معاشی غلام انڈیا برائے فروخت (پہلاحصہ)

خالد گورایا  جمعـء 18 جولائی 2014
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

انڈیا کی آبادی 2012 میں ایک ارب 23 کروڑ67 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔

کتاب International Debt Statistics 2014 by World Bank Washington D.C کے صفحے 28 کے مطابق انڈیا پر 2012 میں 3 کھرب 79 ارب 9 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کا قرضہ تھا۔ انڈیا کا ہر شہری 3 سو 6 اعشاریہ 5 سو 40 ڈالر (306.540) کا مقروض تھا۔ کتاب Year Book International Trade Statistics 1954 By UN New York 1955 کے صفحے 264 پر درج ہے۔ انڈیا کی کرنسی 1930 میں 1.618 (ایک اعشاریہ 6 سو 18 روپے) کا ایک ڈالر تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے شروع 1939 میں 3.115 روپے کا ایک ڈالر، اور 1948 میں 3.308 روپے کا ایک ڈالر ہوچکا تھا۔ امریکا نے ستمبر 1949 ’’عالمی مالیاتی اجارہ داری‘‘ کو ثابت کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے تمام ممالک کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کردی تھی۔ انڈین 3.308 روپے کی قیمت میں کمی کرکے 4.762 روپے فی ڈالر کردی گئی۔ روپے کی قیمت میں کمی 44 فیصد ہوجانے کا منفی اثر یعنی سڈمڈ Currency Devaluation Minus Economic Development کی وجہ سے تجارت 1949 میں امپورٹ 6174.0 ملین روپے اور ایکسپورٹ 4854.0 ملین روپے تھی۔ خسارہ 1320.00 ملین روپے ہوا تھا۔

مالی سال 1950 میں انڈین ایکسپورٹرز نے بیرونی منڈی مقابلے میں کم سے کم ڈالر ریٹ پر زیادہ سے زیادہ اشیا فروخت کیں اور 1950 میں ایکسپورٹر 6068.0 ملین روپے، اور امپورٹ 5812.0 ملین روپے ہونے سے سرپلس ٹریڈ 256.0 ملین روپے حاصل کرلی، اور حاصل ہونے والے ڈالروں پر اپنے ملک میں ایک ڈالر پر انڈین 1.454 روپے نفع حاصل کیا۔ اس کے نتیجے میں 1951 میں انڈین امپورٹرز نے باہر سے جو اشیا خریدیں ان پر 44 فیصد ملکی کرنسی انڈین روپے زیادہ ادا کرنے پڑے۔ انڈیا میں صنعتی کلچر کی لاگتیں بڑھنے سے صنعتی کلچر منفی ہونا شروع ہوگیا۔ مالی سال 1951 میں امپورٹ 8750.0 ملین روپے، اور ایکسپورٹ 7156.0 ملین روپے ہوگئی اور تجارتی خسارہ 1594.0 ملین روپے ہوگیا۔ اس کے بعد مسلسل انڈین معیشت میں سامراجی مداخلت بڑھتی گئی اور انڈین تجارت، بجٹ، پرائیویٹ ادارے خسارے کا شکار ہوتے گئے۔

1948 میں انڈیا کے 3.308 روپے کا ڈالر تھا۔ 2012 میں 53.5150 روپے کا ڈالر ہوگیا۔ اس طرح انڈین معیشت پر سامراجی غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس 1518 فیصد ہوچکا تھا اور انڈین عوام کا معیار زندگی یورپی و امریکی عوام سے 1518 فیصد نیچے آچکا تھا۔ انڈین معیشت غیر ملکی سامراجی مداخلت سے مسلسل ’’غیر یقینیت‘‘ کا شکار ہوتی گئی ہے۔ انڈیا کی قیادت 1947 سے آج تک سامراجی گود میں بیٹھی ہوئی ہے۔ سرمایہ کار اپنے نفع کی خاطر انڈین عوام کو غربت کی چکی میں پیس رہے ہیں۔

کتاب International Debt Statistics 2014 by World Bank Washington پر درج ہے (1)۔2012 میں سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے انڈیا سے باہر اپنے ملکوں کو 16389.0 ملین ڈالر کا نفع بھیجا۔ (2)۔سامراجی ملکوں نے انڈیا سے تجارت میں 156906.0 (1 کھرب 56 ارب 90 کروڑ 60 لاکھ ڈالر) ملین ڈالر کا نفع حاصل کیا۔ (3)۔ سامراجی قرض کا سود و اصل زر عوام سے وصول کرکے 30854.592 ملین ڈالر سامراجی ملکوں کو ادا کیا گیا۔ ان تین مدوں کا ٹوٹل 2 کھرب4 ارب 14 کروڑ 95 لاکھ 92 ہزار ڈالر ہوتا (204149.592ملین ڈالر) ہے۔

ان ڈالروں کو انڈین روپے میں تبدیل کرنے سے یہ رقم 109 کھرب 25 ارب 6 کروڑ 54 لاکھ ایک سو 58 روپے (1 Dollar = Rs. 53.5150) بنتی ہے اور انڈیا کا ریونیو 84 کھرب 92 ارب 32 کروڑ روپے تھا (8792320.0ملین روپے) اس طرح عوام نے انڈین حکومت کو 87 کھرب 92 ارب 32 کروڑ روپے In-Direct اور Direct ٹیکس کے لیے ادا کیے اور سامراجی ملکوں سے اشیا کی خریداری سامراجی ملٹی نیشنل پروڈکٹس کے استعمال کرنے کا نفع اور سامراجی قرضوں کی سود و اصل زر کی ادائیگی کے لیے ٹوٹل 10925065.4 ملین روپے ادا کیے تھے۔

انڈیا کی نام نہاد ٹرائیکی (سرمایہ کار+بڑے زمیندار+اعلیٰ بیوروکریٹس)جمہوریت کے حکمرانوں نے عوام کی قوت خرید سے ریونیو کی مد میں 24 فیصد رقوم حاصل کیں اور انڈین حکومتی وصول کردہ ریونیو کے متوازی غیر اعلانیہ سامراجی معاشی غلام انڈیا کے عوام سے سامراجیوں نے 76 فیصد رقوم 3.16 گنا زیادہ وصول کیں۔ انڈین ماہرین معیشت کو اندازہ ہوگا کہ سرمائے کا زیادہ بہاؤ جس سمت ہوتا ہے وہ سمت حاکم یا مالک ہوجاتی ہے۔ انڈیا دنیا کی آبادی میں دوسرے نمبر پر ہے اور امریکی ڈالر، یورپی یورو، برطانوی پونڈ، جاپانی ین، آسٹریلین ڈالر، سوئٹزرلینڈ کا فرانک، کینیڈین ڈالر، چینی یوآن، رشین روبل، کورین (جنوبی) وان، ان تمام کرنسیوں میں پوری دنیا تجارت اور لین دین کر رہی ہے۔

انڈیا، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، بھوٹان، افغانستان، ایران وغیرہ ملکوں کی کرنسیاں ’’اچھوت‘‘ کرنسیاں ہیں۔ اتنی بڑی آبادی، ایٹمی قوت ہوکر سامراجی امریکا جس کی آبادی 2012 میں 31 کروڑ 39 لاکھ تھی، جو انڈیا سے 12 ہزار دور فاصلے پر ہے۔ یہ تمام امریکا کے سامنے سرنگوں ہیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے۔ کتنی شرمناک حقیقت ہے یہ کتنی بڑی جمہوریت ہے کہ اب تک انڈیا امریکی سامراجی معاشی غلامی میں جکڑا ہوا ہے۔ برطانوی و امریکی طرز جمہوریت میں سیاسی گھوڑوں پر سرمایہ کار سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ان سے سرمایہ کار مزید نفع کے لیے ان کو استعمال کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔