صدی پُرانے برگد کا سایہ زمین میں اُترگیا

اقبال خورشید  منگل 9 دسمبر 2014
ممتاز کمیونسٹ راہ نما اور دانش ور، سوبھوگیان چندانی طبقاتی جدوجہدکا استعارہ تھے۔ فوٹو: فائل

ممتاز کمیونسٹ راہ نما اور دانش ور، سوبھوگیان چندانی طبقاتی جدوجہدکا استعارہ تھے۔ فوٹو: فائل

اُس کے انتقال کی خبر متوقع تھی!

نہ صرف اِس لیے کہ وہ ایک صدی جی چکا تھا، اور بہت بیمار تھا، بلکہ اِس لیے بھی کہ جن اُجلے آدرشوں کے لیے اُس نے جدوجہد کی، جن سنہری نظریات کے لیے خود کو تج دیا، وہ کبھی اِس ریاست کے بدن کا سنگھار نہ بن سکے۔ افسوس، یہ قیمتی گہنے ہم نے خود ہی رد کر دیے۔ مگر مایوسی کی تاریکی اس کے عزم کی چٹان میں دراڑ نہیں ڈال سکی۔ وہ زندہ رہا کہ اسے زندگی پر یقین تھا۔ اور اس وقت تک زندہ رہا، جب تک موت غیرمتعلقہ نہ ہوگئی۔

یہ اس شخص کا تذکرہ ہے، جسے ٹیگور نے ’’موئن جودڑو کا آدمی‘‘ کہہ کر پکارا ، شیخ ایاز نے ’’قلندر‘‘ قرار دیا۔ جب ملک کے منتخب وزیراعظم نے اس کی بابت بابائے بلوچستان، میر غوث بخش بزنجو سے سوال کیا،’’تم نے ایک ہندو کو پناہ دے رکھی ہے؟‘‘ تو جواب ملا،’’میں نے ہندو کو نہیں، بلکہ اپنے بھائی کو پناہ دی ہے۔‘‘ ممتاز کامریڈ لیڈر، سو بھوگیان چندانی طبقاتی جدوجہد کا استعارہ تھے۔ سندھ کی تاریخ۔ اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیا، مگر اس بزرگ کے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ اب وہ ہم میں نہیں رہے، ایک تصویر بن چکے ہیں، ان تصاویر کی طرح، جو لاڑکانہ میں سوبھو کے کمرے میں آویزاں تھیں، جن ٹیگور اور بابا گرو نانک کی تصاویر نمایاں تھیں۔

سوبھو کے حالات زندگی کسی پرتجسس ناول کے مانند ہیں:

وہ 3 مئی 1920 کو لاڑکانہ کے گاؤں ’’بنڈی‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اجداد زمیں دار۔ گھرانا بابا گرو نانک کا عقیدت مند۔ اسی نسبت سے ’’نانک پنتھی‘‘ کہلاتے۔ والد، ٹیورمل بہت ملن سار اور شفیق انسان تھے۔ کم سن سوبھو جب اپنے دادا، پربھ داس کے ساتھ اناج کے بٹوارے کے لیے کھیتوں میں جاتے، تو ہاریوں کی طرف داری کرتے۔ جب اسکول کے اساتذہ طلبا کو لکڑیاں جمع کرنے کے لیے کہتے، تو وہ بھی غریب ہاریوں کے بچوں کے ساتھ لکڑیاں کاٹنے جنگل میں چلے جاتے۔ سات برس کی عمر میں ملاقات کامریڈ حیدربخش جتوئی سے ہوئی، جن کے نظریات اور شخصیت نے ان پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان ہی کو دیکھ کر انھیں دیکھ کر دل میں دوسروں کی خدمت کرنے کا جذبہ جاگا۔

ابتدائی تعلیم دادا سے حاصل کی۔ ’’مہابھارت‘‘ ’’رامائن‘‘ جیسے طویل رزمیوں کا ذائقہ چکھا۔ کراچی سے نکلنے والے ایک رسالے ’’سناتن دھرم پرچاریہ‘‘ نے بھی ان کی سوچ کو متاثر کیا۔ پرائمری کے بعد بڑے بھائی، کیول رام کے ساتھ قمبر کے این جے وی ہائی اسکول میں داخل کروادیا گیا۔ لاڑکانہ کے گورنمنٹ ہائی اسکول کا بھی حصہ رہے۔ جب اسکول کے ہیڈ ماسٹر، کرم چند ہنگورانی کا تبادلہ لاڑکانہ سے این جے وی ہائی اسکول کراچی ہوا، تو وہ اپنے ہونہار شاگرد کو بھی ساتھ لے آئے۔

وہ زمانہ بھی عجیب تھا یارو۔ سوبھو بھگت سنگھ کی تصویر جیب میں رکھ کر گھوما کرتے۔ 37ء میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کرنے کے بعد ڈی جے کالج سے انٹر کیا۔ اسی زمانے میں عالمی شہرت یافتہ شاعر، رابندر ناتھ ٹیگور کی کتابوں نے گرویدہ بنایا۔

1938ء میں ’’شانتی نکیتن‘‘ میں قدم رکھا، جہاں گرودیو (ٹیگور) کے درشن کیے۔ ٹیگور نوجوان سوبھو سے بہت متاثر ہوئے، اور انھوں نے اپنے ذاتی کتب خانے سے استفادہ کرنے کی اجازت دے دی۔ شانتی نکیتن میں سوبھو گیان چندانی کو ہندوستان کے معروف سیاسی و سماجی راہ نماؤں اور علمی و ادبی شخصیات کو قریب سے دیکھا۔ اس فہرست میں کمیونسٹ راہ نماء، پنا لال داس گپتا بھی شامل ہیں۔ شانتی نکیتن میں سندھی اور سیاسیات کے استاد، پروفیسر کرشنوکر پلانی نے بھی سوبھو کو متاثر کیا۔ ادھرے سے پلٹے، تو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ایس ای شاھانی لا کالج، کراچی میں داخلہ لے لیا۔

زمین دار کے اس غریب پرور بیٹے کے لیے لیفٹ کی سیاست فطری انتخاب ٹھہری۔ اُن دنوں طلبا تحریک عروج پر تھی، جس کی راہ نمائی، حشوکیول رامانی کر رہے تھے۔ سوبھو نے حشو کیول کے ساتھ پورے سندھ کا دورہ کیا۔ وہ سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ ابھی ایل ایل بی کے فائنل ایئر میں تھے کہ ’’ہندوستان چھوڑدو‘‘ کی تحریک شروع ہوگئی۔ سندھ میں سوبھو اور ان کے رفقاء اس تحریک میں پیش پیش رہے۔ 25 جنوری 1943ء کو انھیں مٹھارام ہوسٹل، کراچی کے ٹینس کورٹ سے، دوران تقریر گرفتار کیا گیا، یوں پہلی جیل یاترا ہوئی۔

جولائی 1944ء میں انھیں رہائی نصیب ہوئی، تاہم 1966ء تک وہ کسی نہ کسی سیاسی الزام کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ کیمونسٹ پارٹی کے پلیٹ فورم سے خاصے سرگرم رہے۔ 1945ء میں اس کا حصہ بنے۔ پارٹی کے سیکریٹری، جمال بخاری کی شخصیت نے انھیں بہت متاثر کیا۔ سوبھو نے 1946ء میں ہونے والی ’’رائل انڈین آرمی‘‘ کی بغاوت کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں وہ گرفتار ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں ’’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا‘‘ کی جانب سے برطانیہ کا ساتھ دینے کے فیصلے سے سوبھو متفق نہیں تھے، جس کا برملا اظہار کیا۔

ہاریوں کے حقوق کا عَلم اٹھا لیا۔ قیام پاکستان کے بعد ’’ہاری الاٹی تحریک‘‘ بنائی۔ حکومت سے مطالبہ کیا کہ متروکہ اراضی کا ایک مخصوص حصہ بے زمین ہاریوں کو الاٹ کیا جائے۔ تحریک کو کام یابی ملی، اور لاکھوں ایکڑ اراضی بے زمین کسانوں میں تقسیم ہوئی۔ وہ کام یابی سوبھو کے لیے ایک یادگار پل تھا۔

عملی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1953ء کے صوبائی انتخابات کے وقت ’’ہاری تحریک‘‘ عروج پر تھی۔ سوبھو اس کے سرگرم رکن۔ ضلع دادو سے وہ کمیٹی کے امیدوار تھے، تاہم الیکشن میں پارٹی کام یابی حاصل نہیں کر سکے۔ سوبھو ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ اس وقت کمیٹی کو اپنی جیت کا یقین ہی نہیں تھا۔ حیدر بخش جتوئی کہا کرتے تھے کہ ہمیں پارٹی کا پروپیگنڈا کرنا ہے، بس اسی لیے الیکشن میں حصہ لیا ہے۔

ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان نیشنل پارٹی کے لیے خاصا کام کیا۔ 1957ء سے 1958ء تک وہ ایک روزنامے ’’نئیں سندھ‘‘ سے بہ طور ایڈیٹر منسلک رہے۔

سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے سو بھو کو 1965ء میں بھی گرفتار کیا گیا۔ اس عرصے میں وہ شیخ ایاز کے ساتھ پابند سلاسل رہے۔

اگلی بار وہ 1988ء کے عام انتخابات میں اقلیت کی مخصوص نشست پر کھڑے ہوئے۔ ابتداً انھیں کام یاب قرار دیا گیا تھا، لیکن جب دوبارہ گنتی کی گئی، تو سوبھو کو ناکام قرار دے دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مخالف امیدوار نے کام یابی کے لیے خاصی رقم خرچ کی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کمیونسٹ ہونے کی وجہ سے اُنھیں اعلیٰ ایوان کا حصہ بننے سے روکا گیا۔ ویسے انھیں کئی سیاسی قائدین نے اپنی جماعت میں شمولیت کی پیش کش کی، مگر سوبھو نے یہ سوچ کر انکار کر دیا کہ کہیں انھیں اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنا پڑے۔

ادبی محاذ پر بھی سوبھو پوری قوت سے لڑے۔ تقسیم کے بعد سندھی ادبی سنگت سے وابستہ ہندو شعرا اور ادیب بھارت چلے گئے تھے، جس کی وجہ سے اس کی رونقیں ماند پڑگئی تھیں۔ یہ سوبھو ہی تھے، جنھوں نے اسے نیا جنم دیا۔

تخلیقات کی فہرست بھی طویل ہے۔ ’’کڈھیں بھارا ینڈو‘‘ (کب بہار آئے گی) ان کے افسانوں کا مجموعہ ۔ افسانوں کا ’’انقلابی کی موت‘‘ کے نام سے اردو میں بھی ترجمہ ہوا۔ ’’تاریخ جاہ ساریل ورق‘‘ (تاریخ کے فراموش کردہ اوراق) مضامین کا مجموعہ ہے۔ ’’تاریخ گالھاھے تھی‘‘ نامی کتاب کالموں پر مشتمل، جو اردو میں ’’تاریخ بولتی ہے‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی۔ ان کی کتاب ’’وڈی وتھ ھئام ‘‘ (وہ بڑے لوگ تھے) سوانحی خاکوں پر مشتمل، جو’’سندھ کے انقلابی راہ نما‘‘ کے نام سے اردو کے قالب میں ڈھالی گئی۔ ان کی خود نوشت ’’روشنی جی پندھ میں‘‘ (روشنی کے سفر میں) ماہ نامہ ’’سوجھرو‘‘ کراچی میں اپریل 2002ء تا اگست 2005ء شائع ہوئی، جس کا اردو میں بھی ترجمہ ہوا۔ انھوں نے شاعری بھی کی، جس کا بڑا حصہ اب محفوظ نہیں۔ ساتھ ہی ’’نپولین جو موت‘‘ نامی ایک ڈراما بھی لکھا۔

کمیونسٹ سیاست ابتدائی شناخت۔ بعد کے برسوں میں بہ طور ادیب اور کالم نگاری محبتیں اور احترام سمیٹا۔ 2004ء میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے انھیں ’’کمال فن ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ دیگر اعزازات کے ساتھ 2007ء میں ’’حبیب جالب امن ایوارڈ ‘‘ بھی ان کے حصے میں آیا۔

سیاستی سرگرمیوں کے باعث وکالت کی تعلیم مکمل نہیں کرسکے۔ 1970ء میں خاندان کی مشترکہ جائیداد کی فروخت کے بعد جب کوئی مستقل ذریعۂ آمدنی باقی نہیں رہا، تو انھوں نے لاڑکانہ لا کالج میں داخلہ لے لیا، اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کردی۔ وہ غریبوں اور مزدوروں کے مقدمات مفت لڑتے تھے۔ ہمیشہ محنت کشوں کے گھیرے میں نظر آتے۔ کچھ عرصہ انھوں نے لاڑکانہ لا کالج میں تدریسی ذمے داریاں نبھائیں۔ پرنسپل کے فرائض بھی انجام دیے۔

پاکستان کی دھرتی کے اِس عاشق کو قلق تھا کہ اس کا وطن ترقی کی راہ سے ہٹ گیا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ کوئی سیاسی جماعت عوام سے مخلص نہیں۔ تمام پارٹیوں میں سرمایہ دار، جاگیردار اور وڈیرے شامل ہیں۔ عوام کی نمایندگی کرنے والی کوئی پارٹی ہے ہی نہیں۔

سوبھو بہت کچھ لکھنا چاہتے تھے، مگر بڑھتی عمر رکاوٹ بن رہی تھی۔ اس دیوانے کی خواہش بس اتنی تھی کہ لوگ اسے یاد رکھیں۔ دوستوفسکی کے وہ بھگت تھے۔ ’’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘‘ پسندیدہ ناول۔ شاعروں میں ٹیگور، فیض اور جوش کے معترف۔

سوبھو، جو برگد کے قدیم درخت سا گھنا تھا، اب ہم میں نہیں رہا۔ وہ کہیں دور چلا گیا، کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لیے۔ مگر جاتے جاتے اپنی یادوں کی مہک چھوڑ کر گیا۔ وہ محبت چھوڑ گیا، جو سے اس نے ایک نسل کو گرویدہ بنایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔