں تعلق مزید مضبوط ہوا۔

اب سلیکٹر ہونے کے ساتھ سینئر منیجر کی حیثیت سے غیر ملکی ٹورز بھی کریں گے،ٹی وی چینلز کے آنے سے سابق کرکٹرز کو متبادل روزگار میسر آ گیا، وہاں جو زیادہ شور مچاتا اسے پی سی بی میں بلا لیا جاتا ہے، محمد یوسف اس کی بڑی مثال ہیں، جب سے وہ بورڈ میں آئے لوگ ان کے سخت تبصرے سننے سے محروم ہو گئے، اس سلیکشن کمیٹی کو یہ ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے کہ اس میں دو سابق صوبائی وزرا موجود ہیں، وہاب نے تو خیر کافی کرکٹ کھیلی ہے، بلال افضل کیسے شامل ہوئے یہ جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز کے لیے سلیکشن کمیٹی نے جو اسکواڈ منتخب کیا اس میں تمام اسٹار کرکٹرز شامل ہیں، دوسری جانب کیویز 14 اہم کھلاڑیوں سے محروم ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئے پلیئرز پر مشتمل ٹیم منتخب کی جاتی لیکن شکست کے ڈر سے ایسا نہیں ہوا، یہ ٹھیک ہے کہ ورلڈکپ قریب ہے لیکن بچوں کی پٹائی کر کے آپ کیا تیاری کریں گے؟ نیوزی لینڈ کو اس وقت بڑا بْرا لگا تھا جب جنوبی افریقہ نے نوآموزٹیم ان کے ملک بھیجی تھی، اب وہ خود کیا کر رہے ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ آئی پی ایل کی بھاری دولت کمانے سے کسی کو نہیں روکا جا سکتا لیکن کیویز کو اپنی عزت کا بھی تو کچھ خیال ہونا چاہیے، کھلایا بھی نہیں جا رہا اور پانی پلاتے یا تالیاں بجانے وقت گذرتا ہے،ہر سیریز سے قبل دونوں بورڈز کا جو ایم او یو سائن ہوتا ہے اس میں بہترین کرکٹرز کے انتخاب کا لکھا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے لیگز کی وجہ سے اب ایسا نہیں ہوتا،شائقین سے آپ ٹکٹوں کی مد میں بڑی رقم لیتے ہیں انھیں  بہترین کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھنے کا حق حاصل ہے۔

ایسی سیریز میں پھر اے ٹیم کو میدان میں اتارنا چاہیے تاکہ دوسرا بھی کچھ سبق سیکھے، آپ سوچیں کہ اگر بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، محمد رضوان اور شاداب خان جیسے کھلاڑی نیوزی لینڈ نہ جائیں تو کیا ان کا بورڈ کچھ نہیں کہے گا؟ آپ لوگ کرکٹ کا اتنا شوق رکھتے ہیں ، میں آپ سے پاکستان آنے والی کیوی ٹیم کے 5 کرکٹرز کے نام پوچھوں تو آپ کو بھی بتانے میں مشکل ہوگی، ڈین فاکس کرافٹ، کول میک کونچی، ولیم او رورک، بین سیئرز، زکاری فاکس،ٹم رابنسن جیسے کرکٹرز کا مقابلہ بابر ، فخر زمان،افتخار احمد، عماد وسیم، محمد عامر، شاہین، رضوان، نسیم شاہ اور شاداب سے ہوگا، کیا یہ ٹکر کا مقابلہ لگتا ہے؟ ویسے پاکستان ٹیم کا کوئی بھروسہ نہیں، ہماری روایت رہی ہے کہ نوآموز کرکٹرز کو اسٹارز بنا کر بھیجتے ہیں، دیکھتے ہیں اس بار کیا ہوتا ہے لیکن اس سیریز میں 4،5 بڑے ناموں کو مکمل ریسٹ دینا چاہیے تھا۔

وہ تو شکر کریں کہ کراچی میں کوئی میچ نہیں رکھا ورنہ نیشنل اسٹیڈیم میں صرف سیکیورٹی اہلکار ہی میچ دیکھتے نظر آتے، راولپنڈی اور لاہور میں شاید کراؤڈ آ جائے لیکن ان کے پیسے کیسے وصول ہوں گے، اب بھی وقت ہے سلیکٹرز کو ٹریول ریزرو میں شامل بعض کرکٹرز کو بلوا کر میچز بھی کھیلنے کا موقع دینا چاہیے، ویسے بھی جب پتا ہے کہ آئی پی ایل کے دوران اسٹار کھلاڑی نہیں آئیں گے تو بے جوڑ سیریز رکھتے ہی کیوں ہیں، اے ٹیموں کے میچز رکھ لیں،اب کرکٹرز قومی ذمہ داریوں پر لیگز کو ترجیح دینے لگے ہیں، شکر ہے پاکستان میں یہ ٹرینڈ اب تک نہیں آیا، بڑی وجہ آئی پی ایل میں شرکت کا موقع نہ ملنا بھی ہے، جنوبی افریقہ کو دیکھ لیں اس نے اب باہمی سیریز کو اہمیت دینا بالکل چھوڑ دیا، اس کے نزدیک اپنی لیگ اولین ترجیح رکھتی ہے،دیگر ممالک بھی آہستہ آہستہ ایسا ہی کرنے لگیں گے، پھر وہ زمانہ آئے گا جب سیریز کے بجائے انٹرنیشنل میچز صرف آئی سی سی ایونٹس کی صورت میں ہونے لگیں گے۔

بھارتی کرکٹرز تو خیر بے حساب رقم کماتے ہیں پاکستانی کرکٹرز کی آمدنی بھی کم نہیں، بھاری ماہانہ تنخواہ، میچ فیس ، اسپانسر شپ کے ساتھ پی ایس ایل وغیرہ سے بھی پیسہ ملتا ہے، البتہ نیوزی لینڈ جیسے ممالک کے کرکٹرز کی آنکھیں آئی پی ایل کی دولت دیکھ کر چندھیا جاتی ہیں،وہ کھیلیں یا نہیں پیسہ تو مل رہا ہوتا ہے، اگر ٹیلنٹ کو بچانا ہے تو ان بورڈز کو بھی کھلاڑیوں کو اچھا معاوضہ دینا ہوگا، ساتھ انٹرنیشنل لیگز کے حوالے سے بھی آئی سی سی ہی کوئی پالیسی بنائے، بصورت دیگر باہمی سیریز کا خاتمہ اب زیادہ دور نہیں لگتا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔