نیت کی روح

ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہب کے نام پر ایک الگ کاروبار بھی چل رہا ہے


شہلا اعجاز December 21, 2025

آپ کو پتا ہے کہ وہاں ابھی پچھتر کروڑ روپے سے ایک مدرسہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘

’’پچھتر کروڑ۔۔۔!‘‘ موبائل پر اسکرول کرتے توجہ اس جانب اٹکی تھی۔

’’جی پچھتر کروڑ۔۔۔۔ اس سے کچھ قریب ہی پچیس کروڑ کا مدرسہ بنا ہوا ہے۔‘‘ بتانے والے نے ایک اور انکشاف کیا۔

’’پچیس کروڑ۔۔۔۔‘‘ حیرانگی ازحد تھی۔

’’جی وہ بھی آج کے زمانے کا پچیس کروڑ نہیں۔‘‘

’’کسی نے منع کیوں نہیں کیا کہ بھائی اس جگہ ایک مدرسہ پہلے ہی موجود ہے تو دوسرا مدرسہ یہاں کیوں بنایا جا رہا ہے؟‘‘

’’کون منع کرے گا اور کیوں کرے گا؟‘‘

’’اعتراض مدرسے پر ہرگز نہیں ہے  لیکن اس کی ضرورت پر ہے اس کی ضرورت مکمل کی جا چکی ہے اعتراض دوسرے پر ہے۔ ‘‘

بھلا آپ کو کیوں اعتراض ہے اور صرف مدرسے ہی پر کیوں اعتراض کیا جا رہا ہے۔یہاں ساتھ ساتھ کئی انگریزی میڈیم اسکول بنے ہوئے ہیں  ،ان پر اعتراض کیوں  نہیں کیا جاتا۔ہر نیک کام میں اعتراض کرنے کی بری عادت پڑ چکی ہے لوگوں کو۔

ہمارے یہاں ایسے بہت سے انتہائی ضروری کام نظرانداز ہو رہے ہیں لیکن وہ امور ضرور انجام دیے جا رہے ہیں جن کی ضرورت۔۔۔؟ ایسے بہت سے سوال ابھرتے ہیں اور دب جاتے ہیں۔

ہمارے دین میں معاشرے میں کس طرح زندگی بسر کرنی ہے، کیا کب اور کیسے انجام دینا ہے کرنا ہے، ناپ تول اور زندگی کے دیگر معاملات کیسے نبٹانے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنی روح کی صفائی کے لیے کس طرح عمل کرنا ہے۔

انتہائی مکمل، چیدہ چیدہ معاملات میں جس طرح وضاحت ہے کہ طبیعت فریش ہو جائے اور بندہ کہہ اٹھے کہ یہی تو وہ دین ہے کہ جس کے پیغمبر ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہ جن کے بعد اب کوئی اور نہ آئے گا کہ تمام معاملات حرام، حلال اور عوامی اور معاشرتی حکومتی اور دیگر لکھ کر لاک کر دیے گئے ہیں کہ اب اس طرح کرنا ہے تو کرو اور سمجھو کہ سمجھ میں بھی رب العزت نے کئی در وا کیے ہیں کہ ریسرچ کرنا بھی اس مذہب کی خوب صورتی ہے۔

پر کیا ہمارے یہاں ایسا کچھ ہو رہا ہے، روح کی صفائی، نکھار اور خوب صورتی پر کس حد تک توجہ دی جا رہی ہے؟

’’ان کی ہر بات خواتین پر آ کر ختم ہوتی ہے، کئی بار تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کو خواتین سے چڑ ہے یا ساری برائیوں کی جڑ خواتین ہیں۔ بھئی! تم ذرا اپنا دل کھولو۔‘‘

’’حیرت کی بات ہے یہ تو۔ ہمارے مذہب نے تو عورت کو اتنی عزت دی ہے۔‘‘

’’عزت دی ہے نا بس۔ آپ ان کی تقریریں سن کر حیرت میں پڑ جائیں گے کہ یہ کیا یہ تو لگتا ہے کہ صرف خواتین کی برائیوں پر چل رہے ہیں۔ خواتین یہ خواتین وہ۔ ان کو یوں کرنا چاہیے ایسے نہیں کرنا چاہیے۔ اب کوئی پوچھے کہ بھئی تم مردوں میں بیٹھ کر خواتین کی بات کیوں کر رہے ہو؟ میں حیران ہوں اس قسم کی سوچ پر۔

یہ ناراضی تھی یا کوفت لیکن سوال ضرور تھا۔ ہم لبرل ہونے کا نعرہ لگانے کو اچھا نہیں سمجھتے کہ ہمارے پاس رب العزت نے مکمل ضابطہ حیات کی صورت میں ہمیں اسلام عطا کیا ہے جو ہمارے لیے کس قدر بڑی نعمت ہے پر ہمیں اس کی سمجھ ہی نہیں۔ ہم تاریکی میں نہیں بلکہ روشنیوں میں کھڑے ہیں پر بس۔

ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہب کے نام پر ایک الگ کاروبار بھی چل رہا ہے اس کے حوالے سے بات کرنا ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن مذہب کو اپنے ذاتی حوالے سے تجارت کے طور پر استعمال کرنا کس قسم کا فعل ظاہر کرتا ہے۔

آج ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون کس قدر مذہبی اور نیک ہے حال ہی میں ایک وڈیو میں ایک صاحب کو گلہ کرتے دیکھا۔ لاہور سے پوسٹ کی گئی اس وڈیو میں موصوف نے غالباً پچاس پچپن تولے سونا ایک ایسے صاحب کے حوالے کیا تھا جو مارکیٹ میں تیس پینتیس سال سے انتہائی ایمان دار سمجھے جاتے تھے۔

سال میں دو عمرے کرنے والے قابل اعتماد صاحب سے اعتماد اعتبار تب ٹوٹا جب ان کے ہاتھ میں سونا تھمایا گیا اور ایمان متزلزل ہو گیا، یہاں تک کہ فرار کی راہ ہی سوجھی اب دنیا میں اس قدر فائدے حاصل ہو رہے ہیں تو مزے کے بعد جنت کی کیا سوچیں۔

یقینا اس قسم کے فوائد نے ذہن میں شور مچایا اور بس صاحب غائب۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اور وہ بھی ہو سکتا ہے لیکن پہلی سوچ تو یہی آئی کہ اس قدر ایمان دار شخص اور بات ایمان پر آ کر ختم ہو گئی۔ غیر مسلم بھی ایمان کے لفظ کو سچائی، کھرا پن اور خلوص سے پہچانتے ہیں۔

ہمارا رب سچا، کھرا اور پرخلوص ہے کہ اس کی روشنی ہی ہمیں زندگی کی اندھیری راہوں پر بھٹکنے سے بچاتی ہے پر جہاں ہم نے اس روشنی میں لالچ، ہوس، طمع اور غرض کی راکھ ڈالنے کی کوشش کی یہ روشنی منعکس ہو جاتی ہے اور ہمارے اندر کے عیوب کو دنیا کے سامنے واضح کر دیتی ہے۔

یہ بڑا حساس لیکن گہرا جانچنے والا سسٹم ہے جس کی سمجھ انسان کی عقل سے باہر ہے کہ یہ نیتوں کی ٹیسٹنگ کا سسٹم ہے۔ اس سے زیادہ باریک بیں سسٹم دنیا کے کسی کمپیوٹر یا مصنوعی ذہانت کے دائرہ کار میں نہیں آ سکتا۔

مذہب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کے لیے آپ کے ساتھ کھڑا ہے بس آپ کو اپنی روح کی سیٹنگ کرنا ہے ایسا تو نہیں کہ زبان جو الفاظ ادا کر رہی ہے اور اس سے سامنے بیٹھے سامع بہت متاثر ہو رہے ہیں پر اندر نیت میں دوسری تصویر چل رہی ہے۔

یہ منعکس ہوتی روشنی بظاہر ہمیں خوبصورت تصویر کی مانند نظر آ رہی ہے جب کہ اندر کی روش جہنم کے راستے کی جانب گامزن کر رہی ہے۔ کیا ہم میں اتنی سمجھ بھی نہیں کہ ہم اپنے لیے بہترین راستے کا انتخاب کر لیں۔

ایک رشوت خور افسر یا کسی بھی ادارے کا کرپٹ شخص اتنی اذیت نہیں دیتا جب ہم کسی ایسی مذہبی ہستی کی جانب سے کسی فضول قسم کی خبر وڈیو یا کلپ دیکھتے ہیں تو ہم حیران رہ جاتے ہیں، دماغ کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں کہ ایسے کیسے اس مولوی نے اتنی فضول حرکت کی کیسے؟ سوال اٹھتے چلے جاتے ہیں۔

بات انتہائی واضح ہے کہ جب بھی کوئی سچائی یا حق کی جانب قدم اٹھاتا ہے یا اس راہ کا راہی ہوتا ہے تو اس کی راہ میں شیطانیت کے کانٹے اگتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ رشوت ستانی کی صورت ہو یا بدفعلی یا ایسے ہی کسی مکروہ فعل کی۔ 

یہ راستہ جو کم عقل لوگوں کو سہل دکھائی دیتا ہے اتنا پرپیچ ہے کہ اگر قدرت کی جانب سے کوئی ایسی آنکھ ایجاد ہوتی جو ان کانٹوں کی نشان دہی کر سکتی تو ہزاروں لاکھوں بلکہ ان گنت کانٹے نظر آتے جو دراصل ہماری روح کی گندگی سے ہی سیراب ہوتے ہیں۔

قدم تو اٹھتا ہے پر مخالفین، شیاطین کا خیال ہوتا ہے کہ اگر یہ کامیاب رہا تو نقصان تو ہمارا ہی ہے لہٰذا وہ جت جاتے ہیں اپنے کام میں اور انسان ان کے سنہرے دکھائے جال میں الجھتا جاتا ہے۔ ہمیں ایک عام انسان کو اس الجھن سے کیسے بچنا ہے یہ بھی قرآن پاک میں تحریر ہے مدد کے لیے احادیث کا سہارا لیں۔ اپنے دماغ کو کھولیں اور اپنے فائدے کے لیے مذہب کا سہارا نہ لیں۔

مقبول خبریں