معین اختر، بڑا فنکار

م ش خ  اتوار 28 اپريل 2024
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

ہمارے مرنے کے بعد ہماری زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد ایک اور زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور اس نئی دنیا میں ہم اپنی نیکیوں کے مطابق زندگی کا پھر آغاز کرتے ہیں جس میں برائیاں بھی شامل ہوتی ہیں وہ ہمارا رب معاف کرے گا۔

اپریل کا مہینہ معین اختر کے حوالے سے بہت اہم ہے کہ وہ اس ماہ رب کے پاس گئے کہ وہ ایک متحرک شخصیت تھے، طنز و مزاح کے انسائیکلو پیڈیا تھے سلگتے دلوں کو انھوں نے ہمیشہ برف کی طرح ٹھنڈا رکھا۔ معین اختر بڑے فنکار تھے ان کے لیے قلم اٹھانا بھی بہت ضروری ہے کہ وہ مزاح کے علاوہ تیکھے موضوعات کو بھی بہت تعمیری و مثبت طریقے سے پیش کرتے تھے جسے تحریری شکل دینے کے لیے سوچوں کا ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے۔

معین بڑے فنکار تھے ان سے میرا بڑا قریبی رشتہ رہا، نگار کے بانی الیاس رشیدی ہمارے استادوں کی جگہ تھے، 1996 کی بات ہے غالباً معین بھائی کا بائی پاس جناح اسپتال میں ہوا ہم ان کی عیادت کے لیے جناح اسپتال گئے جب ان کے کمرے میں گئے تو حیرت کے پہاڑ ہم پر ٹوٹ پڑے بائی پاس کو دو دن ہوئے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ موصوف بیڈ پر بیٹھے سگریٹ پی رہے ہیں ہم دیکھتے ہی رہ گئے اور پوچھا کہ’’ معین بھائی یہ کیا کر رہے ہیں مسکراتے ہوئے زندہ دلی سے بولے ’’یار… م۔ش۔خ اب تو دل زیرو میٹر ہو گیا ہے اب کوئی غم نہیں۔‘‘

معین اختر 24 دسمبر 1950 کو پیدا ہوئے، ان کے والد ابراہیم صاحب کا تعلق بھارت کے شہر مراد آباد سے تھا ہجرت کے بعد ان کے والد ناظم آباد، ویسٹ وہارف، جیکب لائن اور برنس روڈ کے علاقوں میں کرائے پر رہے۔ معین اختر کے دو بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں معین سب سے بڑے تھے۔ 1966 میں ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا شمار بڑے فنکاروں میں ہونے لگا ،فنی زندگی کے 45 سال میں انھوں نے ستارہ امتیاز، تحفہ حسن کارکردگی کے علاوہ کئی ایوارڈز لیے۔

ہولی فیملی اسپتال کے ڈاکٹر عرفان احمد نے پہلا اسٹیج ڈرامہ ’’بات بن جائے‘‘ ڈاؤ میڈیکل کالج میں منعقد کیا اداکار جمشید انصاری ہمارے کزن کے سالے تھے، اس حوالے سے ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں اور وہی معین اختر سے دوستی کا سبب بنی ۔فلم اسٹار سنتوش رسل نے انھیں پی ٹی وی میں سابق جی ایم امیر امام جو اس وقت پروڈیوسر تھے ان کے ڈرامے میں معین نے پہلی مرتبہ پرفارم کیا اور ڈرامے ’’سچ مچ‘‘ میں انھوں نے اپنے آپ کو منوا لیا۔

معین اختر امیر امام کو اپنا استاد کہتے تھے پروڈیوسر سارہ کاظمی نے مزاحیہ ڈرامہ ’’روزی‘‘ میں انھیں روزی کا کردار دیا اس کھیل کے حوالے سے ہم نے ایک بڑے روزنامے میں ان کے پروگرام پر خوبصورت تنقید کردی تھی یہ بات معین کو اچھی نہیں لگی اور تاج محل ہوٹل میں پروگرام ’’بے بیاں معین اختر‘‘ میں خطاب کرتے ہوئے ہمارا نام لے کر ہم پر تنقید کی جبکہ میں نے پروگرام کے کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی اس پروگرام میں بحیثیت مقرر کے ہم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ’’ معین بھائی آپ پر تنقید نہیں کی بلکہ پروگرام پر کی ‘‘یوں تقریباً ایک سال تک انھوں نے ہم سے بات نہیں کی پھر فلم اسٹار اظہار قاضی ہمارے بہت اچھے دوستوں میں تھے انھوں نے اپنی فلم ’’غنڈہ‘‘ کے سیٹ پر لاہور میں باری اسٹوڈیو میں ان سے ہماری دوستی کرا دی اور آخر دم تک بہت ہی محبت سے یہ دوستی قائم رہی۔

معین بڑے فنکار تھے ایسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کی پہلی فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ تھی جو ریلیز نہ ہو سکی 1970 میں انھوں نے اسٹیج پر انتھونی کوئن، گیری پیک، دلیپ کمار، محمد علی، وحید مراد کی پیروڈی کرکے خوب نام کمایا پھر وہ اسٹیج کے بادشاہ بن گئے این ٹی ایم چینل میں ہم نیوز ایڈیٹر اور شوبزنس کے ہیڈ کے طور پر کام کرتے تھے اور این ٹی ایم کے پروگراموں میں ان کو ضرور بلایا جاتا پروگرام ’’لوز ٹاک‘‘ جسے انور مقصود لکھا کرتے تھے اس میں بہت خوبصورت پرفارم کیا کرتے تھے۔

پشتو فلموں کے دلیپ کمار، بدر منیر بہت زندہ دل اور دوستوں کے دوست تھے انھوں نے معین اختر کے حوالے سے بتایا جب میری پہلی فلم ’’یوسف خان شیربانو‘‘ ریلیز ہونے والی تھی تو ایک فنکشن کا اہتمام کیا میں نے معین اختر سے کہا آپ اس پروگرام کے کمپیئر ہوں گے یہ پروگرام ایسٹرن اسٹوڈیو میں ہونا تھا میں نے معین بھائی سے معاوضے کی بات کی تو انھوں نے کہا ’’بدر منیر تم میرے چھوٹے بھائی ہو بھائیوں سے کون معاوضہ لیتا ہے ‘‘اور انھوں نے مجھے گلے لگا لیا۔

بدر منیر کی فلم ’’یوسف خان شیربانو‘‘ پاکستان کی پہلی سپرہٹ پشتو فلم تھی۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ معین اختر اور سلطان راہی میں بہت دل لگی تھی، یہ بات سلطان راہی مرحوم نے ہمیں بتائی تھی اور وہ کراچی میں اپنی فلم ’’سڑک‘‘ کی شوٹنگ کے لیے آتے تھے تو انھوں نے مجھے کہا کہ ’’برخوردار تم معین کو بلاؤ ‘‘ہم نے معین اختر کے گھر فون کیا (اس زمانے میں موبائل فون نہیں تھے) انھوں نے ہی فون اٹھایا ہم نے انھیں بتایا کہ’’ سلطان بھائی آپ کو یاد کر رہے ہیں آپ میٹروپول آ جائیں‘‘ اور معین ایک گھنٹے میں ہوٹل پہنچ گئے دوپہر کا کھانا ہم نے معین اور سلطان راہی نے ساتھ کھایا انھوں نے معین سے کہا کہ معین صرف پنجابی فلم میں اور کام کر لو تاکہ فن میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔

سلطان راہی صاحب نے ’’مولاجٹ‘‘ سپرہٹ فلم کے ہدایت کار یونس ملک سے معین کو ملوایا تھا مگر انھوں نے کام نہیں کیا اداکار محمد علی، معین سے بہت محبت کرتے تھے۔ علی بھائی نے ایک واقعہ سناتے ہوئے ہمیں اپنے گھر کی ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ جب میری فلم ’’آس‘‘ سپرہٹ ہوئی تو ایور نیو اسٹوڈیو میں فلم کی ایک تقریب کا اہتمام مصنف پروڈیوسر ہدایات کار علی سفیان آفاقی مرحوم نے کیا۔

تقریب کے کمپیئر معین اختر تھے معین اختر اس زمانے میں اسٹیج پر کامیڈی اور کمپیئرنگ کیا کرتے تھے، اس موقع پر معین اختر نے اداکار محمد علی کی نقل مکالموں کی صورت میں کی علی بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے اسٹیج پر جا کر معین اختر کو گلے لگا لیا تھا۔

معین اختر بہت صلاحیتوں کے مالک تھے اپنی اولاد کے لیے ساری عمر محنت کی بچوں کو امریکا میں اچھی تعلیم دلوائی وہ مجھے کہتے تھے کہ پہلے اپنے اہل خانہ پر توجہ دو۔ قناعت پسند اور اصول پسند شخص پیسے کی ریل پیل تھی اتنا کچھ ہونے کے باوجود ان کی اہلیہ سٹی گورنمنٹ KMC کے ایک اسکول میں ٹیچر تھیں جو علامہ اقبال ٹاؤن بلاک W میں واقع تھا۔ صاحب حیثیت ہونے کے باوجود اہلیہ کی نوکری کو باعث عزت سمجھتے تھے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے معین اختر نے بتایا تھا کہ’’ برے وقت کو کبھی نہ بھولنا یہی کامیابی کا دروازہ ہوتا ہے، مجھے فخر ہے کہ میری اہلیہ اسکول میں پڑھاتی ہیں‘‘ اس ملک نے انھیں بہت نوازا اپنے محسنوں کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔

نجی چینل کے روح رواں حاجی عبدالرؤف اور انور مقصود نے میرا دوران بیماری بہت ساتھ دیا میں ان دونوں کا احسان کبھی نہیں بھول سکتا اور پروگرام ’’لوز ٹاک‘‘ کا آغاز کیا آخری ایام میں بہت بیمار تھے ان سے ہفتے میں تین دفعہ ملاقات ہوتی تھی ڈاکٹروں نے انھیں ہوائی سفر سے منع کیا تھا جس کی وجہ سے وہ صرف کراچی کے ہوکر رہ گئے تھے اس بات سے وہ بہت دکھی تھے انھیں انگریزی پر بہت عبور تھا وہ انگریزی کے بھی لاجواب کمپیئر تھے انھوں نے ہر اس پروگرام میں بھی کمپیئرنگ کی جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ پاکستان کے بیشتر صدر حضرات بھی قابل ذکر ہیں۔ معین اختر اپنے فن کا خود اعلیٰ سرٹیفکیٹ تھے رب ان کی مغفرت کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔