ملالہ ہماری پرائم منسٹر

وجاہت علی عباسی  اتوار 14 دسمبر 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

بالآخر ملالہ کو نوبل پرائز مل گیا۔ ہاں یہ خبر تو لوگوں کو مہینوں پہلے سے معلوم تھی لیکن بدھ دسمبر دس 2014 اوسلو میں دو دن کی تقریبات کے بعد آفیشل فنکشن میں ملالہ اور ان کے علاوہ کیلاش ستیہ آرتی کو نوبل پیس پرائز بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے پر دیا گیا۔

دو دن کی تقریبات اور پھر ان گنت پریس کانفرنسوں میں ایک بات صاف تھی وہاں موجود لوگ اور رپورٹرز صرف ملالہ سے بات کرنے میں دلچسپی دکھا رہے تھے کیلاش ستیہ آرتی سے نہیں، پاکستانی ہونے کی وجہ سے ہمیں بھی کیلاش ستیہ آرتی میں کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے لیکن ذہن میں سوال ضرور آتا ہے کہ انھوں نے بچوں کے لیے ایسا کیا کام کیا ہے جو انھیں دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا گیا ہے؟

کیلاش ستیہ آرتی کا تعلق دہلی سے ہے الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرکے وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ 1980 میں انھوں نے اپنے کیریئر کو خیرباد کرکے اپنی زندگی غریب بچوں کی بہتری کے کاموں کے لیے وقف کردی، انھوں نے ایک آرگنائزیشن بنائی جس کا نام ہے ’’بچپن بچاؤ آندولن‘‘ ان کا کام ان بچوں کو بچانا تھا جو چائلڈ لیبر میں پھنسے ہوئے ہیں۔

آپ نے اگر کبھی بھی اخبارات، میگزین یا ٹی وی چینلز پر چائلڈ لیبر کے بارے میں دیکھا ہو جیسے چائنا، پاکستان، انڈیا جیسے ملکوں میں بچوں کو قالین یا چمڑے کی مصنوعات بناتے اور اس کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہو تو اس سب کا آغاز ستیہ آرتی نے کیا ہے، 144 ملکوں میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین کو لاگو کرنے کا سہرا ان ہی کے سر ہے۔

1980-90 میں مغربی دنیا کو تیسری دنیا سے منگوائے جانے والے قالینوں کی تیاری میں چائلڈ لیبرسے متعلق ستیہ آرتی نے ہی متعارف کروایا، نہ صرف یہ بلکہ دنیا بھر میں تمام قالین ساز فیکٹریوں کو یہ سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے کہ اس فیکٹری میں کم عمر بچے کام نہیں کرتے۔

کیلاش ستیہ آرتی کو اس سفر میں بہت مشکلات اٹھانی پڑیں، بچوں سے کام کروانے والوں کا نیٹ ورک دنیا بھر میں بہت مضبوط ہے اور ان کے خلاف آواز اٹھانے والے کے سیکڑوں دشمن۔

درجنوں بار ستیہ آرتی پر جان لیوا حملے ہوئے دو بار ان کے قریب ترین ساتھیوں کی لاشوں کو انھیں اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر اسپتال تک لانا پڑا۔ آج تک تراسی ہزار (83,000) بچے ایسے ہیں جنھیں ستیہ آرتی نے چائلڈ لیبر کے چنگل سے بچایا۔

ستیہ آرتی کو پچھلے برسوں میں درجنوں ایوارڈز ملے ہیں جب کہ ان کی زندگی کو کئی دھمکیاں اب بھی ہیں لیکن وہ آج بھی دہلی میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ کر اسی طرح کام کر رہے ہیں جیسے آج سے تیس سال پہلے کر رہے تھے۔

نوبل پرائز ملنے کے بعد کئی لوگوں نے ستیہ آرتی کے بارے میں مضامین لکھے لیکن تقریب کی اسٹار ملالہ ہی بنی رہیں، اوسلو میں سڑکوں پر لوگ خصوصاً بچے ملالہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں کھڑے رہے۔

ستیہ آرتی ایونٹ کے بعد ملالہ سے پہلے اوسلو سے چلے گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں اب بھی کئی ہزار بچوں کے بچپن کو بچانا ہے اور ان کے ہر دن کا ہر گھنٹہ کسی نہ کسی بچے کے لیے اہم ہے لیکن ملالہ اوسلو میں ہر فنکشن اٹینڈکرنے کے لیے موجود تھیں انھیں فی الحال کسی کی زندگی بچانے، تعلیم وغیرہ پر کام کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔

ملالہ نے نوبل پرائز ملنے کے دو دن بعد وہ فنکشن اٹینڈ کیا جس میں وہ یونیفارم ڈسپلے کیا گیا جو انھوں نے اس وقت پہنا ہوا تھا جب ان پر حملہ ہوا، اس موقع پر انھوں نے کہا کہ میری اسٹوری کوئی خاص نہیں عام ہے اور یہی اس کی خاص بات ہے، یہ حقیقت ہر جگہ موجود ہے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

ملالہ خود کو ان 166 ملین لڑکیوں کی نمایندہ کہتی ہیں جنھیں تعلیم کے کوئی مواقع نہیں ہیں لیکن ملالہ فی الحال صرف ان کی نمایندگی کر رہی ہیں ان کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہیں۔

ملالہ کے خون سے لت پت کپڑوں کے ڈسپلے کی سیکڑوں تصویریں ہمیں انٹرنیٹ پر نظر آگئیں لیکن ستیہ آرتی کے ان کپڑوں کی کوئی تصویر نہیں ملی جن کی لاشوں کا خون آرتی کے کپڑوں پر تھا یا تو ان کو یہ کپڑے ڈسپلے کرکے شہرت حاصل کرنے کا شوق نہیں تھا یا پھر انھیں اپنے مشن کے لیے اس چیز کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔

کچھ دن پہلے جب ملالہ کے والد سے BBC کے رپورٹر نے پوچھا کہ آپ لوگ پاکستان کب واپس جائیں گے جہاں کے بچوں کو ملالہ کی ضرورت ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ابھی ہم کو پاکستان سے کلیئرنس نہیں ملی ہے واپس جانے کی جیسے ہی ملے گی ہم واپس چلے جائیں گے ان کے لیے خبر ہے کہ پاکستان واپس آنے کی کلیئرنس انھیں بھی نہیں ملے گی اگر وہ واقعی ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں خود واپس آنے کا چیلنج قبول کرنا ہوگا۔

کئی ایسے انٹرویوز جن میں ملالہ اور ستیہ آرتی ساتھ بیٹھے تھے ہم نے دیکھے، ملالہ ہر وہ بات بول رہی تھیں جو انھیں سکھائی گئی تھی اور ستیہ آرتی ہر وہ بات دل میں لیے خاموش بیٹھے تھے جو زندگی نے انھیں سکھائی تھی۔

ملالہ سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ وہ پاکستان کے لیے کیا کریں گی؟ تو ان کا جواب ’’دس سال میں ایک ہزار اسکول کھولیں گی‘‘ نہیں تھا، ان کا جواب تھا کہ میں پاکستان کی پرائم منسٹر بنوں گی جس پر انٹرویو لینے والے نے کہا کہ کیوں نہیں جب بے نظیر پرائم منسٹر بن سکتی ہیں تو آپ کیوں نہیں اور ملالہ خوش ہوگئیں۔

طالبان کے حملے کے بعد ملالہ شاید اپنی جنرل نالج کھو بیٹھیں بھول گئیں کہ سوشل ورک اور پالیٹکس دو الگ چیزیں ہوتی ہیں بچوں کے لیے کام کرنا اور ملک کے سیکڑوں سسٹم کو ہیڈ کرنا ایسا ہی ہے جیسے 1990 میں جہانگیر خان کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا اوپننگ بیٹسمین بنادیا جائے کیونکہ وہ اسکواش کے نمبر ون پلیئر تھے۔

انٹرویو لینے والے کو ملالہ سے جی جی کرنے سے فرصت نہیں تھی یا پھر شاید انھیں یاد ہی نہیں تھا کہ ستیہ آرتی بھی بیٹھے تھے ورنہ وہ ان سے ضرور پوچھتے کہ یہ توپاکستان کی پرائم منسٹر بنیں گی انھیں تو پورے ایشیا کا پرائم منسٹر بننا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔