- ٹی20 ورلڈکپ؛ اسٹار اسپورٹس ایک مرتبہ پھر پاکستانی ٹیم کی ٹرولنگ شروع کردی
- وزیراعظم کی زیرسربراہی اقتصادی مشاورتی کونسل تشکیل، جہانگیر ترین بھی شامل
- کرغز سفارت خانے کے ناظم الامور ڈیمارش کے لیے دفتر خارجہ طلب
- بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد تک اضافے کا امکان
- دکان داروں سے بھتہ خوری کرنے والے جعلی کسٹم انسپکٹرز گرفتار
- پشاور؛ سرکاری دوائیں بیچنے والے لیڈی ریڈنگ اسپتال ملازمین سمیت 6 افراد گرفتار
- پاکستان کی آئی سی ٹی برآمدی ترسیلات میں 31 کروڑ ڈالرز کا تاریخی اضافہ
- بھارت مسلسل چھٹے سال عالمی انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن میں سرفہرست
- سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ
- بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے لیے 72 ارب ڈالر کا دس سالہ منصوبہ تیار
- سپریم کورٹ؛ جسٹس منیب اختر نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
- ٹیم مینجمنٹ نے انگلینڈ کیخلاف پہلے ٹی20 میں بھی تجربات کی ٹھان لی
- سی ٹی ڈی کا شہریوں کو بغیر ثبوت گرفتار کرنا اختیارات کا غلط استعمال ہے، عدالت
- پی آئی اے؛ ٹورنٹو جانیوالی پرواز سے آئل لیک ہوگیا، کراچی میں ٹیکنیکل لینڈنگ
- ٹی20 ورلڈکپ2024؛ حفیظ نے اپنی سیمی فائنل ٹیموں کی پیشگوئی کردی
- ففتھ جنریشن وار؛ نوجوان کیا کریں؟
- احتجاج رنگ لے آیا، ٹمبر کنسمائمنٹس جاری کرنے کے احکامات جاری
- سی پیک پر 25.4 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکے، چینی قونصلر
- جامشورو کا کوئلے سے چلنے والا 660 میگاواٹ منصوبہ تیار
- ایپل کا معذور افراد کے لیے اہم فیچر کا اعلان
عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ ۔
سپریم کورٹ نے برطرفی کیخلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے کراچی رجسٹری میں حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کو برخاست کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ میں کنٹریکٹ ملازم نہیں، ریگولر ملازم تھا۔ حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ملازم تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کی اپوائنٹمنٹ میں تمام ضابطہ کار کو فالو کیا گیا تھا۔ ہمیں کیا پتا آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے یا نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کنٹریکٹ ملازم تھے، ذرا اپوائنٹمنٹ لیٹر پڑھیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے کمیٹی میں کیا ہوتا ہے۔ لسٹ آ جاتی ہے کہ اِن کو رکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس ملازمین بھر کررہے ہیں، عوام کی خدمت کہاں ہو رہی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں۔ سرکاری ادارے کیا کررہے ہیں، صرف ملازمین کو پال رہے ہیں۔ صرف لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جارہا ہے۔ صرف ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں۔ بس کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں، ایک ایک اسامی پر 3، 3 گنا ملازمین کو بھرتی کررہے ہیں۔ سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنا ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے۔ غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں؟
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے خود پروجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی، حکومت وہ خود چلائیں۔
وکیل نے کہا کہ صدر اور گورنر کے پیکیج کے تحت بھرتیاں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر۔ صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے؟ آئین کی دھجیاں اُڑائیں گے، تو ہم اجازت نہیں دیں گے۔ صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ کسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔ کب ہوا تھا یہ؟ کس نے کیا تھا؟
وکیل نے بتایا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھرتیاں ہوئیں، پیکیج ملا تھا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے ، چیز قائم نہیں رہ سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کے لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ آپ ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں، صوبے کی بات نہیں کررہے۔ صوبے میں ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں۔ عدالت نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔