کارونجھر پر برسات ہوتی ہے!

سید نور اظہر جعفری  منگل 19 اگست 2014

یہ کائنات خدا نے اتنی خوبصورت تعمیر فرمائی ہے لفظ ’’کن‘‘ سے کہ اسے دیکھتے دیکھتے اچانک آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ میں ان آنسوؤں کو کوئی نام دینے سے قاصر ہوں۔ شاید یہ میری بے چارگی کے آنسو ہیں کہ خدائے واحد لاشریک کی صرف یہ دنیا ہی اتنی وسیع و عریض ہے اور حسین ہے کہ میں اس کے ایک معمولی حصے تک کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہوں۔ اور اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا کہ ساری دنیا دیکھ سکوں۔ یا پھر یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ میری آنکھ کے آنسو اس محبت کا مظہر ہوں جو مظاہر قدرت کے توسط سے خالق تک وسیلہ بن جاتی ہے چاہے وہ اس محبت کا ایک ارب واں حصہ ہو جو مالک کو بندے سے ہے۔

کارونجھر پر برسات ہوتی ہے تو میں تو وہاں نہیں ہونگا مگر میرے دل و دماغ وہاں ہوتے ہیں اور ماحول کی اس خوشگواری کو جو سیکڑوں میل پرے ہوتی ہے میرے احساس کے ذریعے مجھ تک پہنچاتے ہیں ’’میرا دل چاہتا ہے‘‘ یا ’’میرا جی چاہتا ہے‘‘ یہ ’’دل‘‘ اور ’’جی‘‘ کیا ہیں۔ جو ناجانے فاصلوں کی پرواہ کرتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ آنکھ کیا ہے؟ یہ کون سا کیمرہ ہے جو ایک منظر کو دیکھتا ہے جس میں خود میں موجود نہیں ہوں۔ میرا تعلق بھی نہیں ہے اس منظر سے مگر میری آنکھ اس منظر کو میرے ’’دل‘‘ تک پہنچا دیتی ہے اور دل آنسوؤں کے اس سمندر میں سے جو مجھ میں چھپا ہے۔

اندر ہی اندر ہلکورے لیتا رہتا ہے۔ کچھ قطرے اس منظر کی نذر کردیتا ہے آخر کیوں میں اپنے آپ کو سمجھ نہیں پا رہا۔ میں اپنے آپ سے تنگ آگیا ہوں۔زندگی بھر ایک ریس میں حصہ لیا۔ یہ چاہیے، وہ چاہیے، یہ بھی میرا ہے، وہ بھی میرا ہے۔ ’’میرا، میری، ہمارا، ہماری‘‘ بس یہی تھا وہ؟ جس کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے رہے۔ ایک دوسرے کو ’’ذلیل‘‘ کرتے رہے۔ ’’بڑا، چھوٹا، غریب، امیر‘‘ میں تقسیم ہوتے رہے۔ یار! دل تو ہر سینے میں ایک جیسا ہے۔ خون بھی ایک جیسا ہے رنگ میں! پھر کیا ہے یہ؟ کیوں ہے یہ تفریق؟انسان ایک ’’ٹائم مشین‘‘ ہے۔ اس کے خالق کی تعریف کیا کریں۔ زبان اور قلم دونوں عاجز ہیں۔

اس کا ایک مقررہ”Process” ہے۔ اس “Process” سے بغاوت ’’ابلیسیت‘‘ ہے۔ اس نے ایک بار انکار کیا تھا ’’نہیں مانوں گا‘‘ ہم روز انکار کرتے ہیں۔ ہر روز کئی بار انکار کرتے ہیں۔کیوں وہ ناراض نہیں ہوتا فوراً۔ یہ وجہ ہے ان سجدوں کی جو کسی نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ راتوں میں کیے تھے۔ طویل سجدے، وعدہ لیا تھا خالق سے ’’بخش دوں گا‘‘ مگر مجھے کیا پرواہ اس کی، میں کیوں اپنے روز مرہ کو تبدیل کروں؟ میں تو ’’امت‘‘ ہوں ناں۔ مجھے کیا پرواہ۔ جس کی امت ہوں وہ خود جانے۔ میں تو جہان میں اپنی مرضی سے رہوں گا ۔ جو جی چاہے کروں گا ۔ جو دل کہے گا مانوں گا۔

میرا دل کہے گا قتل کردو، سب کو قتل کردوں گا۔ دل کہے گا سب کچھ چھین لو، چھین لوں گا۔ میں۔۔۔۔میں ہوں اور ’’میں‘‘ ہونا معمولی بات نہیں ہے۔ ماں باپ کا کیا احسان ہے ۔ ان کا کام تھا پرورش کرنا میری ۔ میرا کام تھوڑی ہے دیکھ بھال کرنا ان کی۔ خدا کرے گا ۔ اس نے پیدا کیا ہے نا سب کو ۔مناظر قدرت اور مظاہر قدرت میں یہ زہر کہاں سے آگیا؟ دماغ سے ۔ بشر ہیں ناں ہم ۔ یعنی ’’شر‘‘ کے ساتھ ہیں ۔ خدا نے پیدا کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ اس ’’شر‘‘ کو قابو کرکے تم میں جو ’’خیر‘‘ ہے اسے ’’آزاد‘‘ کردو ۔ بس اتنا سا کام کرلو اور واپس آجاؤ ۔ بچو۔۔۔۔ تمہارے لیے بہت انعام ہے میرے پاس۔

یاد آیا حضرت علی ؓ نے فرمایا ’’میں اللہ کی عبادت اس لیے نہیں کرتا کہ مجھے کوئی لالچ اس پر مجبور کرتا ہے بلکہ میں اللہ کی عبادت اس لیے کرتا ہوں کہ وہ لائق عبادت ہے۔‘‘ یہ یاد آگیا تھا تو عرض کردیا۔ لائق عبادت کی تشریح بھی ان کے علاوہ شاید کوئی نہ کرسکے ۔اس دنیا کو اب میں ساکت آنکھوں سے دیکھتا ہوں ۔ اب مجھے سارے دھوکے، سب ریاکاریاں صاف نظر آرہی ہیں اپنی بھی اور دوسروں کی بھی۔ مگر وہ وقت کی لہروں پر آگے جاچکے واقعات پلٹ نہیں سکتے کیونکہ دریاؤں کا پانی پلٹ کر اپنے ’’آغاز‘‘ کی طرف نہیں جاتا اسے تو سمندر میں جاکر ’’فنا‘‘ ہونا ہوتا ہے۔

ایک سمندر میرا بھی انتظار کر رہا ہے۔ جس کا میں ابھی دریا ہوں ۔میرا لباس، میرا علم، میری دولت، میرا غرور ۔ سب خاک میں ملنے والا ہے ۔ ہر چیز کو خاک کا رزق ہی ہونا ہے۔ ایک عمر کے بعد انسان زندہ تو ہوتا ہے مگر دنیا میں اس طرح ہوتا ہے جیسے مریض اسپتال میں ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر ۔ ہر ایک ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر جائے گا ۔ سب کچھ دیکھ کر جانا پڑے گا ۔ایک بوڑھوں کے اسپتال یا نگہداشت کے مرکز میں آخری دموں پر جو ماں تھی اس نے بیٹے سے آخری خواہش یہی کی تھی کہ اس اسپتال میں پنکھے لگوا دو۔ جب بیٹے نے کہا کہ اب آپ کہہ رہی ہیں جب جانے والے حال میں ہیں؟

تو ماں نے کہا ہاں بیٹا! میں نے ان حالات میں “Adjust” کرلیا، مگر میں ماں ہوں جانتی ہوں کہ جب تمہارا بیٹا تمہیں یہاں داخل کرے گا تو تم “Adjust” نہیں کرسکوگے۔معذرت چاہتا ہوں ۔ میں بھی آپ کو کہاں لے آیا ۔ اپنی قوم کے لیڈروں کی طرح۔ ہم تو بارش اور کارونجھر کی بات کر رہے تھے ۔ مگر کارونجھر جیسا ایک خوبصورت پہاڑ ۔ جس طرح صحرائے تھر میں کہیں بیچ میں ہے ایسا ہی ایک ’’کارونجھر‘‘ ہر انسان کی ذات کے صحرا میں بھی تو ہے۔

ہم صحرائے تھر کا سفر ’’کارونجھر‘‘ کے لیے کرتے ہیں۔ تو اپنی ذات کا سفر۔ اس ’’کارونجھر‘‘ کے لیے کیوں نہیں کرسکتے جس میں اخلاص کے پھول پیار محبت کی رنگا رنگی، عدل انصاف اور یگانگت کی سرمستی ہے۔ جس میں انسانیت کے پرندے میٹھی آوازوں میں سرگوشیاں کرتے اور کبھی کبھی سریلے نغمے چھیڑتے ہیں ۔ جہاں انسان رہتا ہے ۔ وہ انسان جس کی ذات کے صحرا میں یہ ’’کارونجھر‘‘ ہے جہاں ندامت کی بارش ہوتی ہے تو کانٹے بھی نرم پڑ جاتے ہیں۔ جہاں ایک عجیب ’’سجاگ‘‘ ہے دور کہیں روشنی ہے ۔ اے انسان تلاش تیری تلاش یہ ’’کارونجھر‘‘ ہی تو ہے ۔ تو جسے ڈھونڈتا ہے وہ یہیں تو ہے، من میں تو اللہ!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔