بداعتمادی کا ماحول

بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں ، کریمنلز مافیا اور دہشت گرد گروہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں


سلمان عابد August 06, 2024
[email protected]

حکومتی نظام کی بنیادی شرط اپنے شہریوں کے ساتھ برابری اور منصفانہ سلوک کے ساتھ ان میں اعتماد کی بحالی کا ماحول اور امکانات کو پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر ریاست، شہریوں اور حکومت کے درمیان نہ صرف اعتماد کا رشتہ قائم ہوتا ہے بلکہ یہ عمل شہریوں میں موجود تضادات کو بھی ختم کرنے کا سبب بنتا ہے ۔بنیادی مسئلہ آئین پاکستان میں دیے گئے شہریوں کے حقوق ہوتے ہیں جن کی پاسداری کرکے ریاست شہریوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔جب حکومت کا نظام شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں قانونی ابہام پیدا کردے، نظام انصاف میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہو تو عوام میں مایوسی پھیلتی ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا معاملہ مزید پیچیدہ اور مبہم ہے۔ ان علاقوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر سماجی و معاشی ارتقاء کی رفتار انتہائی سست ہے بلکہ کئی علاقوں میں سماجی و معاشی جمود ہے۔ ان علاقوں میں پرانے سماجی اور معاشی نظام کی گرفت مضبوط ہے ، اس پرانے نظام کے اسٹیک ہولڈرز جدید رجحانات کو اپنی سماجی ، معاشی اور سیاسی حیثیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان کے آئین ،قانونی اور عدالتی نظام اور سیکیورٹی فورسز کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ہی بحران ہمیں بلوچستان کے تناظر میں دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں بلیک اکانومی چلانے والے اپنی سیاسی پراکسیز کے ذریعے حالات خراب کررہے ہیں۔

بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں ، کریمنلز مافیا اور دہشت گرد گروہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان پراکسیز کو طاقت اور تقویت مل رہی ہے۔ ممکن ہے اس صورتحال سے بعض سیاسی عناصر داخلی اور خارجی بنیاد پر سیاسی فائدہ الزامات کی صورت میں اٹھانا چاہتے ہوں تو ان کی سرکوبی کی جائے نہ کہ لاپتہ افراد کے خاندان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے ۔اس میں بھی کچھ حقیقت ہے کہ علیحدگی پسند وں اور دہشت گردوں کو علاقائی ممالک کی طرف سے کوئی مدد کسی نہ کسی شکل میں مل رہی ہوگی اور وہ ہمارے داخلی بے چینی کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہوںگے مگر علاج ان ہی کا تلاش کیا جائے اور اس کا ایک بڑا علاج داخلی سطح پر بلوچستان کے لوگوں کے حقوق کی پاسداری کے ساتھ جڑاہوا ہے ، بلوچستان اور کے پی کو محفوظ بنانے کے لیے سرحدوں کی نگرانی سخت کی جائے۔

لوگ پہلے ہی ملک کے حالات سے تنگ ہیں اور یہ حالات محض بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لوگوں میں مہنگائی کے حوالے سے عوام پریشان ہیں۔ ادھر سیاسی نظام نہ تو سیاسی اور جمہوری معاملات کو حل کررہا ہے اور نہ ہی اس ملک کو آئینی و قانونی بنیادوں پر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس کا نتیجہ ایک طرف سیاسی مسائل اوردوسری معاشی بدحالی کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔18ویں ترمیم کے بعد صوبوں میں اختیارات تو تقسیم ہوگئے مگر یہ سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک نہیں پہنچ رہے ۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت کو اپنے ریونیو بڑھانے کے لیے سرکاری مشینری سے کام لینا چاہیے ۔ کوئٹہ جیسے خوبصورت شہر میں ترقیاتی کام وفاق نے نہیں کرانا، یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے ، چھوٹے صوبے وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں لیکن کم ازکم ایک شہر کا نظام درست کرنے کے لیے تو رقم موجود ہوگی۔

صوبے کے وزیراعلیٰ ، وزراء اور ارکان اسمبلی اپنی اپنی مراعات لے رہے ہیں لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں گراس روٹ لیول پر نتائج دینے میں کیوں ناکام ہیں۔ یہ طرز عمل لوگوں کی توقعات کے برعکس ہے ۔لوگوں کا مسلسل غائب ہونا، بھی ایک سوال ہے، اگر کسی سرکاری ادارے نے کسی کو کسی جرم میں گرفتار کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور اگر کوئی شخص کسی مسلح تنظیم کا حصہ بن کر خود زیرزمین چلا گیا ہے تو صوبائی حکومت کا کام ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمے داری ادا کرے۔ ریاستی اداروں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والوں کو کھلا چھوڑے رکھنا اچھی حکومت کاکام نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح بلوچ نوجوانوں میں ریاست کا مقدمہ کمزور ہورہا ہے ۔

یہ جو وعدہ تھا کہ ملک میں عوام کی محرومی کا خاتمہ کریں گے اور بالخصوص تعلیم ، صحت ، تحفظ ،روزگار اور انصاف کے عمل کو ہر سطح پر یقینی بنایا جائے گا،ممکن نہیں ہو رہا ۔ ملک بھر میں حکمرانی کا نظام پوری طرح ڈلیور نہیں کررہا ہے اور مسلسل محرومی اور غربت کی سیاست میں انتہا پسندی جیسے مسائل سر پکڑ رہے ہیں۔ خود بلوچستان کے لوگوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے مسائل کا حل بھی سیاسی حکمت عملیوں کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔

انتہاپسندی ، بغاوت یا ریاست کے خلاف کھڑے ہونے کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے ساتھ بات چیت ہی کی مدد سے ممکن ہوگا۔اسی طرح اگر کچھ لوگ بلوچستان میں بیٹھ کر داخلی و خارجی محاذ سے بلوچستان کے لوگوں پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں تو ان کو ان معاملات میں بھی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اس عمل میں سب سے زیادہ ذمے داری تو بڑی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ صوبہ میں موجود چھوٹی سطح کی جماعتوں کے ساتھ مل کر سیاسی مقدمہ لڑنے کی کوشش کریں ۔ ان کی یہ کوشش بلوچستان اور ریاست سمیت اسلام آباد میں موجود حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرے۔

اس وقت بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت ہے۔ پیپلزپارٹی وزارت پر موجود ہے جب کہ گورنر کے منصب پر مسلم لیگ ن ہے لیکن بلوچستان کے حالات کی درستگی اور عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ۔بلوچستان کی حکومت ہو یا وہاں موجود سیاسی جماعتوںکا یہ رویہ بھی درست نہیں کہ وہ اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بجائے سارا بوجھ وفاق اور اسٹیبلیشمنٹ کے کندھوں پر ڈال دیں ۔ جب وہ بلوچستان میں موجود سیاسی اقتدار کا حصہ رکھتے ہیں تو ان کو مسائل کی بھی اور مسائل کے حل کی بھی منصفانہ اور شفاف انداز میں ذمے داری لینی چاہیے۔ علیحدگی بلوچ راہنما اگر وہ سیاسی اور جمہوری فریم ورک میں اپنی آواز اٹھانا چاہتے ہیں تو انھیں راستہ دینا چاہیے۔

ہمیں ٹھنڈے دل کی بنیاد پر ان کی آوازوں کوسننا چاہیے ۔ان کے سچ کو بھی سمجھا جانا چاہیے اور بلاوجہ ہر معاملے کو اور ہر کردار کو شک کی نگاہ سے یا غدار ی کی صورت میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں مسائل کو چھپایا نہیں جاسکتا اور یہ آوازیں اب آپ کو دنیا بھر کے ڈیجیٹل نظام میں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ اسی بنیاد پر پاکستان کی سیاست ، جمہوریت ، انسانی حقوق کی آڑ لے کر ملک دشمن عناصر اور لابیاں پاکستان کے اداروں کے خلاف منفی مہم چلا رہے ہیں۔

عالمی دنیا اور عالمی ادارے صرف سوال اٹھا رہے ہیں بلکہ ہمارے داخلی نظام پر شدید تنقید بھی ہو رہی ہے جو ریاستی نظام کو اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ملکی میڈیا میں بھی بلوچستان کے معاملات کے حل کے بار ے میں جو کچھ ہورہا ہے زیادہ مباحث نہیں ہیں اورنہ ہی ٹی وی اینکرز، تجزیہ کاروں اور لکھاریوں کو بلوچستان اور وہاں سرگرم مختلف گروہوں کی ساخت،ان مقاصد، تک معلومات پہنچ رہی ہیں۔ اس لیے ریاست کی سطح پر موجود تمام افراد اور ادارے ٹھنڈے دل سے معاملات اور ان کے حل پر جذباتیت کی بنیاد پر سوچنے یا نمٹنے کے بجائے زیادہ تدبر اور گہرائی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔