دنیا آج موسمیاتی بحران کے ایک نہایت حساس مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف وہ ممالک ہیں جنھوں نے صنعتی ترقی کے نام پر فوسل فیول (کوئلہ، تیل اور گیس) کا بے دریغ استعمال کیا ہے اور آج بھی فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کی ریکارڈ مقدار شامل کر رہے ہیں، تو دوسری طرف وہی عالمی معاشی نظام کلائمیٹ فنڈ کے نام پر مالی وسائل فراہم کرتا ہے تاکہ ترقی پذیر اورکمزور ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹ سکیں۔
لیکن جب ہم اعداد و شمارکو غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں انصاف، تاریخی ذمے داری اور ِ وسائل کی تقسیمِ کے حوالے سے کچھ گہرے تضادات نظر آتے ہیں۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسزکا بنیادی ذریعہ فوسل فیول کے استعمال سے نکلنے والا صنعتی اور توانائی شعبے کا اخراج ہے۔
جدید عالمی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چند ممالک نے دنیا کے کاربن اخراج کا بہت بڑا حصہ پیدا کیا ہے۔
ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق چین دنیا میں سب سے زیادہ CO2 اخراج کرنے والا ملک ہے، جو 2023 میں تقریباً 13.26 بلین ٹن CO2 خارج کر چکا ہے یعنی عالمی اخراج کے قریب ایک تہائی سے زائد حصہ۔
ورلڈومیٹر کی تحقیق بتاتی ہے کہ امریکا دوسرا بڑا اخراج کنندہ ہے، جو سالانہ تقریباً 4.6–4.8 بلین ٹن CO2 خارج کرتا ہے، بھارت تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کے سبب2.6 سے2.9 بلین ٹن CO2 سالانہ اخراج کرتا ہے، جس میں کوئلہ پر انحصار ایک اہم وجہ ہے۔
روسی فیڈریشن کا اخراج قریب 1.9 بلین ٹن ہے، جب کہ جاپان تقریباً 1.0–1.1 بلین ٹن کی سطح پر ہے۔ یہ چند ممالک عالمی سطح پر CO2 کے کل اخراج کے سب سے بڑے حصے دار ہیں، اور ان کے اخراج نے گزشتہ صدی میں عالمی درجہ حرارت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بنیاد فراہم کی ہے۔
اگر ہم تاریخی اخراج کی بات کریں تو امریکا نے تاریخی طور پر سب سے زیادہ اخراج کیا ہے۔1850کے بعد کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا نے تقریباً دنیا کے 1/4(پچاس فیصد سے زیادہ) اخراج میں حصہ ڈالا ہے، جو چین کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ہے۔
یہ تاریخی پہلو وہ اہم دلیل ہے جس پر ماحولیاتی انصاف کے علمبردار استدلال کرتے ہیں کہ جو معاشی ترقی تاریخی طور پر فوسل فیول کے استعمال سے ہوئی، اس کے ذمے دار ملکوں کودنیا کے سب سے زیادہ متاثر ممالک کو امداد دینی چاہیے۔
اقوامِ متحدہ کے تحت ترقی یافتہ ممالک نے 2009 میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو سالانہ100بلین امریکی ڈالر فراہم کریں گے تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کر سکیں۔
’’آرگنائزیشن فار کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ‘‘ (OECD)کی 2024 میں شایع کردہ رپورٹ Climate Finance Provided and Mobilised by Developed Countries in 2013–2022‘‘ کے مطابق 2022 میں ترقی یافتہ ممالک نے مجموعی طور پر 115.9بلین ڈالر کلائمیٹ فنڈ کے لیے مہیا کیے۔ یہ ہدف پورا تو ہوا تاہم، فنڈ کی تقسیم کی حقیقت کچھ مختلف نظارہ پیش کرتی ہے۔
اس حوالے سے بھارت کو سب سے زیادہ کلائمیٹ فنانس ملنے والے ممالک میں سے ایک رپورٹ کیا گیا، جو کہ تقریبا 14 بلین ڈالر تک ہے، چین کو بھی تقریباً 3 بلین ڈالر ملے، حالانکہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔
امیر اور بڑی مڈل انکم والے ممالک، جیسے یو اے ای، سعودی عرب، مصر، برازیل اور سربیا نے بھی کلائمیٹ قرض یا فنڈز کی صورت میں وصول کیے۔
یہی وجہ ہے کہ خاص طور پرگلوبل ساؤتھ سے تعلق رکھنے والے ماہرین تنقید کرتے ہیں کہ فنڈزکا حصول سیاست، مالی پروجیکٹ سائز اور ڈونر کے مفادات سے متاثر ہوتا ہے نہ کہ حقیقی ماحولیاتی نقصان یا کمزوریت کے پیمانے سے۔
یہاں ایک معمہ جنم لیتا ہے کہ وہ ممالک جنھوں نے سب سے زیادہ اخراج کیا ہے، وہی فنڈزکے بڑے وصول کنندگان بھی بنتے جا رہے ہیں، جب کہ کم اخراج مگر شدید موسمیاتی خطرات والے ممالک بہت کم حصہ حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان اس کی واضح مثال ہے۔
عالمی ادارے ورلڈ ومیٹر کے مطابق پاکستان کا عالمی اخراج میں حصہ عالمی سطح پر کم ترین (تقریباً 0.2-0.1بلین ٹن CO2) ہے، جو مجموعی عالمی اخراج کا معمولی حصہ بنتا ہے۔
تاہم پاکستان موسمیاتی آفات جیسے شدید سیلاب، گرمی کی لہر،گلیشیئر پگھلاؤ وغیرہ سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی کلائمیٹ فنڈز سے صرف چند بلین ڈالر ملتا ہے۔
یہ تضاد واضح طور پر دکھاتا ہے کہ تاریخی اخراج اور فنڈ کی تقسیم کے درمیان واضع اختلافات موجود ہیں، جہاں سب سے زیادہ متاثر وہ ممالک ہیں جو اخراج کے سب سے کم ذمے دار ہیں۔
یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ بہت سے کلائمیٹ فنڈ گرانٹس نہیں بلکہ قرض کی شکل میں دیے جاتے ہیں۔
سب سے زیادہ موسمیاتی بحران کی زد میں رہنے والے پاکستان جیسے ممالک (چھوٹے جزائر اور افریقہ کے غریب ممالک) کلائمیٹ فنڈز میں انتہائی کم حصہ حاصل کر پاتے ہیں جب کہ مڈل آمدنی والے بڑے ممالک کے پاس مضبوط حکومتی ڈھانچے ہوتے ہیں جو فنڈنگ کے لیے منصوبے تیار کرسکتے ہیں۔
اس سے ترقی پذیر ممالک نہ صرف مزید قرض کے بوجھ تلے آجاتے ہیں بلکہ ان کی معیشت بھی دباؤ میں آجاتی ہے۔اس حوالے سے ایک تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ کچھ بڑے مالیاتی اداروں جیسے عالمی بینک یا دیگر کے کلائمیٹ فنڈز میں شفافیت کا فقدان پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے فنڈ کے اثرات اور نتائج کا تعین مشکل ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے بڑے ممالک کو مالی طور پر اس امرکا ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے، خاص طور پر وہ جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ اخراج میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
اس کے ساتھ کلائمیٹ فنڈزکی تقسیم میں انصاف، شفافیت اورکمزور ترین ممالک کی ترجیح کو یقینی بنایا جانا چاہیے جب کہ گرانٹ کی فراہمی کو قرض کی نسبت ترجیح دی جائے تاکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک معاشی بوجھ سے بچ سکیں اور موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل بنا سکیں۔
عالمی نظام نے اس جانب کچھ پیش رفت ضرورکی ہے، جیسے 2022 میں 100 بلین ڈالرکلائمیٹ فنڈ کا ہدف عبورکرنا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ تقسیم کا نظام اب بھی غیر منصفانہ اور غیر شفاف ہے اور یہ تب ہی بدل سکتا ہے جب اخراج کی ذمے داری، تاریخی کردار اور موسمیاتی خطرات کو فنڈنگ کے فیصلوں میں بنیادی حیثیت دی جائے۔
صرف اسی صورت میں ہم حقیقی ماحولیاتی انصاف اور پائیدار عالمی ترقی کی طرف معاشی اور ماحولیاتی طور پر مستحکم راہ پرگامزن ہو سکتے ہیں۔