- شاہین کے 300 انٹرنیشنل شکار مکمل
- پاکستانی ایئرلائنز پر پابندی ختم کرنے کے تناظر میں پیش رفت کاامکان
- اسلام آباد میں پی آئی اے پرواز خراب موسم کی زد میں آگئی، متعدد مسافر زخمی
- زہریلے کیمکل کا استعمال، بھارتی غذائی اشیاء پرعالمی پابندیاں عائد
- اصلاحات کے ذریعے آئی ایم ایف پروگرام کو گیم چینجر بنانا ممکن
- پاکستان کیلیے چند سال آئی ایم ایف کے بغیر مشکل ہیں، برطانوی چیف اکانومسٹ
- انا چھوڑیں ٹیم کو دیکھیں
- استحکام کیلئے خودانحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا!
- ہالا؛ قومی شاہراہ پر مسافر کوچ اور ٹرالر میں تصادم، 5 مسافر جاں بحق
- پکتیکا پر مبینہ حملہ، افغان طالبان نے پاکستانی وفد کا دورہ منسوخ کردیا
- وزیراعظم کا آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار، ہنگامی اجلاس طلب
- بار بی کیو بنانے کیلئے جھاڑن کا استعمال، سوشل میڈیا صارفین کی تنقید
- ڈیمنشیا کے مریض موت سے پہلے نارمل کیوں ہوجاتے ہیں؟
- اے آئی کی تیار کردہ جعلی تصاویر، ویڈیوز کیسے شناخت کریں؟
- آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے نئے ٹیکس اقدامات پر بریفنگ مانگ لی
- رفح پر اسرائیلی حملے سے حماس ختم نہیں ہوگی، امریکا
- کراچی سے چھینی گئی ڈبل کیبن گاڑی لاڑکانہ سے برآمد
- رضوان اور فخر کی شاندار بیٹنگ، پاکستان نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں آئرلینڈ کو ہرادیا
- آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے 6 اہم امور پر بریفنگ طلب کرلی
- نارتھ ناظم آباد میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کردیا
آزادی اظہار اور مغربی پالیساں
گزشتہ دنوں پیرس سے شائع ہونے فرانسسی میگزین کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے۔ بعد ازاں اس حملے کو مذہبی حملے کا رنگ دیا گیا اور پھر انسانیت کا درس دینے والوں کے درمیان درندے گھس آئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس حملے کے بعد میگزین انتظامیہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئےمسلمانوں سے معافی مانگتی، لیکن انہوں نے حملے سے کچھ نہ سیکھا اور اپنی ہٹ دھرمی اور اسلام مخالف مہم جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر متنازع کارٹون شائع کردیئے۔
تاہم حملے کے بعد انٹرنیشنل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ لوگوں نے اس حملے کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے مذہب اسلام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے کئی مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ۔ اس حملے سے متعلق سوشل میڈیا پر کئی ٹرینڈ چلائے گئے۔ جس میں تقریباً سب ہی لوگوں نے حصہ لیا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا کی مشہور و معروف ویب سائٹس فیس بک نے اپنی پالیسیوں پر دوغلہ پن اختیار کیا۔
فیس بک استعمال کرنے والے لاکھوں صارفین نے اپنے اپنے الفاظ میں اس سانحے کا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ تاہم انصاف اور انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں نے اپنی ویب سائٹس پر صرف من پسند ٹوئیٹس اور اسٹیٹس کو منظور کیا۔ جو سوشل میڈیا کے صارفین کے ساتھ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ آزادی اظہار رائے پر قدغن بھی۔
پاکستانی معروف اداکار پیارے افضل یعنی حمزہ علی عباسی کے فیس بک اسٹیٹس کو بھی اسی ضمن میں ہٹایا گیا جس کی انہوں نے کھلے الفاظ میں مذمت کی۔ حمزہ چونکہ ایک نامور پاکستانی اداکار ہیں لہذا ان کے فیس بک اسٹیٹس کو مشہور اخبارات کی ویب سائٹس نے خبروں میں خصوصی جگہ دی، جس کے بعد بالآخر فیس بک کے بانی اور سی ای او مارک زکر برگ نے حمزہ کے اُس اسٹیٹس ہٹائے جانے کو ایک ’’غلطی‘‘ قرار دے ہی دیا جسے انہوں نے پروفائل کو ڈی ایکٹیویٹ کر کے ہٹایا تھا۔
یہ تو صرف ایک واقعہ ہے اسی طرح اور بھی کئی لوگوں کے اسٹیٹس اور آئی ڈیز کے ساتھ مسائل پیش آئے ہیں۔ کئی صارفین کی تو آئی ڈیز بلاک کر دی گئی ہیں۔ یہ معاملہ پہلی دفعہ پیش نہیں آیا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی بار اس طرح کے مسائل سے صارفین کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
فوٹو؛ حمزہ علی عباسی فیس بک پیج
مغرب اپنی پالیسیوں پر خود عمل پیرا ہونے سے قاصر ہے۔ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی اداروں نے اس طرح کی خبریں اور تصاویر شائع کی ہیں جس سے انسانی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ تاہم ان کے لئے سزا و جزا اور پابندی کے حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کے تمام فورم پر جب آپ کو مکمل آزادی اظہار رائے میسر ہے تو پھر ادارے اس طرح کی حرکتیں کرکے صارفین کے لئے مشکلات اور تحفظات کیوں پیدا کررہے ہیں؟ میری انتظامیہ سے التماس ہے کہ فوری طور پر نئی پالیسیاں مرتب کرکے صارفین کو اس سے مکمل طور پر آگاہ کیا جائے۔ عدم برداشت اور دہشت گردی سے متعلقہ چیزوں کی شئیرنگ پر سختی سے پابندی عائد کی جائے۔ سب کے لئے یکساں قانون بنائے جائیں تاکہ صارفین مطمئن رہتے ہوئے ادارے پر مزید بھروسہ کریں اور سروسز کو استعمال کریں، تاکہ آپ کی صحافت انسانیت اور انصاف کا علم دنیا بھر میں سرخرو ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔