زمانہ بدل رہا ہے

وجاہت علی عباسی  پير 3 نومبر 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

’’زمانہ بدل رہا ہے‘‘ ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں، کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں یہ کہتا ضرور نظر آتا ہے کہ زمانہ بدل رہا ہے۔ آج سے تیس سال پہلے بھی دادی بچوں سے اپنے زمانے کی بات کرتی نظر آتی تھیں اور آج کی بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تیس سال پہلے کی دادی کے برابر پاندان رکھا ہوتا تھا اور آج آئی فون۔

زمانہ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ اکثر ہم خود کو تبدیلیوں سے پیچھے محسوس کرتے ہیں، اکثر چیزیں ہم کو احساس دلاتی ہیں کہ ہم آئوٹ ڈیٹیڈ ہیں ’’اپ ڈیٹ‘‘ نہیں، لیکن پھر وہی چیزیں جو پہلے حیران کرتی ہیں زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں، جیسے ٹی وی کا آنا، پہلے گلی کے کسی ایک گھر میں ٹی وی ہوتا تھا اور پورا محلہ وہاں جمع ہوکر ٹی وی دیکھتا، پھر آہستہ آہستہ سب کے گھر ٹی وی آگیا، اب کسی کے گھر ٹی وی ہونا حیران نہیں کرتا، ہاں کلر ٹی وی ہونا ایک الگ بات تھی، کچھ عرصے بعد کلر ٹی وی بھی خاص سے عام ہوگیا، فون کا بھی یہی حال تھا، محلے میں ایک آدھ، پھر ہر گھر میں ایک فون آگیا اور آج کے دور میں کسی گھر میں چار پانچ فون ہونا ایک عام سی بات ہے۔

ہنری فورڈ نے ڈیڑھ سو سال پہلے جب گیسولین سے چلنے والی گاڑی کا سبھائو ایک کول کمپنی کے سامنے رکھا تھا تو وہ اس لیے مسترد ہوگیا تھا کہ ان کی کمپنی کے مطابق پٹرول سے چلنے والی گاڑی کوئی نہیں خریدے گا۔ آج صرف امریکا میں 43,000 گاڑیاں روز خریدی جاتی ہیں اور وہ سب کی سب پٹرول سے چلتی ہیں۔

ان مثالوں سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، وہ بدلائو جو آج ہم کو حیران کرتے ہیں کل عام ہوںگے لیکن آج کچھ ایسی چیزیں جو باقی دنیا میں تو بدل رہی ہیں مگر پاکستان میں ہم ان سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

کچھ دن پہلے سالانہ گلوبل جینڈرگیپ رپورٹ شایع ہوئی، جنیوا میں ورلڈ اکنامک فورم (WEF) دنیا کے ہر ملک سے ڈیٹا جمع کرکے یہ رپورٹ تیار کرتی ہے یہ ہر ملک کے مردوں اور عورتوں کے بیچ مختلف سیکٹرز جیسے صحت، تعلیم، اکانومی اور پالیٹکس میں Gender Gap کو جانتی ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان 142 ملکوں میں سے 141 نمبر پر آتا ہے جہاں عورتیں اکانومی میں بہتری کا حصہ ہوں، 132 تعلیم میں 119 صحت میں اور 85 پالیٹکس میں۔

2006 سے یعنی جب سے ادارے نے جینڈر رپورٹ جاری کرنا شروع کی ہے اس وقت سے اب تک پاکستان میں عورتوں کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ 2006 میں جہاں پاکستان 112 نمبر پر تھا وہاں 2014 میں 141 نمبر پر ہے۔

رپورٹ کے مطابق جہاں دوسرے ملکوں میں خواتین کو تیزی سے ورک پلیس میں آگے لایا جارہا ہے وہیں پچھلے نو سال میں پاکستان میں کوئی بہتر فرق نہیں آیا ہے۔

جہاں دنیا کی سب سے پاور فل ایک مشروب ساز کمپنی کی ورلڈ سی ای او ایک انڈین خاتون اندرانوئی ہیں وہیں پاکستان میں ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے کہ ورک پلیس میں مردوں اور عورتوں کے درمیان یہ فرق 2095 میں ختم ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کو مردوں کے برابر آنے میں سوا سو سال لگیں گے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں خواتین کو سیاست میں سب سے زیادہ مواقع حاصل ہیں یعنی اگر کوئی خاتون سیاست میں ہیں تو ہمارے یہاں ان کی مردوں سے برابری کے چانسز زیادہ ہیں۔ اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں۔ اس لیے کہ آج بھی دنیا کی سب سے کم عمر خاتون پرائم منسٹر کا اعزاز پاکستان ہی کے پاس ہے، اسی لیے پالیٹکس کے معاملے میں ہم 142 نمبر میں سے 85th نمبر پر ہیں۔

پالیٹکس کے بعد صحت آتی ہے جس میں ہم 119 نمبر پر ہیں لیکن تعلیم یعنی والدین کا لڑکیوں کا لڑکوں کی برابری میں اسکول بھیجنا اور پھر اچھے کالج اور یونی ورسٹیز میں داخلہ ملنے میں ہماری خواتین لسٹ میں 132 نمبر پر ہیں اور پروفیشنل لیول پر 141 نمبر پر۔

اول تو خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی، ڈاکٹر، انجینئر لوگ اپنی بیٹیوں کو بنا بھی دیں تو فکر ان کے کیریئر کی نہیں بلکہ شادی کی رہتی ہے، شادی کرکے بھی وہ ڈاکٹر، انجینئر لڑکی بلڈنگیں بنانے یا پھر سرجری کرنے کے بجائے اپنے سسرال میں دوپہر شام روٹیاں بناتی نظر آتی ہے۔

اگر کوئی لڑکی مجبوراً یا آگے بڑھنے کے جذبے سے کسی کیریئر کو اپنا بھی لیتی ہے تو اس کا وہاں کامیاب ہونا دنیا کے کسی بھی ملک سے پاکستان میں زیادہ مشکل ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے نو سال میں دنیا کے 35 ایسے ممالک ہیں جن میں ہیلتھ کیئر میں Gender Gap پوری طرح ختم کردیاگیا ہے، اسی طرح پچیس ایسے ممالک ہیں جہاں تعلیم کے میدان میں بھی یہ فرق ختم ہوگیا ہے۔

جب کہ اس وقت بڑا فیصلہ لینے والی پوزیشن میں صرف 21% خواتین ہیں یعنی کہ ایسی نوکریوں میں جہاں وہ کسی کمپنی یا آرگنائزیشن کے بارے میں بڑا فیصلہ کرسکتی ہیں۔ اس کے باوجود بزنس کی دنیا میں یہ گیپ تیزی سے کم ہوتا نظر آرہا ہے، پچھلے نو سال میں پارلیمنٹس میں خواتین کی نمایندگی پچیس فیصد اور منسٹرز بننے کی تعداد میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے، دنیا میں جس ملک میں جینڈر گیپ سب سے کم ہے وہ آئر لینڈ ہے، لسٹ میں امریکا تیسرے نمبر پر آتا ہے۔

ماناکہ ہمیں امریکا یا آئر لینڈ نہیں بننا لیکن زمانہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور پاکستان باقی چیزوں، کھانے، ہم سب مغرب سے کاپی کررہے ہیں تو پھر اس جینڈر گیپ کو ختم کرنے میں ہمیں 85 سال کیوں لگیںگے؟ اوپر سے سب صحیح لگتا ہے، مارننگ شوز میں بیٹھی ہوسٹ کہتے نہیں تھکتیں کہ مرد عورت اب برابر ہوگئے ہیں، جب کہ سچ تو یہ ہے کہ ہم دنیا میں صرف یمن سے اس جینڈر گیپ میں بہتر ہیں۔

یو این کی رپورٹ کے مطابق 24% لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں کردی جاتی ہے جو ساری زندگی صرف ہائوس وائف رہتی ہیں، خواتین ویسے بھی پروفیشنل فیلڈز میں کم ہیں، اوپر سے ان کو حقوق بھی برابر کے نہیں، اگر فیس بک یوزرز میں ہم دنیا کے ساتویں نمبر کے ملک ہوسکتے ہیں تو Gender Gap ختم کرنے میں کیوں نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔