پاکستان اور ترکیے مشترکہ ثقافتی چیلنج

کچھ دن ہوتے ہیں، اہل خانہ کے درمیان بیٹھنے کے باوصف کسی تفریحی چینل پر ایک ڈرامہ دیکھنا پڑا


ڈاکٹر فاروق عادل September 02, 2024
[email protected]

ڈاکٹر خلیل طوقار اور ان کے یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کا ذکر ان دنوں ہوتا ہے تو خیال خطاطی کی طرف جاتا ہے، تیر اندازی کی طرف جاتا ہے یا پھر ترک زبان سیکھنے کی طرف۔ یہ اچھا ہوا کہ انھوں نے اس بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا، اس سے اندازہ ہوا کہ ان کی توجہ کچھ ایسے تہذیبی اور فکری معاملات کی طرف بھی ہے جن کی طرف توجہ عام طور پر نہیں جاتی۔ ڈاکٹر صاحب نے زیر بحث موضوع کا ذکر کیا تو فوری طور پر میرے ذہن میں دو مناظر آئے۔

کچھ دن ہوتے ہیں، اہل خانہ کے درمیان بیٹھنے کے باوصف کسی تفریحی چینل پر ایک ڈرامہ دیکھنا پڑا۔ ڈرامے میں جیسا کہ ہوتا ہے، کچھ مہ وشیں تھیں اور کچھ ان پر فریفتہ ہونے کے دعوے دار جوانان رعنا۔ یہ سب ایک دوسرے پر فریفتہ تھے لیکن کسی کو کسی پر اعتبار نہیں تھا لہذا یہ سب اپنے صدق و صفا پر یقین دلانے کے لیے قسم کھانا ضروری سمجھتے تھے۔ معاملات حسن و عشق میں قسمیں کھائی جائیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ حیرت مجھے قسم کھانے کے انداز پر ہوئی جیسے ہی کسی پری وش یا اس کے محبوب کو قسم کھانے کی ضرورت پیش آتی، بے اختیار اس کا ہاتھ گردن کے اس مقام پر جا پہنچتا جو شہ رگ کے لیے معروف ہے۔ ہماری تہذیب میں اوّل تو نوبت قسم تک پہنچتی نہیں لیکن اگر ایسا ہو جائے تو الفاظ اتنے معتبر ہوتے ہیں کہ ایسے کسی اشارے ضرورت ہی پیش نہیں آتی پھر کیا سبب ہے کہ ہمارے فلم اور ڈرامے میں ایسے مناظر کی بہتات دکھائی دیتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اول یہ بھارتی شوبز کا اثر بد ہے۔ مزید پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ ہوتا ہے، مغربی تہذیب کے زیر اثر مغربی شوبز انڈسٹری میں یہ منظر اکثر دیکھنے کو ملتاہے۔

دوسرا منظر جو میرے ذہن میں آیا، وہ صوم و صلوٰة کے پابند پاکستانی نژاد جنوبی افریقہ کے ایک نوجوان کا تھا جس نے بہ ذریعہ ٹرین میرے ساتھ راول پنڈی سے کراچی تک کا سفر کیا۔ مہینہ بھر جو اس نے یہاں قیام کیا، وہ اس دوران میں یہاں ہونے والے مشاہدات سے پریشان تھا۔ مثلا یہ کہ کسی اجنبی مقام پر اس کا کسی دینی مدرسے والوں نے اس کا استقبال کرنا تھالیکن کوئی اسے لینے وہاں نہیں پہنچا ۔ اس کے بعد وہ جہاں جہاں گیا، اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی واردات ضرور ہوئی جس کا تعلق قول اور فعل کے عدم توازن سے کسی نہ کسی طرح نکل آیا۔وہ حیران تھا کہ کسی مذہبی شخصیت کے قول و فعل میں اتنا تضاد کیسے ہو سکتا ہے؟جنوبی افریقہ سے آنے والے نوجوان کی پریشانی تو چند روزہ تھی، وہ یہاں آیا اور واپس لوٹ گیا، ہماری پریشانی مستقل ہے اور اس میں دن پر دن اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہ جان کر تو اطمینان ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک مسلمان ہونے کا احساس بہت قوی ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ نوجوان اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ مٹھی بھر اقلیت کو چھوڑ کر اکثریت کی شعوری سطح بہت بلند ہے۔ یہ کیفیت ہماری بہت بڑی طاقت اور عظیم سرمایے میں بدل جانی چاہیے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل ایسے کسی امتحان میں پورا نہیں اترتی۔ جدید نوجوان اپنے تمام تر شعور کے ساتھ مغرب کی طرف دوڑتے ہیں جب کہ عرف عام میں قدامت کو سینے سے لگانے والے نوجوانوں یعنی تعلیم کے دینی اداروں سے نکلنے والوں کے یہاں شدت دکھائی دیتی ہے۔ اتنی کہ ان کے یہاں نہ گرد و پیش کے تقاضوں کی کوئی اہمیت ہے نہ صفائی ستھرائی اور ماحولیات ان کی پریشانی کی فہرست میں شامل ہے اورنہ انسانی جان کی حرمت کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت ہے۔ دیکھنے میں تو بہ ظاہر یہ طبقات ندی کے دو کنارے ہیں جن کے باہم ملنے کا کوئی امکان نہیں لیکن خوش قسمتی سے ایک مقام پر یہ دونوں دھارے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور یہ مقام ہے، معاملات کا، وعدے اور زبان کی اہمیت کا، لین دین میں ایمان داری اور ایفائے عہد کا۔ یہاں پہنچ کر ندی کے یہ تند و تیز دھارے اسی طرح مدھم ہو جاتے ہیں جیسے صحرا تک پہنچ کر دریائے ہاکڑا کبھی معدوم ہو گیا ہو گا۔

ایسا کیوں ہے؟ یہاں مجھے انسانی نفسیات کی پیچیدگی کا کوئی عقدہ نہیں کھولنا، صرف دو ایک باتیں کہنی ہیں۔ مسلم سماج کی ان کیفیات کی گہرائی میں اترتے چلے جائیں۔ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے، وہ ہے بے بسی کا شدید اور گہرا احساس۔ یہ بے بسی دو طرح کی ہے۔ اس کی پہلی قسم کا تعلق عالمی نظام سے ہے جس میں مغربی سامراج اپنے مفاد کی خاطر سچائی، انصاف اور اعتدال ، ہر اچھی قدر کو روندتا چلا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو داخلی ہے۔ داخلی سطح پر طاقت ور طبقات کے وسائل کے بیشتر حصے پر قابض ہو جانے کی وجہ سے مایوسی پیدا ہوئی جس کے اثرات اتنی گہرائی میں جا پہنچے ہیں جہاں سے مرض مزمن اور موذی ہو جاتا ہے۔ مجھے کوئی فیصلہ سناتے کا اختیار تو حاصل نہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں جیسے کو تیسا والی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے پھر وہی ہوتا ہے جو ہمارے معاشروں میں ہو رہا ہے۔ نہ کوئی زبان کی لاج رکھتا ہے اور نہ انسان کو اپنی سماجی اور قانونی ذمے داریوں کی پروا رہتی ہے۔ ایسی آپا دھاپی میں انسان کو انسان سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ لوگ ایک دوسرے کو کیڑا مکوڑا سمجھتے ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کی زندگی کی جتنی ضمانت دی جاسکتی ہے، اتنی ضمانت آج کے انسان کو بھی حاصل ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ سب عارضے ایک دم ہماری جان کے درپے کیوں ہو گئے ہیں؟ بات سامنے کی ہے لیکن ذرا تلخ ہے۔ اسے چاہے سازش سمجھ لیں چاہے عالمی نظام کی حشر سامانی، اس نظام نے خالق کائنات یعنی خدا کو علمی، معاشی اور سماجی وجود کی تشکیل میں رکاوٹ سمجھ کر خارج کر دیا ہے لہذا اب اس ہستی کو تسلیم کرنے اور نہ کرنے والے ایک سطح پر جا پہنچے ہیں۔ جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ تو مانتے ہی نہیں اور جو مانتے ہیں، ان کا ماننا قسم کھانے والے اس نوجوان جیسا ہے جو ایسا کرتے ہوئے اپنے انگوٹھے اور انگشت شہادت کی چٹکی سی بنا کر اسے اپنے حلق پر رکھ لیتا ہے۔ یہ قسم جس طرح اس کے دل و جان کا حصہ نہیں بنتی بالکل اسی طرح خدا پر ایمان کا معاملہ ہے۔ مذہبی طبقہ ہو یا نام نہاد جدید طبقہ، اس معاملے میں دونوں الحمدللہ ایک ہی سطح پر کھڑے ہیں۔ ایسی کیفیات میں ان اعلی اقدار کا سوچا بھی کس طرح جا سکتا ہے جن کے فقدان کا ہم رونا روتے ہیں۔

اب اگر ہم اس افسوس ناک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں تو پھر وہ بات بھی کر لیں جو اس کانفرنس کا موضوع ہے۔ تو بات یہ ہے کہ خوش قسمتی سے پاکستان اور ترکیہ ہی اس کرۂ ارض پر دو ایسے ملک ہیں جنھیں بہت ساری وجوہات ایک جیسا بناتی ہیں۔ یہ ان ہی وجوہات کا فیض ہے کہ وہ نظریاتی، سماجی اور سیاسی سطح پر کم و بیش ایک ہی جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں ادب اور ثقافتی اشتراک کیا کسی مثبت تبدیلی کی راہ ہموار کر سکتا ہے؟ مایوسی کی دبیز چادر کے ایک طرف کھڑے ہو کر تو مایوسی ہی پھیلائی جاسکتی ہے لیکن جب سے میں نے معروف ڈرامہ سیریل ارتغرل غازی کو دیکھا ہے، امید کی ایک ہلکی سی کرن پھوٹی ہے۔ زمانہ بیتا، کچھ اسی قسم کا کام نسیم حجازی اور سلیم احمد مرحوم نے بھی کیا تھا۔ یہ ڈرامے ممکن ہے کہ کچھ تبدیلی لاتے لیکن آمریت کی اندھیری رات اور بالی ووڈ کی یلغار انھیں بہا کر لے گئی۔ اب ارتغرل غازی نے امید جگائی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے نوجوان کچھ جانے بوجھے بغیر اپنی وابستگی کائی قبیلے کے ساتھ جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ وابستگی کے اس جذبے کا پیغام ایک ہی ہے یعنی اپنی جڑوں سے وابستگی کی شدید خواہش۔ اس سے پہلے کہ اس جذبے کو ماضی کی طرح کوئی اور سیلاب بہا کے جائے ہمیں اس خواہش کو شعور کی سطح پر پختہ کر لینا چاہیے۔ یہ کام ادبی اور ثقافتی سطح پر ہی ہو سکتا ہے۔ اس ذیل میں جو کچھ کرنا چاہیے ، ان کاموں کی ایک فہرست بھی میرے ذہن میں ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کے لیے کچھ دنوں کے بعداسی طرح کی ایک اور محفل سجا لی جائے۔

( یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ ]ترک کلچرل سنٹر[، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور استنبول یونیورسٹی ترکیہ کے زیر اہتمام پاک ترکیے ثقافتی تعاون کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس میں پڑھا گیا)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے