امام الانبیاء‘ سیّد المرسلین خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین ﷺ

بشیر و نذیر‘ حبیب و حلیم‘ رشید و عادل‘ خازن و قاسم


(فوٹو: فائل)

انسان ابتدائے آفرینش سے ہی کسی نہ کسی طور پر ہدایت ربّانی کا محتاج رہا ہے۔ خطا و نسیان کی فطری کم زوری کے پیش نظر اﷲ نے انسانیت کی راہ نمائی کے لیے اپنے انبیاء و رسلؑ مبعوث فرمائے۔


جنہوں نے مختلف اقوام و ملل اور ممالک میں آکر مریضان شرک و ضلالت کو توحید ربّانی کے چشمۂ صافی سے سیراب کرا کر حیات جاودانی سے ہم کنار کرنے کی سعی و جہد کی۔ تاہم ہر نبی و رسول کی دعوت محدود اثرات کی حامل تھی۔


اس پر ستم یہ کہ اکثر لوگوں نے ناصرف اپنے انبیاء کی تکذیب کی بل کہ انہیں ناحق قتل تک کر ڈالا۔ اسی طرح صدیوں کا سفر جاری تھا کہ انبیاء کی تعلیمات مسخ کردی گئیں اور سرزمین عرب بالخصوص شرک و بت پرستی کا گڑھ بن گئی' اور اﷲ کے بندے اپنے معبود حقیقی کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ اصنام کی پوجا پاٹ میں مصروف ہوگئے اور بیت اﷲ جسے سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ اور ان کے عظیم فرزند سیّدنا اسمٰعیل ذبیح اﷲ علیہم السلام نے خالص اﷲ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا 360 معبودان باطلہ کی آماج گاہ بن چکا تھا۔


ہر طرف کفر و شرک کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ کہیں ستاروں کی پُوجا ہو رہی تھی تو کہیں آتش پرستی سے قلوب و اذہان بھسم کیے جارہے تھے۔ گویا انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی کہ اﷲ کی رحمت کو جوش آیا اور مکہ مکرمہ کی اسی سرزمین سے کہ جہاں اﷲ کا گھر اس کے خلیلؑ نے تعمیر کیا تھا اور دعا کی تھی، مفہوم:


''اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔ بے شک! تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔''


اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بشارت دی۔ مفہوم:


''اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میری قوم بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی بھی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوش خبری سنانے والا ہوں' جن کا نام احمد ہے۔''


اسی طرح دیگر انبیائے کرامؑ نے بھی بشارتیں دی تھیں کہ ایک رسول رحمت آنے والے ہیں تو وہ ابر رحمت قریش کے سردار عبدالمطلب کے گھر ہویدا ہُوا اور نبی مکرم ﷺ کی پیدائش پر رب کائنات نے یہ معجزہ دکھایا کہ نور کی تجلّیات و عرفان سے شام کے محلات روشن ہوگئے اور بیت اﷲ میں رکھے گئے بُت سرنگوں ہوگئے اور آتش کدۂ ایران جو صدیوں سے روشن چلا آ رہا تھا بجھ گیا اور پوری کائنات ارضی کو یہ پیغام ربّانی دیا گیا کہ اب وہ ہستی کائنات میں تشریف لاچکی جو ہر قسم کے شرک و ضلالت کو اپنے پائے استحقار تلے روندنے والی ہے۔


عبدالمطلب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ وہ اپنے حسین و جمیل پوتے کو گود میں لیے بیت اﷲ میں آئے اور ولادت کا اعلان عام کیا۔ لوگوں نے جب پوچھا کہ بچے کا نام کیا رکھا ہے تو عبدالمطلب نے برجستہ کہا محمّد (ﷺ)۔ سب لوگ حیران ہوگئے کہ یہ نام عرب میں مانوس نہیں تھا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ اس نام کے معنی بہت زیادہ تعریف کیے گئے ہیں۔ یہ نام اﷲ ہی نے رکھوایا کہ تاقیامت جب تک اﷲ کا نام بلند ہوگا تو اس کے محبوبؐ کا نام بھی بلند ہوتا رہے گا۔


رب العالمین کے ارشاد کا مفہوم ہے: ( اے نبی! ﷺ) ''ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔'' نبی مکرمؐ کی پیدائش کی بشارت عالم ارواح میں تمام انبیائؑ سے عہد لینے کی صورت میں بھی واضح کردی گئی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں مالک کائنات کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اﷲ تعالیٰ نے (عالم ارواح میں) نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائیں (یعنی تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے) تو تمہیں ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا ضروری ہے۔


کیا تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا: ہاں ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا! تو اب تم گواہ رہو اور خود میں تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ پس اس کے بعد جو بھی پلٹ جائیں وہ یقیناً پورے نافرمان ہیں۔'' یعنی سیدنا آدمؑ سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک تمام نبیوں سے روز اول ہی اﷲ تعالیٰ نے یہ قول و قرار اور وعدہ لے لیا تھا کہ اگر میں اپنے محبوب محمد رسول اﷲ ﷺ کو تمہارے زمانے میں بھیجوں تو تم پر فرض ہوگا کہ تم ان پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرو، اگر تم اس کا اقرار کرتے ہو تو تمہیں نبی اور رسول بنا کر بھیجیں گے اور کتاب و حکمت بھی عطا کریں گے' تو تمام انبیاء و رسلؑ نے اس کا اقرار کیا اور جب وہ انبیاء دنیا میں مبعوث ہوئے تو انہوں نے اپنی امّتوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ اگر تم محمد ﷺ کا زمانہ پاؤ تو ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا۔ گویا تمام انبیائؑ نے رسالت محمدیؐ کا اقرار کیا اور ان کا امّتی ہونے کی خواہش ظاہر کی۔


نبی کریم ﷺ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہیں۔ یہی نہیں بل کہ آپؐ کے اندر اﷲ تعالیٰ نے تمام اوصاف حمیدہ اتمام و اکمال کے ساتھ پیدا فرما دیے۔ آپؐ محمّد ہیں' محمود' احمد ' بشیر و نذیر' حبیب و حلیم' رشید و عادل' خازن و قاسم' سیّد الخلق' امام الانبیاء' سیّد المرسلین' رحمۃ اللعالمین ﷺ بھی ہیں۔ آپؐ صادق و مصدوق اور امین بھی ہیں۔ طیّب و طاہر' حامی و حاشر و عاقب ' مدثر و مزمل بھی ہیں۔ آپؐ کی عظمت و رفعت پوری کائنات میں افضل و اعلیٰ ہے۔ چوں کہ آپؐ خاتم النبیین بن کر آئے لہٰذا آپؐ کی ذات بابرکات میں جمیع اوصاف و کمال مجتمع کر دیے گئے تھے۔ تمام انبیاء و رسلؑ میں جو اوصاف و کمالات موجود تھے وہ سب کے سب آپ ﷺ کی ذات والا صفات میں اکمل و اجمل پیدا فرما دیے گئے۔


امام کائناتؐ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو کسی بدترین دشمن کو بھی آپؐ کی سیرت مبارکہ میں زندگی کے کسی بھی موڑ پر کہیں بھی انگشت نمائی کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ آپؐ صدق و صفا کے پیکر' علم و تواضع کے خُوگر' نرم گفتار' ملن سار' خلیق' باحیا اور مصائب و آلام پر صبر کا کوہ گراں ثابت ہوئے۔ کفار مکہ نے ہر طریقے سے آپؐ کو آپ کے مشن سے باز رکھنے کے جتن کرلیے مگر آپؐ کے پائے استقامت میں ذرّہ برابر بھی جنبش نہیں آئی بل کہ آپؐ نے اپنے چچا سے فرمایا کہ اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے باز آنے والا نہیں۔ آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں نے ہر طرح کی مصیبتیں جھیلیں مگر اُف تک نہ کی، یہاں تک کہ آپؐ کو مدینہ منورہ ہجرت کا حکم ہُوا اور اﷲ کا کلمہ بلند ہوکر رہا اور رحمت کائنات ؐ نے انسانی تاریخ کی سب سے مثالی ریاست قائم کرکے دکھا دی جو رہتی دنیا تک کے لیے منارۂ نور ہے۔


غلاموں' یتیموں' بیواؤں اور مسکینوں' مہمانوں حتیٰ کہ جان کے دشمنوں کے ساتھ بھی صلۂ رحمی' عفو و درگزر اور رواداری جیسے اوصاف حمیدہ کے ذریعے برتاؤ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں بل کہ ایسا حسن سلوک وہی کر سکتا ہے جس میں اﷲ نے صبر و استقامت اور رحمت و شفقت کوٹ کوٹ کر بھردی ہو۔


رحمۃ اللعالمین ﷺ نے جہاں کائنات میں توحید ربانی کا علَم بلند کیا اور بیت اﷲ کو معبودان باطلہ سے پاک کرکے قیامت تک کے لیے خالص اﷲ کی عبادت کے لیے مخصوص کردیا۔ وہیں اپنی سیرت مبارکہ کے ایسے مقدس و پاکیزہ گہرہائے نقوش چھوڑے جو پوری انسانیت کے لیے منبعٔ رشد و ہدایت اور دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کے ضامن ہیں۔ ماہ ربیع الاول کی ان ساعتوں میں ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ اپنی پوری زندگی کو خالص قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں گے اور اپنے اخلاق و کردار' عقائد و اعمال کی درستی کا اہتمام کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریۂ حیات پر عمل پیرا رہ کر دنیا و آخرت کی کام یابیوں اور کام رانیوں سے ہم کنار ہونے کی بھرپور سعی و جہد کریں گے۔


اﷲ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے