یہ دل بچارا ایک ہے کس کس کا اب ماتم کرے

انتظار حسین  اتوار 15 جون 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

شب برات آئی اور خاموشی سے گزر گئی۔ کچھ مسجدوں کے در و دیوار بطور خاص قمقموں سے آراستہ نظر آئے۔ دور سے آتی لائوڈ اسپیکروں پر واعظوں کی آوازیں سنائی دیں اور بس تب ہمیں گزری ہوئی شب براتیں شدت سے یاد آئیں۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب پاکستان میں پولیس نے پھلجھڑیاں اور مہتابیاں بیچنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی تھی۔

مولوی حضرات ان پولیس والوں کی کمک پر تھے جو کہتے تھے کہ یہ جو بچے بڑے شب برات کے موقعے پر پھلجھڑیاں مہتابیاں جلا کر خوش ہوتے ہیں تالیاں بجاتے ہیں یہ غلط ہے۔ ایسی مبارک مذہبی تقریب پر یہ لہو و لعب جس میں قوم کی دولت بھی ضایع ہوتی ہے اور جانوں کے ضیاع کا بھی اندیشہ لگا رہتا ہے۔ لوگوں کو بھی رفتہ رفتہ اس کا یقین آ گیا۔ بچے بھی سہم کر پیچھے ہٹ گئے۔ سو شب برات کا تیوہار اپنی گہما گہمی‘ اپنی چہل پہل سے محروم ہو گیا۔ بچوں کے لیے اور ان کے ساتھ گھر آنگن میں سب گھر والوں کے لیے جو خوش ہونے کے لمحات میسر آتے تھے وہ غائب ہو گئے۔

مگر کیا یہ واقعہ شب برات کے ساتھ گزرا ہمیں تو لگتا ہے کہ ہمارے جو بھی تیوہار تھے ان سب ہی پر اوس پڑ گئی ہے۔ اور مسلمانوں میں تیوہار بھی کونسے زیادہ ہوتے ہیں۔ موسمی تیوہاروں کو تو ویسے بھی کبھی ہم نے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ مذہبی تیوہار گنے چنے ہیں‘ عید‘ بقر عید‘ شب برات۔ سب سے بڑھ کر عید پر چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ کتنے اہتمام سے رمضان کے ساتھ ساتھ ہی بچوں بچیوں کے لیے نئے جوڑوں کا اہتمام ہونے لگتا تھا۔ نماز عید خود دینی فریضہ ہونے کے ساتھ ایک تہذیبی تقریب بھی بن گئی تھی۔ نیا جوڑا پہن کر خوشی خوشی گھر سے نکلے ہیں۔ عید گاہ کی طرف رخ ہے۔ پہلے تو عید کی نماز مسجدوں میں کم ہوتی تھی‘ بستی سے باہر کھلے میدانوں میں قائم عید گاہوں میں ہوا کرتی تھی۔ نماز عید پڑھی۔ ایک ایک نمازی سے گلے ملے مصافحہ کیا۔ بیشک ذاتی طور پر اسے نہ جانتے ہوں۔

عید گاہ سے نکلے تو دیکھا کہ باہر تو میلہ لگا ہوا ہے۔ بچوں کا تقاضا ہے کہ غبارے خریدیں گے‘ پھٹ پھٹ کرتی تاشہ بجاتی گاڑی خریدیں ببوا خریدیں گے۔ پیپنی خریدیں گے۔ اور جب ان کھلونوں سے لد پھند کر گھر واپس ہونے لگے تو پتہ چلا کہ گلی میں تو پہلے ہی شور پڑا ہوا ہے۔ پیپنیوں کا شور۔ تاشہ بجاتی گاڑی کا شور۔ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن ہمارے دیکھتے دیکھتے جو ہمارے بیچ سب سے بڑھ کر خوشی کا تیوہار تھا اس پر اوس پڑ گئی۔ کیونکہ ایک ایک کر کے خوشی کی ساری چیزیں بدعت کہلائی جانے لگیں حتیٰ کہ سویاں کھانا بھی بدعت ٹھہرا۔ اور اب ہمیں یاد آ رہا ہے کہ جب مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد نے فتویٰ دیا تھا کہ عید کے دن سویاں کھانا بدعت ہے تو ہم نے جوش بدعت میں ایک کالم لکھ ڈالا‘ چند سطریں عبرت اور بدعت سے بھرپور نقل کرتے ہیں۔

’’صاحب ہم تو بے سوچے سمجھے مزے لے لے کر سویاں کھاتے چلے جا رہے تھے۔ ایک دوست جو ہم سے عید ملنے آئے تھے بے ساختہ بولے ’’بدعت۔ یہ جو تم سویاں کھا رہے ہو بدعت کے مرتکب ہو رہے ہو‘‘۔

’’سویاں کھانا بدعت ہے۔ یار کیا کہہ رہے ہو‘‘

بولے ’’میں نے کچھ نہیں کہا۔ جو کہا ہے ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا ہے‘‘۔

ہم نے کہا۔ اچھا خیر یہ گفتگو تو ہوتی رہے گی۔ پہلے عید تو ملو‘‘

ہم عید ملنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ وہ بولے ’’یہ بھی بدعت ہے‘‘۔

خیر عید تو گزر گئی مگر ہمارا معاملہ اب یہ ہے کہ اپنے سب قومی اور مذہبی معاملات میں شک کا شکار ہو گئے ہیں۔ اب ہم قومی پرچم کے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں تو شک رہتا ہے کہ کہیں شرک کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ قومی ترانہ سنتے ہیں تو شک گزرتا ہے کہ کہیں مشرک تو نہیں ہو گئے۔ انڈا کھاتے ہیں تو ایک شک کہ مرغی کا انڈا حلال ہے یا حرام۔ سویاں کھاتے ہیں تو بدعت کے مرتکب ہونے کا اندیشہ۔ عید مبارک کہتے ہوئے یاروں سے گلے ملتے ہیں تو پھر وہی شک کہ ہم بدعتی تو نہیں ہو گئے‘‘۔

سچ پوچھو تو تین اصطلاحوں کی تکرار نے ہمارے ایمان میں اچھا خاصا خلل ڈال دیا ہے۔ یہ تین اصطلاحیں ہیں۔ بدعت۔ شرک۔ لہو و لعب۔

یہ جو ہمارے یار بسنت کے موقعے پر پتنگیں اڑاتے تھے تو دیکھ دیکھ کر تو ہم بھی خوش ہوتے تھے۔ یہ جانے بغیر کہ یہ سارا کھیل لہو و لعب کے ذیل میں آتا ہے۔ جو پتنگ اڑاتا ہے وہ تو لہو و لعب میں ملوث ہے ہی۔ مگر جو پتنگ کو اڑتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہ بھی لہو و لعب میں ملوث ہے۔ پھر جب اس کا اثر ہوا تو ایک نیا گل کھلا۔ کہا گیا کہ بسنت تو ہندوئوں کا تیوہار ہے۔ کفر، کفر‘ کفر۔ ہم کہتے رہ گئے کہ ارے اس مشغلہ پر تو صوفیا نے مہر تصدیق ثبت کر رکھی ہے۔

مسلمانوں میں تو سب سے پہلے حضرت امیر خسرو نے اپنی پگڑی میں سرسوں کے پھولوں سے بھری شاخ اڑسی تھی۔

مگر ہماری کون سنتا ہے۔ پھر ایک گل اور کھلا ‘کمبخت منافع خور بیوپاریوں نے ڈور کی جگہ تار کا استعمال شروع کر دیا۔ اس فائول نے قیامت برپا کر دی۔ حادثے ہونے لگے۔ کھیل کھیل میں جان کے لالے پڑ گئے۔ یہاں سے انتظامیہ کا فریضہ شروع ہوتا ہے کہ اس غیر قانونی حرکت پر روک ٹوک کرے۔ ایسے کاروباریوں کی پکڑ دھکڑ کرے۔ ان کے کارخانوں و مکانوں پر چھاپے مارے۔ مگر پکڑ دھکڑ کس کی ہوئی۔ پولیس والے پتنگ لوٹنے والے بچوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ نااہل بھی تھی۔ انتظام کی صلاحیت سے عاری اور دل میں کھوٹ بھی تھا۔ دکھا نا کہ ہم تو پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں مگر پتنگ باز ہلاکت کے اس کھیل سے باز نہیں آ رہے۔ سو ہم پتنگ بازی کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

ابھی ہم یہ تماشہ دیکھ رہے تھے کہ کیا کیا بہانے تراش کر بسنت کے اچھے بھلے تیوہار کو ختم کیا گیا۔ مطلب یہ کہ لوگوں کو خوش ہونے سے باز رکھو۔

مرے کو ماریں شاہ مدار۔ بچی کھچی جو تنک سی خوشی رہ گئی تھی اسے دہشت گردی کے اندیشہ نے برباد کر دیا۔ یہ اندیشہ تو ہمارے لیے جان لیوا بن گیا۔ اب جہاں چار یار جمع ہوتے ہیں‘ صحبت یا راں گرم ہوتی ہے تو یہ اندیشہ چپکے چپکے ہماری خوشی سلب کرنے پہ لگا رہتا ہے۔ تو کیسی عید کہاں کی بقر عید۔ اب ہمارے سب تیوہار‘ سب خوشی کے موقعے دہشت گردی کے اندیشہ کا شکار ہیں۔ عید کی صبح جب ہم فریضہ نماز کے لیے گھر سے نکلتے تھے تو مسجدوں کی طرف جاتی راہوں پر کیا چہل پہل نظر آتی تھی۔ نونہالوں نے نیا لباس نیا جوتا نئی ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔ دوڑے چلے جا رہے ہیں مسجد کی طرف۔ اب ایسا منظر کم کم نظر آتا ہے۔ بمشکل فریضہ نماز ادا کرتے ہیں۔ بچوں کو کیوں مشکل میں ڈالیں۔

ہم جب مسجد کے قریب پہنچتے ہیں تو سیکیورٹی والے کتنی شک بھری نظروں سے ہمیں دیکھتے ہیں۔ سر سے پیر تک کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں اندر اسلحہ تو نہیں چھپا رکھا ہے۔ جب ہم اس آزمائش سے گزر لیتے ہیں تو خود ہم دوسروں کو شک کی نظروں سے دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ عید کی نماز سے وابستہ یہ دستور چلا آتا تھا کہ جب نماز ختم ہوتی ہے تو جو آپ کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں بیشک آپ انھیں نہ جانتے ہوں مگر آپ ان سے مصافحہ کرتے ہیں‘ عید کی مبارک باد دیتے ہیں لیکن اب اس دستور میں ایک کھنڈت پڑ گئی ہے۔ کہیں دماغ کے کسی گوشے میں یہ شک منڈلاتا رہتا ہے کہ کیا خبر ہے ہمارے دائیں بائیں جو بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی اچانک اٹھ کھڑا ہو اور کوئی ایسا پاکھنڈ کرے کہ خود بھی مر مٹے اور نمازیوں کے اس مجمع میں سے کتنوں کو اپنے ساتھ لے مرے۔

تو بس اب ہم عید بقر عید کی افطار و سحری کی خوشی کیا مناتے ہیں بس ڈرے سہمے مسجد میں پہنچتے ہیں فریضہ نماز ادا کر کے جلدی گھر واپس آتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس عید کی نماز بھی کسی نہ کسی طرح پڑھ لی۔ سو اس طرح فرائض دینی و دنیوی بجا لاتے ہیں۔ دل اندر سے دھکڑ پکڑ کرتا رہتا ہے۔ دور نزدیک سے موت کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس رستخیز بیجا میں کیسے کیسے پیارے گزر گئے؎

اب دیکھ کس کو شاد ہو اور کس پہ آنکھیں نم کرے

یہ دل بچارا ایک ہے کس کس کا اب ماتم کرے

یا دل کو رو وے بیٹھ کر یا درد و دکھ کو کم کرے

یاں کا یہی طوفان ہے اب کس کی جوتی غم کرے

گر یوں ہوا تو کیا ہوا‘ گر ووں ہوا تو کیا ہوا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔