انھیں آپ نے سمجھانا ہے

کوئی فیلڈنگ کر رہا تھا، کوئی بچوں کو جھلا رہا تھا، کوئی بچوں کو بھاگ بھاگ کر پکڑ رہا تھا


شیریں حیدر December 21, 2025

بعد دوپہر چہل قدمی کا ارادہ کیا کہ دھوپ اچھی ہے تو چار قدم چل لیا جائے کہ کل کو ڈاکٹر سوال کرے تو بندہ کہنے جوگا ہو کہ میں نے آپ کے کہنے پر واک کی تھی، اپنے ارد گرد کے علاقے سے بھی گاڑی میں جاؤ تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ ارد گرد کیا ہے اور کون لوگ بستے ہیں۔

دوسڑکوں کے بیچ کے ایریا میں ایک چھوٹا سا پارک تھا جس میں ان سڑکوں کی دونوں اطراف کے گھروں کے بچے ہی غالباً کھیل رہے تھے اور ان کے ساتھ گھروں کے ملازمین بھی تھے۔

کوئی فیلڈنگ کر رہا تھا، کوئی بچوں کو جھلا رہا تھا، کوئی بچوں کو بھاگ بھاگ کر پکڑ رہا تھا اور اس جگہ پر چاں چاں کر کے جو آواز سب سے بلند سنائی دے رہی تھی وہ تھی، ’’ چاچا… چاچا ادھر پھینکیں، چاچا مجھے پکڑیں ، چاچا بھاگیں، چاچا جلدی کریں‘‘ اور چاچے بھی اس وقت بچوں کے ساتھ فارغ وقت سے بھر پور لطف اندوز ہو رہے تھے۔

ایک منظر نے میری نظر کو جکڑ لیا، ’’ چاچا، نیچے اتاریں مجھے، چھوڑیں!!‘‘ تھوڑی دیر پہلے وہ ’چاچا‘ اس بچی کو جھولے پر دھکا لگا رہا تھا اور اب وہ اس بچی کو اٹھائے ہوئے تھا۔ پھولے پھولے گالوں والی بچی منہ بسور رہی تھی اور چاچا ہنس رہا تھا۔

’’ بچی کو نیچے اتار دو بیٹا، تم نے سنا ہے کہ اس نے تمہیں کہا ہے کہ اسے نیچے اتار دو‘‘ میں نے خوامخواہ میں دخل اندازی کی، وہ میری بری عادت ہے جو ہمیشہ ایسے موقعوں پر جاگ جاتی ہے۔

اس نے بادل نخواستہ اس بچی کو نیچے اتارا اور یوں دیکھا جیسے سوال کررہا ہو، ’’ تو کون؟ کیا نام ہے تمہارا، کس گھر کے ملازم ہو اور یہ کس گھر کی بچی ہے؟‘‘

’’ وہ سامنے سفید رنگ والے گھر کی بچی ہے اور میں وہ ساتھ والی کوٹھی میںملازم ہوں‘‘ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی جواب دیا۔

میں نے سفید کوٹھی کی گھنٹی بجائی، بچی کو میںنے تھام رکھا تھا۔ ایک اور ملازم نے آ کر دروازہ کھولا، ’’ بیگم صاحبہ ہیں گھر پر؟‘‘ میںنے سوال کیا تو اس نے بتایا کہ وہ گھر پر تھیں اور کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھیں ، مجھے اس نے یہ سوچ کر اندر آنے کو کہا کہ شاید میں ان کی کوئی سہیلی تھی۔

’’انھیں کہیں کہ ایک منٹ کے لیے آکر میری ضروری بات سن جائیں۔‘‘ چند منٹ میں ایک اسمارٹ اور ماڈرن، بنی سنوری خاتون آئیں، ہوں گی، کوئی تیس کے پیٹے میں۔ ’’ السلام علیکم۔‘‘ اپنا تعارف کروایا۔

’’ آئیں پلیز آپ اندر آئیں ۔‘‘ اس نے خوش اخلاقی سے کہا، ’’ گڑیا آپ کے سا تھ کیسے ہے۔ اس کی بھی عجیب ہی عادت ہے، چند منٹ میں ہر کسی کو دوست بنا لیتی ہے۔‘‘

’’ آپ کو علم ہے بیٹا کہ اس کی یہ بہت بری عادت ہے۔‘‘ میںنے نرمی سے کہا ورنہ میں انتہائی سختی سے اسے سمجھانے کے لیے آئی تھی۔

’’ آپ کے کسی رشتہ دار کی بھی جرأت نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آپ کی بیٹی کو ہاتھ بھی لگائے، کجا یہ کہ آپ کا بھی نہیں بلکہ پڑوسیوں کا ملازم آپ کی بیٹی کو ہاتھ لگا لگا کر کندھوں سے دھکیل رہا ہو کہ اس کا جھولا اونچا اڑے اور پھر اسے جھولے سے اتار کر گود میں لیے پھرنا شروع کر دے۔

وہ کہے بھی کہ چاچا اسے نیچے اتار دے مگر چاچا لاڈ اور مذاق کے موڈ میں ہو… چند منٹ میں چاچا آپ کی بیٹی سمیت اس ہجوم سے آپ کی بیٹی سمیت غائب ہو جائے اور اس کا لاڈ اور مذاق کا موڈ تبدیل ہوجائے…‘‘

’’ توبہ استغفار!!‘‘ ا س نے بچی کو مجھ سے لے کر اپنے ساتھ لگا لیا۔ ’’ آپ چلیں میرے ساتھ اور گیٹ پر کھڑے ہوبتائیں کہ کون سا ملازم تھا؟‘‘

’’ میں آپ کو بتاؤں گی کہ کون سا ملازم تھا تو کیا ہو جائے گا۔‘‘ میں نے کہا، ’’ تاہم میں بتا دیتی ہوں، وہ گرے رنگ کے سوٹ والا سانڈ نما ملازم، ا س گھر کا ہے۔‘‘

میں نے ملازم کی طرف بھی اشارہ کیا اور اس گھر کی طرف بھی۔ ’’ آپ کو سن اور دیکھ کر غصہ آیا ہے اورآپ اس گھر تک بھی شکایت کریں گی اور اپنے شوہر کو بتا کر اس ملازم کی ٹھکائی بھی کروائیں گی، ممکن ہے کہ اسے نوکری سے نکلوا دیں ۔ لیکن اس سے کیا اس بچی کو لاحق خطرات ختم ہو جائیں گے؟‘‘ میں رکی۔

’’ اصل میں اس وقت کالونی کے سارے ہی بچے اور ملازم نکلے ہوئے ہوتے ہیں، سب بچے آپس میں کھیل رہے ہوتے ہیں اور ہمارے ملازمین ان سب پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے وضاحت دی۔

’’ کون سا ہے آپ کا ملازم، اس سے پوچھیں کہ کسی اورکے ملازم نے آپ کی بیٹی کو جھولا کیوں جھلایا…

آپ کا اپنا ملازم بھی اسے جھولا کیوں جھلاتا اور اس نے اس ملازم کو روکا کیوں نہیں جب آپ کی بیٹی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ وہ ملازم اسے نیچے اتار دے؟‘‘

’’ ہمارا ملازم… ‘‘ وہ ارد گرد دیکھنے لگی، وہ اسے نظر نہیں آیا تو وہ کچھ پریشان ہوئی اور گھر کے اندر کی طرف منہ کر کے دوسرے ملازم کو آواز دی، ’’ اکرم کہاں ہے؟‘‘

ملازم نے بتایا کہ اکرم تو اپنے کوارٹر میں چائے پی رہا تھا، اس سے پہلے وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد گیا تھا۔ ماں یہ سمجھ رہی تھی کہ اس کا ملازم اس کی بیٹی کی ڈیوٹی پر ہے اور وہ اپنی ڈیوٹی صرف یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ وہ بچی کو باہر چھوڑ کر جو کچھ مرضی کرتا پھرے اور جہاں جی چاہے جاتا رہے۔

’’ آپ پلیز اندر آئیں، مجھے یوں اچھا نہیں لگ رہا ہے۔‘‘ اس کے اصرار پر میں اندر کی طرف بڑھی، اس نے عقب میں دروازہ بندکیا اور میری رہنمائی کرکے مجھے لاؤنج میں لے آئی جہاں ٹیلی وژن پر ڈرامہ روکا ہوا تھا جو کہ وہ دیکھ رہی تھی۔

’’ لگتا ہے کہ آپ ڈرامے بہت شوق سے دیکھتی ہیں؟‘‘ میں نے نشست سنبھال کر سوال کیا۔

’’ بس کافی فارغ وقت ہوتا ہے، کام کار تو ملازمین کرتے ہیں، اس لیے…‘‘

’’ آپ ان ڈراموں سے بھی کچھ نہیں سیکھتی ہیں؟‘‘ میںنے مسکرا کر سوال کیا۔

’’ میں سمجھی نہیں؟‘‘ اس نے حیرت سے سوال کیا۔

’’ بیٹا، آپ میری بیٹیوں جیسی ہو، اگر آپ برا نہ منائیں تو میں آپ کو اسی طرح کچھ سمجھانا چاہتی ہوں جیسے کہ میں اپنی کسی بیٹی کو سمجھاتی ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔

’’ جی جی، کہیں آپ۔‘‘ ا س نے ملازمہ کو چائے بنانے کو کہا، میرے اصرار پر بھی وہ باز نہ آئی۔

’’ جب آپ کی بیٹی گھر سے باہر جا رہی ہو تو اس کے ساتھ آپ بھی باہر نکل جایا کرو اور اس کا خیال رکھا کرو۔‘‘

’’ ہر روز ملازم ساتھ جاتا ہے، آج جانے کیسے…‘‘ اس نے ہولے سے کہا۔

(جاری ہے)

مقبول خبریں