- ن لیگ کی عمران خان کے جھوٹے ’بیانیے‘ کے خلاف حکمتِ عملی تیار
- پاکستانی قاری کا امریکا میں تراویح کے سب سے بڑے اجتماع کی امامت کا اعزاز
- امریکا کے شام میں ایرانی ٹھکانوں پر جوابی فضائی حملے؛11 ہلاکتیں
- مزید نئے روٹس پر پیپلز الیکٹرک بس سروس چلانے کا فیصلہ
- مشہور موسیقار ’بے ٹہووِن‘ کی موت کے 200 سال بعد ڈی این اے تجزیہ
- اب مائیکروسوفٹ براؤزر میں الفاظ سے اے آئی تصاویر تخلیق کرنا ممکن
- رمضان المبارک؛ سحری کی ایسی غذائیں جن سے دن بھر بھوک نہیں لگے گی
- عالمی اور مقامی سطح پر سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ
- چین نے پاکستان کی دو ارب ڈالر کی قرض ادائیگی مؤخر کردی
- مسجد نبوی میں افطار کے پکوان کیلیے 11 غذائی کمپنیوں کی منظوری
- زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت 10 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی
- سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس نقوی کیخلاف ریفرنس پر ابتدائی کارروائی شروع
- راہداری ریمانڈ منظور؛ کوئٹہ پولیس حسان نیازی کو اسلام آباد سے لے کر روانہ
- پنجاب، پب جی گیم مزید 2 نوجوانوں کی زندگیاں نگل گیا
- پنجاب، کے پی انتخابات کیلیے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں درخواست دائر
- بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا رمضان کی آمد پر خصوصی پیغام
- نواز شریف کی اس الیکشن میں سیاسی موت ہونے والی ہے،عمران خان
- وزیراعظم شہباز شریف کے لاہور اور قصور کے اچانک دورے
- پہلا ٹی20؛ پاکستان نے اپنی پلینگ الیون کا اعلان کردیا
- پاکستانی ٹوئٹر صارفین کے لیے بلیو ٹک سبسکرپشن قیمتاً متعارف
آزادی اظہار اور مغربی پالیساں
انصاف اور انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں نے اپنی ویب سائٹس پر صرف من پسند ٹوئیٹس اور اسٹیٹس کو منظور کیا۔
گزشتہ دنوں پیرس سے شائع ہونے فرانسسی میگزین کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے۔ بعد ازاں اس حملے کو مذہبی حملے کا رنگ دیا گیا اور پھر انسانیت کا درس دینے والوں کے درمیان درندے گھس آئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس حملے کے بعد میگزین انتظامیہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئےمسلمانوں سے معافی مانگتی، لیکن انہوں نے حملے سے کچھ نہ سیکھا اور اپنی ہٹ دھرمی اور اسلام مخالف مہم جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر متنازع کارٹون شائع کردیئے۔
تاہم حملے کے بعد انٹرنیشنل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ لوگوں نے اس حملے کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے مذہب اسلام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے کئی مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ۔ اس حملے سے متعلق سوشل میڈیا پر کئی ٹرینڈ چلائے گئے۔ جس میں تقریباً سب ہی لوگوں نے حصہ لیا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا کی مشہور و معروف ویب سائٹس فیس بک نے اپنی پالیسیوں پر دوغلہ پن اختیار کیا۔
فیس بک استعمال کرنے والے لاکھوں صارفین نے اپنے اپنے الفاظ میں اس سانحے کا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ تاہم انصاف اور انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں نے اپنی ویب سائٹس پر صرف من پسند ٹوئیٹس اور اسٹیٹس کو منظور کیا۔ جو سوشل میڈیا کے صارفین کے ساتھ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ آزادی اظہار رائے پر قدغن بھی۔
پاکستانی معروف اداکار پیارے افضل یعنی حمزہ علی عباسی کے فیس بک اسٹیٹس کو بھی اسی ضمن میں ہٹایا گیا جس کی انہوں نے کھلے الفاظ میں مذمت کی۔ حمزہ چونکہ ایک نامور پاکستانی اداکار ہیں لہذا ان کے فیس بک اسٹیٹس کو مشہور اخبارات کی ویب سائٹس نے خبروں میں خصوصی جگہ دی، جس کے بعد بالآخر فیس بک کے بانی اور سی ای او مارک زکر برگ نے حمزہ کے اُس اسٹیٹس ہٹائے جانے کو ایک ’’غلطی‘‘ قرار دے ہی دیا جسے انہوں نے پروفائل کو ڈی ایکٹیویٹ کر کے ہٹایا تھا۔
یہ تو صرف ایک واقعہ ہے اسی طرح اور بھی کئی لوگوں کے اسٹیٹس اور آئی ڈیز کے ساتھ مسائل پیش آئے ہیں۔ کئی صارفین کی تو آئی ڈیز بلاک کر دی گئی ہیں۔ یہ معاملہ پہلی دفعہ پیش نہیں آیا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی بار اس طرح کے مسائل سے صارفین کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
فوٹو؛ حمزہ علی عباسی فیس بک پیج
مغرب اپنی پالیسیوں پر خود عمل پیرا ہونے سے قاصر ہے۔ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی اداروں نے اس طرح کی خبریں اور تصاویر شائع کی ہیں جس سے انسانی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ تاہم ان کے لئے سزا و جزا اور پابندی کے حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کے تمام فورم پر جب آپ کو مکمل آزادی اظہار رائے میسر ہے تو پھر ادارے اس طرح کی حرکتیں کرکے صارفین کے لئے مشکلات اور تحفظات کیوں پیدا کررہے ہیں؟ میری انتظامیہ سے التماس ہے کہ فوری طور پر نئی پالیسیاں مرتب کرکے صارفین کو اس سے مکمل طور پر آگاہ کیا جائے۔ عدم برداشت اور دہشت گردی سے متعلقہ چیزوں کی شئیرنگ پر سختی سے پابندی عائد کی جائے۔ سب کے لئے یکساں قانون بنائے جائیں تاکہ صارفین مطمئن رہتے ہوئے ادارے پر مزید بھروسہ کریں اور سروسز کو استعمال کریں، تاکہ آپ کی صحافت انسانیت اور انصاف کا علم دنیا بھر میں سرخرو ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔