- ٹیکس کیسز کا التوا، اٹارنی جنرل آفس کی ایف بی آر کو تجاویز
- اپریل کے دوران ترسیلات زر کی مد میں 2.8 ارب ڈالر آئے
- سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کے لیے 5 سالہ پروگرام تیار
- آئی ایم ایف کا پاکستان سے پنشن پر ٹیکس کے نفاذ کا مطالبہ
- نماز میں خشوع و خضوع
- تربیت اطفال کے اہم راہ نما اصول و ضوابط
- بڑی عمر میں بال سفید ہونے کے عوامل
- ہائی بلڈ پریشر، وجوہات اور علاج
- متوازن غذا کی اہمیت اور حصول کے ذرائع
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر ای مارکنگ منصوبہ شروع نہیں ہوسکے گا
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر ای مارکنگ منصوبہ ایک بار پھر تعطل کا شکار
- دھمکیوں پر خاموش نہیں ہوں گے، جیل کیلیے بھی تیار ہیں، فضل الرحمان
- ورلڈ لیجنڈز کرکٹ لیگ، پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی ایک مرتبہ پھر مدمقابل
- ٹی 20 ورلڈ کپ: سری لنکا نے اپنی ٹیم کا اعلان کردیا
- الشفا اسپتال سے ایک اور اجتماعی قبر دریافت، 49 ناقابل شناخت لاشیں برآمد
- بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، آسمانی بجلی گرنے سے 74 ہلاکتیں
- اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ؛ پاکستان اور جاپان 11 مئی کو فائنل میں مدمقابل آئیں گے
- سانحہ نو مئی کے خلاف پنجاب اور سندھ اسمبلی میں قرارداد کثرت رائے سے منظور
- کراچی میں نان کی قیمت 17 اور چپاتی کی قیمت 12 روپے مقرر
- اپنے خلاف کرپشن کیس بند کرانے پر فجی کے وزیراعظم کو ایک سال قید
آزادی اظہار اور مغربی پالیساں
گزشتہ دنوں پیرس سے شائع ہونے فرانسسی میگزین کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے۔ بعد ازاں اس حملے کو مذہبی حملے کا رنگ دیا گیا اور پھر انسانیت کا درس دینے والوں کے درمیان درندے گھس آئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس حملے کے بعد میگزین انتظامیہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئےمسلمانوں سے معافی مانگتی، لیکن انہوں نے حملے سے کچھ نہ سیکھا اور اپنی ہٹ دھرمی اور اسلام مخالف مہم جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر متنازع کارٹون شائع کردیئے۔
تاہم حملے کے بعد انٹرنیشنل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ لوگوں نے اس حملے کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے مذہب اسلام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے کئی مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ۔ اس حملے سے متعلق سوشل میڈیا پر کئی ٹرینڈ چلائے گئے۔ جس میں تقریباً سب ہی لوگوں نے حصہ لیا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا کی مشہور و معروف ویب سائٹس فیس بک نے اپنی پالیسیوں پر دوغلہ پن اختیار کیا۔
فیس بک استعمال کرنے والے لاکھوں صارفین نے اپنے اپنے الفاظ میں اس سانحے کا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ تاہم انصاف اور انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں نے اپنی ویب سائٹس پر صرف من پسند ٹوئیٹس اور اسٹیٹس کو منظور کیا۔ جو سوشل میڈیا کے صارفین کے ساتھ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ آزادی اظہار رائے پر قدغن بھی۔
پاکستانی معروف اداکار پیارے افضل یعنی حمزہ علی عباسی کے فیس بک اسٹیٹس کو بھی اسی ضمن میں ہٹایا گیا جس کی انہوں نے کھلے الفاظ میں مذمت کی۔ حمزہ چونکہ ایک نامور پاکستانی اداکار ہیں لہذا ان کے فیس بک اسٹیٹس کو مشہور اخبارات کی ویب سائٹس نے خبروں میں خصوصی جگہ دی، جس کے بعد بالآخر فیس بک کے بانی اور سی ای او مارک زکر برگ نے حمزہ کے اُس اسٹیٹس ہٹائے جانے کو ایک ’’غلطی‘‘ قرار دے ہی دیا جسے انہوں نے پروفائل کو ڈی ایکٹیویٹ کر کے ہٹایا تھا۔
یہ تو صرف ایک واقعہ ہے اسی طرح اور بھی کئی لوگوں کے اسٹیٹس اور آئی ڈیز کے ساتھ مسائل پیش آئے ہیں۔ کئی صارفین کی تو آئی ڈیز بلاک کر دی گئی ہیں۔ یہ معاملہ پہلی دفعہ پیش نہیں آیا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی بار اس طرح کے مسائل سے صارفین کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
فوٹو؛ حمزہ علی عباسی فیس بک پیج
مغرب اپنی پالیسیوں پر خود عمل پیرا ہونے سے قاصر ہے۔ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی اداروں نے اس طرح کی خبریں اور تصاویر شائع کی ہیں جس سے انسانی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ تاہم ان کے لئے سزا و جزا اور پابندی کے حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کے تمام فورم پر جب آپ کو مکمل آزادی اظہار رائے میسر ہے تو پھر ادارے اس طرح کی حرکتیں کرکے صارفین کے لئے مشکلات اور تحفظات کیوں پیدا کررہے ہیں؟ میری انتظامیہ سے التماس ہے کہ فوری طور پر نئی پالیسیاں مرتب کرکے صارفین کو اس سے مکمل طور پر آگاہ کیا جائے۔ عدم برداشت اور دہشت گردی سے متعلقہ چیزوں کی شئیرنگ پر سختی سے پابندی عائد کی جائے۔ سب کے لئے یکساں قانون بنائے جائیں تاکہ صارفین مطمئن رہتے ہوئے ادارے پر مزید بھروسہ کریں اور سروسز کو استعمال کریں، تاکہ آپ کی صحافت انسانیت اور انصاف کا علم دنیا بھر میں سرخرو ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔