غزہ۔ اسلامی مزاحمت و پیش قدمی (پہلا حصہ)

صابر کربلائی  بدھ 24 ستمبر 2014

زیکیم بحری بیس اسرائیل کی اہم ترین بحری بیس ہے جو سمندر میں تقریباً پندرہ کلو میٹر اندر ہے، جولائی  میں اسرائیل کی طرف سے جب غزہ پر یک طرفہ جنگ مسلط کی گئی تو اسلامی مزاحمت کار تنظیموں حماس، جہاد اسلامی اور القسام نے اسرائیل سے 51 دن تک بھرپور لڑائی میں حصہ لیا، غزہ کے مجاہدہوں کے اس دفاع میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے ریکیم بحری بیس کو بھی نشانہ بنایا۔

حماس کے عسکری ونگ عزالدین قسام برگیڈ کی طرف سے اسرائیلی زیکیم بحری بیس پر کیا جانے والا آپریشن عسکری حوالے سے  نہایت معیاری آپریشن تھا۔ زیکیم نیول بیس غزہ کی پٹی کے قریب شمال کی طرف سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اسرائیلی سیکیورٹی کے نہایت اہم اور خفیہ مشن کے نفاذ کے سلسلے میں اس بحری بیس کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔

یہ بیس مختلف قسم کے جدید جاسوسی آلات کے حامل جہاز، ریڈار اور نگراں اہلکاروں سے لیس ہے اس کے ساتھ پیٹرولنگ کرنے کے لیے اہلکار اور موبائل کے ساتھ یہ وہی بیس ہے جس کی گشت پر مامور موبائل اور کشتیاں سمندری علاقوں میں سیکیورٹی انتظامات سنبھالے ہوئے سمندری علاقوں کی نگرانی پر مامور ہیں بلکہ فلسطین ماہی گیروں کو اس علاقے کے پانی سے بھگانے، ان کی کشتیوں کو ڈبونے اور پھرانھیں گرفتار کر کے ان پرسختی کرنے اور انھیں مچھلی پکڑنے کے حق سے محروم کرنے میں بھی اسی بیس کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ تمام واقعات فائرلائن کے پیچھے دشمن کی سرزمین پرمگرآگ کی بارش میں نفرت کی شدید تپش اورتیاری کی اعلی قابلیت کے ساتھ رونما ہوتے ہیں مگر آپریشن صہیونی دشمن کے لیے نہایت واضح پیغام کا حامل رہا۔

غزہ پر صیہونی حملوں کے دوران فلسطینی اپنے دفاع پر قائم اور ڈٹے رہے اور مختلف وسائل اور ذرایع پرمنحصر نہیں رہے اور دشمن کو شکست دینے کے لیے اور زمین کی بازیابی اور حقوق کے لیے ہر جدید امکانات کو بروئے کار لاتے رہے، حتیٰ کہ اس 51 روزہ جنگ میں اسرائیل کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے میں بھی کامیاب رہے۔

فلسطینی دفاعی جہاد سے صیہونی دشمن کو پہنچنے والے حقیقی نقصانات کا علم اسرائیل کو ہو چکا ہے، اگرچہ اسرائیل کو یہ بات معلوم تھی کہ فلسطینی مزاحمت کی جانب سے داغے جانے والے میزائلوں کے مقابلے میں مادی نقصان بہت کم ہے لیکن اسرائیل شاید ہر گز یہ نہیں جانتا تھا کہ مجاہدین اتنے بڑے پیمانے پر کارروائی انجام دیں گے اور اسرائیل کی بحری بیس کواپنے حملے کا ہدف قرار دیں گے۔

غزہ کے عوام پر مزید مظالم ڈھانے کے لیے اسرائیل نے زمینی آپریشن کا راستہ اختیار کیا اور کوشش کی کہ اسلامی مزاحمت کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے لیکن اس کے برعکس انھوںنے لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا، فلسطینیوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا لیکن وہ ہر طرح سے ناکام رہے، فلسطینیوں کی جد وجہد میں مزید قوت پیدا ہوتی جا رہی تھی جب کہ دوسری طرف اسرائیل کے شہری اب خوف اور پریشانی میں مبتلا تھے اور زیر زمین پناہ گاہوں میں چھپ چکے تھے۔

اسرائیلی انتظامیہ مزاحمت کاروں کے میزائل حملوں کے جواب میں بے بس ہو چکی تھی اور اپنے ہم وطنوں کوزندگی کے معمولات چھوڑنے اور پناہگاہوں کی طرف پناہ لینے کی تلقین کر رہی تھی۔ مجاہدین اپنا مشن نافذ کرنے کے بعد ہر آپریشن کے بعد نہایت تیزی سے چھپ جاتے تھے خاص کر فلسطینی علاقوں سے چھوڑے جانے والے میزائلوں اور ان میزائلوں کی نقل و حرکت پر مامور ذرایع اور چھوڑنے کے لیے تیار کردہ لانچینگ پیڈ کی کھوج لگانے کے لیے اسرائیل کا حساس ترین نگرانی نظام ہونے کے باوجود اسرائیل زمینی آپریشن میں یہ پتہ نہ لگا سکا تھا کہ اسلامی مزاحمت کے مجاہدین کس مقام سے حملہ آور ہو رہے ہیں گویا کہ اسرائیل بوکھلا  چکا تھا۔ دوسری جانب فلسطینیوں کو اسی دوران دشمنوں کو پہنچنے والے جانی نقصانات اور مالی نقصانات کے بارے میں آگاہی ملتی رہتی تھی، جب کہ انھیں معلوم ہے ایک درجن سے زائد فوجی یا ہم وطنوں کی ہلاکت صہیونیوں کے لیے ناقابل برداشت ہے، اسی وجہ سے وہ تیزی کے ساتھ چھوٹے آپریشن پر اکتفا کر رہے تھے۔

فلسطینی اسرائیلیوں کے اگلے پلان کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہتے کیونکہ صیہونی حکام سابقہ جنگوں میں بھی اپنے پلان اور اقدام کے بارے میں کھل کر بات کرتے اورکھل کر اس کی تیاری کیاکرتے تھے اسطرح اپنے ہم وطنوں کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کیاکرتے تھے، مگراسرائیل کے پاس وسیع پیمانے پر جنگی ساز و سامان اور نفری کی موجودگی اور ساتھ ہی سیکڑوں حفاظتی فوجیوں کے باوجود کسی کو زمینی حملے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ غزہ کی پٹی میں زمینی جنگ کرنا آسان نہیں اور اس سرزمین پر آمنے سامنے ہو کر  لڑنا نہایت مختلف ہے۔

غزہ کے مزاحمت کار تو اپنے لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں جن کی حمایت انھیں حاصل ہیں یہاں تک کہ وہ ہرقسم کی تعاون اور امداد سے انھیں نوازتے ہیں اور غزہ کے تمام گلی کوچوں سے باخبر ہیں جب کہ اسرائیلوں کے لیے غزہ ایک نامعلوم جگہ ہے، اسرائیلی غزہ کے بستیوں کو موت کی وادی گردانتے ہیں۔ دشمن اس سے بخوبی آگاہ ہے کیونکہ انھیں یہاں موت کی عفریت نے ہڑپ کر لیا تھا وہ کئی مواقعے پرمزاحمت کاروں کے ہاتھوں موت اور تباہی کی وادی میں دھکیلے جا چکے ہیں، تو انھیں کیونکرجرات ہو کہ شہد کی مکھیوں کے چھتوں میں ہاتھ ڈالیں جس میں کسی کا بچنا محال ہے نہ صرف مرنے اور زخمی ہونے کے حوالے سے بلکہ گرفتار اور اسیر ہونے سے بچ نکلنے کاکوئی امکان نہیں ہے، کیونکہ مزاحمت کاروں کی آنکھیں صرف جارح فوجیوں کے قتل پر مرکوز نہیں بلکہ ان کی گرفتاری اور اسارت کے لیے بھی ان پر جمی ہوئی ہیں تا کہ وہ مزاحمت کاروں کے اسیروں اور گرفتار شدہ افرادکی رہائی کی قیمت کے لیے کام آ سکے۔

اس کے باوجود دشمن صہیونی نظام کے سربراہ نے چالیس ہزار ریزرو فوجیوں کو بھی تیار رہنے کاحکم دیا تھا جب کہ وہ حاضر سروس فوجی تھے اور ہرایک فوجی کو ایک ذمے داری اور خاص مہم ذاتی روایات اوراہتمام کیا گیا تھا، دشمن کے وزیر دفاع اور ان کی فوج کے کمانڈروں کو معلوم ہے کہ غزہ شہرکے نیچے ایک اور غزہ بستا ہے، ضروریات سے لیس وسیع اور جدید ترین سرنگوں والے راستے موجود ہیں جس میں بجلی اور رابطہ برقرار کرنے والے آلات ملانے کے مقامات اور ڈلیوری سینٹرز بھی ہیں اس پٹی کے نیچے شہہ رگوں کی طرح سرنگیں اور زیر زمین راستوں کے جال بچھائے ہوئے ہیں، یہ نہایت گہرائی میں اور نہایت دور تک جاتی ہیں اسی وجہ سے دشمن کی فوج جب بھی کسی مشن کے تحت غزہ میں گھستے ہیں فلسطینیوں کو دشمن کے فوجوں کو نشانہ بنانے، ان کے ٹینکوں کو اڑانے کا زبردست موقع ہاتھ آتا ہے۔

صہیونی نظام کے زعماء کی طرف سے غزہ کی پٹی کے اندر وسیع پیمانے پر زمینی آپریشن کرنے کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں اور نفسیاتی حربہ ہیں، جب کہ ان کے لیے ایسے آپریشن کا نفاذ ممکن نہیں۔ گزشتہ حالات میں مزاحمت کاروں کو دشمن کے فوجیوں کی آمد کا شدت سے انتظار تھا تا کہ انھیں ہزاروں دشمنوں کو نشانہ بنانے کا موقع میسر آ سکے اور دشمن بھی اس سے بخوبی آگاہ ہے اسی لیے وہ میزائل کے استعمال کو اپنے لیے عافیت سمجھتا ہے اس کے بجائے کہ زمینی جنگ میں دم گھٹ جائے اور اس کے فوجی اسیر اور قتل یا زخمی ہو جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔