بدن بولی سے بلور تک

نصرت جاوید  جمعرات 27 ستمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بھارت اور پھر پاکستان میں جب ٹی وی چینلوں کے ذریعے خبریں اور حالات حاضرہ کے بارے میں ٹاک شوز دکھانے کا آغاز ہوا تو ایک اصطلاح بہت استعمال ہوئی ۔

اسے Body Language کہا جاتا تھا۔ کافی عرصہ تک اس کا اُردو مترادف ڈھونڈنے کی کوشش ہوتی رہی اور بالآخر ’’بدن بولی‘‘ کا رواج ہوا۔ مجھے ٹی وی کے صحافیوں کا ’’بدن بولی‘‘ پر ضرورت سے زیادہ غور کبھی سمجھ میں نہیں آ سکا ۔

اکثر ذہن میں یہ سوال اُٹھتا کہ جب کسی ملک کے صدر، وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کو کیمرے کے ذریعے لوگوں کو دکھایا جا رہا ہے تو ’’بدن بولی‘‘ کی ضرورت سے زیادہ تشریح و تعبیر کی کیا ضرورت ہے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھے مفکر خود کو ’’قیامت کی خبر‘‘ دیکھ سکنے والی آنکھ کا مالک سمجھتے ہیں؟ انھیں یہ گمان ہے کہ وہ کسی شخص کی کیمرے کے ذریعے دکھائی جانے والی اُٹھک بیٹھک کو دیکھ کر وہ سب کچھ جان لیتے ہیں جو عامیوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔

’’بدن بولی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے مجھے یہ اعتراف بھی کرنا پڑے گا کہ ایک زمانے میں میں نے باقاعدہ کچھ کتابیں خرید کر اسے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے میرا مقصد خود کو ٹی وی اسکرینوں پر اس ’’علم ‘‘ کا ماہر ثابت کرنا ہرگز نہ تھا۔

متوسط طبقے کے کسی بھی پاکستانی نوجوان کی طرح میں ایک ’’دبو‘‘ قسم کا آدمی تھا۔ رپورٹنگ کرتے ہوئے غیر ملکی سفارتخانوں کی جانب سے منعقدہ محفلوں میں جاتا تو اکثر خاموش اور شرمائے ہوئے رہتا۔

وہاں موجود عورتوں سے بات کرنے کی تو ہمت ہی نہیں ہوتی تھی اور اگر کوئی خاتون سفارت کار از خود بات چیت کے لیے پیش قدمی کرتی تو میرے کان سرخ ہو جاتے۔ زبان میں لکنت آ جاتی اور انگریزی کے ادا کیے فقروں میں تلفظ و گرائمر کی مضحکہ خیز غلطیاں کرتا رہتا۔

پھر میں نے دریافت کیا کہ بہت ساری ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں جو آپ کو محفلوں میں اعتماد کے ساتھ شرکت کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ ان کتابوں کی طفیل آپ کسی بھی محفل میں تھوڑا سا وقت گزارنے کے بعد اچٹتی نظر سے بھانپ سکتے ہیں کہ کونسی خاتون آپ سے گپ شپ لگانے پر آمادہ ہے۔

بس ہمت کر کے اس کے قریب جائیں اور صحیح فقرے کے ساتھ غزل کے لغوی معنی یعنی عورتوں سے بات چیت کا آغاز کر دیجیے۔ ’’بدن بولی‘‘ کے بارے میں لکھی گئی ایسی کتابوں نے جوانی کے دن ذرا بہتر طریقے سے گزارنے میں کافی مدد فراہم کی۔ اب ضرورت نہیں رہی۔ ہر حال میں مست رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔

’’بدن بولی‘‘ کو نظرانداز کیے مدت ہو چلی ہے۔ مگر منگل کی صبح انگریزی کے کچھ اخبارات میں نمایاں طور پر شایع ہونے والی ایک رنگین تصویر دیکھی۔ اس تصویر میں صدر زرداری امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ مذاکرات میں مصروف دکھائے گئے تھے۔

ہمارے صدر کھلے ڈلے انداز میں بیٹھے کافی با اعتماد دِکھ رہے تھے۔ ہلیری کلنٹن نے البتہ اپنا ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ کے اوپر سختی سے جما رکھا تھا۔ چہرے پر کیمرے کے لیے زبردستی لائی تھوڑی سی مسکراہٹ تھی۔

مگر صدر زرداری اور ہلیری کلنٹن کی ’’بدن بولی‘‘ سے کہیں زیادہ میری نظر اے این پی کے راہنما اسفند یار ولی پر اٹک گئی۔ موصوف صدر زرداری کے بائیں ہاتھ کی کرسیوں پر سب سے پہلے بیٹھے ہوئے تھے۔ حنا ربانی کھر صاحبہ کا نمبر دوسرا تھا۔

’’تشریفاتی اصولوں (Protocol)‘‘ کے مطابق یہ بڑی بات تھی۔ اپنے مرتبے کے اس واضح اظہار پر اسفند یار ولی البتہ بڑے نازاں دکھائی نہ دیے۔ کھدرکا شلوار کُرتہ پہنے سر جھکائے بیٹھے ہوئے تھے۔

کچھ ایسا تاثر دے رہے تھے جیسے وہ اس ملاقات اور وہاں ہونے والی بات چیت سے خود کو غیر متعلق رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے مزید غور کیا تو پتہ نہیں کیوں خیال آیا کہ اسفند یار ولی سر جھکائے غالباََ اس خوف سے بیٹھے ہیں کہ کہیں اس ملاقات کے دوران امریکی وزیر خارجہ غلام احمد بلور کے اس بیان کا ذکر نہ چھیڑ دیں۔

جس کے ذریعے انھوں نے گستاخانہ فلم بنانے والے مصر ی نژاد امریکی کو قتل کرنے والے کے لیے بھاری انعام کا اعلان کیا ہے۔ میں ابھی تک نہیں جان پایا کہ اس ملاقات میں بلور صاحب کے اس بیان کا ذکر ہوا یا نہیں۔ اگر ہوا تو کن الفاظ میں ہوا اور صدر زرداری کے بجائے اسفندیار ولی نے اس کا جواب دیا ہو گا تو کن الفاظ میں۔

صدر زرداری اپنے غیر ملکی دوروں میں صحافیوں کو لے کر نہیں جاتے۔ صرف سرکاری ریڈیو، ٹیلی ویژن اور نیوز ایجنسی کا ایک مختصر سا گروپ ان کے دورے کی تصویریں لیتا ہے اور سرکاری اعلامیے لوگوں تک پہنچا دیا کرتا ہے۔

’’اندر کی بات‘‘ باہر نہیں آتی۔ امریکی حکام کا رویہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ انھیں جو بات دنیا تک پہنچانا ہوتی ہے اسے غیر سرکاری صحافیوں کے ذریعے طشت از بام کر دیا جاتاہے۔

اس سارے عمل کا نام Calculated Leaks رکھا گیا ہے۔ اوباما کا وائٹ ہائوس ان Leaks کو سخت ناپسند کرتا ہے مگر امریکی وزارتِ خارجہ ان سے بہت کام لیتی ہے۔ پینٹاگون اور قومی سلامتی سے متعلقہ دوسرے اداروں پر بازی لینے کے لیے کبھی اس حد تک چلی جاتی ہے کہ ان اداروں کو ’’اپنے صحافیوں‘‘ کے ذریعے جوابی کہانیاں لکھوانا پڑتی ہیں۔

ہماری ریاست مگر خوش نصیب ہے۔ اس کے کرتا دھرتا صحافیوں کو ابھی تک اپنے ذاتی منشیوں سے بڑا مقام دینے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ کبھی کبھار البتہ ہمارے قومی سلامتی اداروں کو ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات کے بعد صحافیوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ’’میمو گیٹ‘‘ کا ناٹک رچانے میں بھی میڈیا کا سہارا لیا گیا۔ مگر حسین حقانی اب ہمارے سفیر نہیں رہے۔

ان سے جان چھڑانے کے بعد ’’محب الوطن صحافیوں‘‘ کو بھی تقریباََ بھلا دیا گیا ہے۔ دوبارہ ضرورت پڑی تو ہم میں سے اکثر دل و جان سے خدمت کو تیار ہوں گے۔ بس اشارہ تو ہو، موقع تو ملے ۔

ہلیری کلنٹن نے حاجی غلام احمد بلور کے بیان کا تذکرہ اسفند یار ولی کی موجودگی میں کیا ہے یا نہیں؟

اس سوال کے بارے میں اپنی تمام تر لاعلمی کے باوجود مجھے اپنے ان ’’ترقی پسند اور آزاد خیال‘‘ لکھاریوں پر بہت حیرت ہو رہی ہے جو ہاتھ دھو کر بلور صاحب کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ بڑے غم و غصے سے اصرار کررہے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی تو ’’سیکولرسیاست‘‘ کرنے والوں کی وارث ہے۔ ان کی جماعت کے اتنے اہم رہنما نے قتل کا انعام مقرر کرنے والا بیان کیسے دے دیا؟

غلام احمد بلور کے بیان پر تلملانے والے ’’ترقی پسند اور آزاد خیال‘‘ دانشوروں کو پتہ نہیں کیوں یاد ہی نہیں رہا کہ پشاور کے پوپلزئی مفتی گزشتہ چار برسوں سے جب بھی عید کا چاند مفتی منیب الرحمن سے پہلے دیکھ لیتے ہیں تو سب سے پہلے خیبرپختون خوا کی حکومت کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور آگے بڑھ کر پوپلزئی مفتیوں کی اعلان کردہ عید کو ’’سرکاری‘‘ بنا دیتے ہیں۔

’’سیکولرازم‘‘ کا حقیقی مطلب ریاست کو شہریوں کے دینی عقائد اور مسالک کے مسائل اور جھگڑوں سے قطعیت کے ساتھ غیر جانبداررکھنا ہے۔ بشیر احمد بلور پوپلزئی مفتیوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے ’’ترقی پسند اور آزاد خیال‘‘ دانشور اس معاملے پر تو کوئی شور نہیں مچاتے۔

غلام احمد بلور کے بیان پر زیادہ چراغ پا شاید اس وجہ سے ہو رہے ہیں کہ ان کا اعلان کردہ انعام ایک امریکی شہری کے قتل کے لیے وقف کیا گیا ہے۔

اتفاق سے یہ انعام اسی ملک کے ایک شہری کے قتل کے لیے وقف کیا گیا ہے جو 2001ء سے مسلسل ہمارے ’’ترقی پسند اور آزاد خیال‘‘ دانشوروں میں لاکھوں ڈالر ’’طالبانی پیغام‘‘ کے خلافCounter Narrative ایجاد کرنے اور پھیلانے کے نام پر بانٹ رہا ہے۔

میں نے بارہا اپنی تحریروں کے ذریعے اس بات پر زور دیا ہے کہ Counter Narratives امریکی ڈالروں کی مدد سے ایجاد نہیں کیے جاسکتے۔

جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ رحمن بابا اور غنی خان نے امریکی امداد سے چلنے والی کسی این جی او کے ذریعے Communication Strategy نہیں سیکھی تھی۔ شاہ حسین نے لاہور کی گلیوں میں پیروں میں گھنگرو باندھ کر کٹھ ملائوں کو للکارا تھا۔ وہ سیمیناروں اور ورکشاپوں کی پیداوار نہ تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔