(پاکستان ایک نظر میں) - پہلے سونامی آئے گا یا انقلاب؟

محمد سعید گھمن  جمعرات 7 اگست 2014
ایک بات تو واضح ہے کہ سونامی آئے یا انقلاب ، عام غریب آدمی کو اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ڈرنا تو اس کو چاہیے جس کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ فوٹو: ایکسپریس

ایک بات تو واضح ہے کہ سونامی آئے یا انقلاب ، عام غریب آدمی کو اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ڈرنا تو اس کو چاہیے جس کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ فوٹو: ایکسپریس

دنیا شاید انقلاب اور سونامی سے واقف ہو نہ ہو ، مگرگزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا ان الفاظ کو اپنے سیاستدانوں اور میڈیا کے لوگوں سے سن سن کر ایسے ہی کے تنگ آچکا ہیں، جیسے دکاندار گاہک سے اور سواریاں بس کنڈکٹرسے ۔رمضان ہو یا عید، گرمی ہو یا سردی پاکستان کی سیاست ان دو الفاظ کے گرد ہی گھوم رہی ہے ۔آخر یہ انقلاب اور سونامی کے نام سن لو گوں چونک کیوں جا تے ہیں۔ وہ کون سی وجہ ہے جسے سن کر ہمارے حکمران پریشان ہو جاتے ہیں اور ان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔

میرے خیال تو وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سونامی جب بھی آتی ہے تو ہر طرف تباہی لیکر آتی ہے ۔ بڑوں بڑوں کے محلات اور جائیدادیں بہا لے جا تی ہے اور پھر قوموں کو اس سے سنبھلنے میں وقت لگتا ہے اور اس تباہی میں اپنے اور غیر کی تمیز نہیں ہوتی ۔ تو پھر خان صاحب کی دہانت کے بارے میں آپ کو داد دینی ہوگی جنہوں نے اسی لفظ کا انتخاب کیا ۔ اسی لئے وقتاً فوقتاً خان صاحب اسی لفظ کا سہارا لے کر اور ڈرا دھمکا کرکوئی سیاسی مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔ اب یہ سونامی اسلام آباد میں میں 14 اگست کو آرہی ہے اور اللہ کرے ملک کے اندر جو اقربا پروری،کرپشن اور بے راہ روی کا گند پڑا ہوا ہے وہ بہا کر لے جائے اور اس ملک پاکستان کو پاک و صاف کر دے۔

جہاں تک تعلق لفظ انقلاب کا ہے جو ہر وقت طاہر القادری کی زبان پر پا لتو طوطے کی طرح پک گیا ہے ۔اب تو ان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہر وقت چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جا گتے وہ انقلاب کا ہی خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جن ملکوں میں انقلاب آیا وہاں پر قربانیاں دی گئیں ،اور خون کی ندیاں بہیں۔ اب یہ واضح نہیں اس صورتحال میں کون کون مرے گا اور کون کون بچے گا۔ خون بہے گا تو کس کا اور قربانی طاہر القادری صاحب اپنی دیں  گے یا کسی اور کی۔ کیونکہ ان کا انقلاب بھی اسی اگست کے مہینے میں آرہا ہے۔آپ نے اس حکومت کی عمر بھی بتا دی لگتا تو ایسے ہے جیسے آپ کو کوئی خواب آیا ہو۔

اب بات جو پریشانی کی ہے وہ تو یہ ہے کہ سونامی اور انقلاب دونوں اکٹھے آرہے ہیں۔ اور وہ بھی اسی اگست کے مہینے میں۔مقابلہ دونوں کے درمیان سخت ہے ۔ کون پہلے آئے گا اور کون بعد میں۔ کون جیتے گا ؟ اور کون ہارے گا؟ دونوں کے مقاصداور منشور مختلف ہیں کیونکہ اانقلاب والے سارے نظام کو کرپٹ سمجھتے ہیں اور سونامی والوں کا مقصد صرف الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار بنانا اورشفاف الیکشن کا انقعاد کروانا ہے۔ اس صورتحال میں اگر سونامی پہلے آتی ہے تو کیا انقلاب پھر بھی آئے گا ؟ اور اگر انقلاب پہلے آتا ہے تو کیا سونامی آئے گی  یا نہیں؟

یہ بات تو واضح ہے کہ سونامی آئے یا انقلاب ، عام غریب آدمی کو اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ڈرنا تو اس کو چاہیے جس کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔لیکن اگر اس سونامی یا انقلاب سے اگر جہوریت کا پہیہ رکا تو اس ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہچے گا۔لٰہذا خان صاحب اور قادی صاحب کو جو بھی سیاست کرنی ہیں کریں مگر ملک کے مفادات کو ذہن میں رکھ کر کریں۔ اس لئے کہ ہمارا ملک اس وقت اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے اور اس مرحلے پر اگر کوئی غلط قدم اٹھایا گیا تو اس ملک اور قوم کے لئے ا چھا نہیں ہوگا۔بس یہی گذارش ہے کہ سارے سیاستدانون کو اس اہم مرحلے پرسمجھ داری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔