پاکستان کے عوام اور فتح

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 22 اکتوبر 2014

اسے آمریت، اشرافیہ اور ملائیت سے نفرت تھی مگر وہ ہر اتوار کو ان کے واسطے دعا کر نے پر مجبور تھا اور اسے اپنے مبتدیوں سے بلاچوں و چرا ان کی اطاعت کرنے کی اپیل کرنی پڑتی تھی مگر ایسا کرتے ہوئے ملیئر کو اپنے الفاظ میں ’’سخت نفرت‘‘ ہوتی تھی۔ اس میں اتنی جرأت تھی کہ اس زمانے میں مقدس سمجھنے والی ساری چیزوں سے اس نے اپنے دل میں قطع تعلق کر لیا مگر وہ اتنا بہادر نہ تھا کہ اس کا اظہار کرتا۔

اس نے اپنی ساری زندگی منقسم جذبات کے تھپیڑوں کا سامنا کر تے ہوئے گزاری مگر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی میں جس چیز کا اظہار نہ کر سکا تھا اس کی موت کے بعد اس سے پوری دنیا کو آشنا ہونا چاہیے۔ اس کی موت کے بعد اس کے کاغذات میں سے تین سو چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل ایک مسو دہ ملا جس کا عنوان تھا ’’وصیت نامہ‘‘ اس پہ یہ لکھا ہوا تھا عزیز دوستو! میں اپنی زندگی میں کھلم کھلا وہ کچھ نہ کر سکا جو اخلاقیات، مذہب اور حکمرانی کے اطوار کے بارے میں سوچتا تھا اس لیے کہ اس کے بہت خطرناک اور افسوسناک نتائج نکلنے تھے اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مرنے کے بعد آپ کو بتا دوں میرا مقصد آپ کو ان بے ہودہ واہموں کی اصلیت بتانی ہے جن کے درمیان بدقسمتی سے ہم سب کو پیدا ہونا پڑتا ہے اور زندہ رہنا پڑتا ہے۔ مذہب اور اقتدار دو جیب کترے ہیں جو مل کر لوگوں کو لوٹتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں۔

ملیئر نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں پر ممتا ز ہونے اور زندگی کی تمام اچھی چیزوں سے لطف اندوز ہونے کا واحد مقصد لے کر پیدا ہوئے ہیں جب کہ اس کے برعکس دوسرے غربت زدہ ، دھتکارے ہوئے او ر آلا م زدہ لوگ کمر توڑ مشقت اور تذلیل کے بوجھ تلے اپنی زندگیوں کو سڑانے ، گلانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ایسی نا برابری یقینا غیر منصفانہ ہے سارے لوگ برابر پیدا ہوتے ہیں زندہ رہنے کا ان سب کا برابر کا حق ہے، انھیں آزادی اور زندگی کی اچھی چیزوں کے حقدار ہونے کا حق ہے ۔

ملیئر کے مطابق زندگی کی اچھی چیزوں کی غیر منصفانہ تقسیم ہی فراڈ ، خیانت، ٹھگی، ڈاکہ، قتل اور دیگر جرائم کی ذمے دار ہے۔ اس کے خیا ل میں برائی اس حرکت سے جنم لیتی ہے کہ لوگ زمین کے وسائل اور اس کی نعمتوں کو جائیداد کی حیثیت سے ذاتی ملکیت بنا لیتے ہیں جب کہ یہ ساری نعمتیں سانجھی ہونی چاہیے ۔ وصیت نامے کے کئی حصے استبدادی حکومت کو بے نقاب کرنے کے لیے وقف کیے گئے ہیں وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ظلم لوگوں کی اکثریت کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا دیا ہے۔

ظلم اقتدار اور قوت ہی کی بدولت ممکن ہوتا ہے یہ اقتدار خواہ با دشاہ کا ہو یا نوابوں کا ان لوگوں کو عوام پر لا محدود اختیارات حاصل ہیں۔ ’’وصیت نامہ‘‘ اپنی بے باکی اور تخیل کی گہرائی میں آج تک بے مثال ہے کلیسا والوں اور حکمرانوں نے اس باغی کے مسودے کا نشان تک مٹا ڈالنے کی ہر ممکن کو شش کی۔ ’’وصیت نامے‘‘ کے منصف کے تمام حوالے ختم کر دیے گئے۔ والٹیر نے 1736ء میں اسے پڑھا ’’یہ ایک نہایت ہی نایاب کتاب ہے ایک خزانہ ہے اس کی وسیع پیما نے پر تشہیر کرنی چاہیے‘‘ یہ تھا ’’وصیت نامے‘‘ پر والٹیر کا تبصرہ۔ ’’وصیت نامے‘‘ میں ملیئر نے یہ تخیل پیش کیا کہ ظلم و استحصال کی مختلف صورتوں سے نجات خود عوام کو حاصل کرنا ہے اس معاملے میں کسی اور پر انحصار کیا ہی نہیں جا سکتا۔ کسی اور ایسی طاقت کا وجود نہیں جو انھیں آزادی دلائے۔ اس نے کہا تھا کہ آزادی صرف انقلابی طریقوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

چینی زبان میں ایک لوک کہانی ہے جس کا نام ہے ’’ وہ بیو قوف بوڑھا جس نے پہاڑوں کو ہلا دیا ‘‘ یہ ایک ایسے بوڑھے سے متعلق ہے جو بہت مدت ہوئی شمالی چین میں رہتا تھا اور شمالی پہاڑ کا بیوقوف بوڑھا پکارا جاتا تھا اس کے گھر کا منہ جنوب کی جانب تھا اور اس کے مکان کے قریب تائی ہانگ اور ولینگو نامی دو بڑے پہاڑ تھے جو اس کے گھر کے راستے میں حائل تھے۔ ایک دن وہ مصمم اراد ے کے ساتھ اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں کدالیں دے کر پہاڑوں کو کھودنے اور اپنے راستے سے انھیں ہٹانے کے لیے چل پڑا۔ اس علاقے کے ایک دوسرے آدمی نے جو عقل مند بوڑھے کے نام سے مشہور تھا اسے پہاڑوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر ازراہ تمسخر کہا تم کتنے احمق ہو تم دو چار آدمی اتنے بڑے پہاڑوں کو کس طرح کھود سکو گے ،احمق بوڑھے نے جواب دیا جب میں مر جاؤں گا تو میرے بیٹے یہ کام جاری رکھیں گے۔

جب وہ مر جائیں گے تو میرے پوتے پہاڑوں کو کھودتے رہیں گے اور ان کے بعد ان کے بیٹے اور ان کے پوتے یہ ہی کام کرتے رہیں گے یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہیگا اگر چہ پہاڑ اونچے ہیں مگر یہ مزید اونچے نہیں ہو سکتے انھیں آہستہ آہستہ کھودتے رہنے سے ایک دن انھیں زمین کی سطح کے ساتھ ملا یا جا سکتا ہے۔ آج 3 بڑے پہاڑ پاکستان کے عوام کو دبائے ہوئے ہیں ان میں سے ایک اشرافیہ ، دوسرا ناانصافی اور تیسرا مذہبی انتہا پسندی کا ہے۔ پاکستان کے عوام نے ان پہاڑوں کو کھو د کر اپنے راستے سے ہٹانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور پاکستان کے عوام آہستہ آہستہ اپنا کام کر رہے ہیں ہماری تاریخ محدود اور سمٹی ہوئی تاریخ ہے۔ اس میں حکمران طبقے کی تاریخ تو ہے عوام کی نہیں۔ زمین داروں کی ہے کسانوں کی نہیں صنعت کاروں کی ہے مزدوروں کی نہیں۔ فرانسیسی مورخ مثلے نے فرانسیسی انقلاب پر ایک پر اثر کتاب لکھی ہے اس نے لکھا ہے ’’ میں جتنی زیادہ گہرائی میں گیا اتنے ہی یقین کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا کہ جو کچھ بہتر ہے وہ زمین کے نیچے ہے جو گمنامی میں روپوش ہے اور رہنما عنصر عوام ہیں ۔‘‘

عوام اور فقط عوام ہی وہ متحر ک قوت ہیں جو عالمی تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں پاکستان کے عوام نے اپنی 67سالہ جدوجہد کے نتیجے میں ابتدائی کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ پاکستان کو جمہوری اور تعصبات سے پاک خوشحال اور مضبوط بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی ضرورت ہے اتحاد کی ضرورت ہے مشکلات بہت ہیں لیکن ہمیں اپنی فتوحات کو بھی نہ بھولنا چاہیے اور ہمت اور جرأت قائم رکھتے ہوئے روشن مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے۔ زندگی عمل ہے اور عمل جدو جہد ہے بغیر جدو جہد کے کوئی خوبی نہیں پیدا ہوسکتی بغیر خوبی کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا اور بغیر عمل کے زندگی ممکن نہیں ۔ اشرافیہ ، رجعت پسندی ، بنیاد پرستی اپنی آخر ی سانسیں لی رہی ہیں ۔ آخری فتح ہمیشہ عوام کو ہی حاصل ہوئی ہے پاکستان کے عوام کی فتح قریب بلکہ انتہائی قریب ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔