مردہ میرٹ زندہ ہوگیا

مینڈیٹ کے ہاتھ لگ ہی گیا اور اپنے ہی لہو میں لہولہان ہوگیا


سعد اللہ جان برق December 21, 2025
[email protected]

کافی عرصہ سے میرٹ بیچارا صاحب فراش تھا۔لیکن آخرکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال پرملال اور وفات حسرت آیات کرگیا۔ انا اللہ…اور حسرت ان غنچوں پر۔یعنی

یہ لاش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجیب’’مردہ مرد‘‘ تھا

دراصل’’ مینڈیٹ نامی ایک ٹرمینیٹر اس کے پیچھے پڑگیا تھا۔کیونکہ منتخب شہنشاہوں نے اسے ہلہ شیری دی ہوئی تھی۔ ’’بیچارا میرٹ ‘‘کبھی یہاں کبھی وہاں چھپ چھپ کر اپنی جان ناتواں بچاتا رہا لیکن کب تک، آخر کب تک؟۔

مینڈیٹ کے ہاتھ لگ ہی گیا اور اپنے ہی لہو میں لہولہان ہوگیا ۔کچھ راہگیر اسے اسپتال لے گئے، وہاں کسی لاوارث کی طرح پڑا رہا لیکن مینڈیٹ بدمعاش کے ڈر سے کسی نے اسے دیکھا نہیں۔ بیچارا…

پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا

’’خدا‘‘ تھے اتنے مگر کوئی آڑے آ نہ گیا

بیچارے کا’’غنچہ‘‘بن کھلے ہی مرجھا گیا، پھر سوکھ گیا اور پھر پتی پتی ہوگیا۔ کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔یہ ہماری اطلاعات تھیں لیکن ہم نہ مشیر اطلاعات ہیں اور نہ معاون اطلاعات۔اس لیے ہماری ’’اطلاعات‘‘ نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔

نہ ہئیوں میں نہ شئیوں۔یعنی بھاڑ میں گئیوں میں ہیں۔اب سرکاری، اعتباری اور بروقت جاری اطلاعات سنیے جو نہایت معتبر،مستند اور موثق ذرایع سے دستیاب ہوئی ہیں ،ان اطلاعات کے مطابق ہمارے نئے نکور وزیراعلیٰ نے اعلان کیا ہے کہ’’میرٹ‘‘مرا نہیں بقید حیات، زندہ باد پایندہ باد اور آیندہ باد ہے۔

ثبوت کے لیے انھوں نے ایک بہت بڑے مجع کے سامنے کچھ ماسٹروں کو پیش کیا اور ان کے ہاتھوں میں میرٹ بر تقرریوں کے آرڈر تھمادیے۔کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہم مینڈیٹ پر آئے ہیں یا بابا ئے قوم کی تصاویر والے رنگین کاغذات کی برکت سے۔

اور فرمایا کہ ہم سب کچھ میرٹ پر کریں گے۔ یہ بات اس لحاظ سے تو بالکل سچ ہے کہ موصوف خود بھی ’’میرٹ‘‘ پر وزیراعلیٰ بنے ہیں اور میرٹ پر آئے ہوئے محترم نے میرٹ کو زندہ کرنے کا یہ مظاہرہ کیا تو ہمیں ایک اور بہت ہی پرانا میرٹ کا مظاہرہ یاد آیا۔

ولولہ انگیز قیادت یعنی ایوب خان کی’’بنیادی ‘‘ جمہوریت کا زمانہ تھا، جس میں پہلے یونین کونسل کے ممبر منتخب ہوجاتے تھے، یونین کونسل تین چار دیہات پر مشتمل ہوتی تھی اور اس میں چھ سات ممبر ہوتے تھے، آگے پھر یہی چھ سات ممبر ہی ووٹ ڈال کر ایم پی اے، ایم این اے اور صدر کو منتخب کرتے تھے۔

فاطمہ جناح اور ایوب خان کے الیکشن میں بھی صرف انھی منتخب ممبروں نے ووٹ ڈالے تھے جو ایوب خان کی جیب کا’’مال‘‘ تھے۔اسی لیے عوام کی فیورٹ ہونے کے باوجود محترمہ ہار گئیں۔

ان دنوں میں بنوں سے ایک بہت ہی مالدار، سرمایہ دار اور پھل دار ایم پی اے منتخب ہوگیا تھا جس نے کھلے عام سارے ووٹ خریدے تھے اور یہ بات پورے بنوں میں مشہور ہوگئی تھی ، اسے نہ جانے کیا سوجھی کہ صفائی دینے کے لیے ایک جلسے کا انعقاد کر بیٹھا وہ تو منتخب ہوچکا تھا یعنی منتخب شہنشاہ بن چکا تھا ،کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا تھا، سیاں بھٹے کو توال تو ڈر کا ہے کا۔

اس جلسے میں حلقہ کے سارے بی ڈی ممبر بلائے گئے تھے۔عوام کو صرف سامنے پکنے والی’’دیگیں‘‘ کھینچ کر لائی تھیں، جن کی خوشبوئیں فضا کو معطر کررہی تھیں۔

تلاوت ہوئی،جو ہر روا نا روا سے پہلے ہوتی ہے، پھر ایک نعت ہوئی، اس کے بعد نظم ونثر میں ایوب خان اور بنیادی جمہوریت اور اس ممبر کے گن گائے گئے اور اس کے بعد منتخب نمایندے ایم پی اے صاحب اسٹیج پر تشریف لاکر مائیک فرما ہوگئے۔

فرض اور واجب یعنی ایوب خان اور بنیادی جمہوریت کی تعریف ادائیگی کے بعد بولے، کچھ بدنیت، بدبخت اور بد زمان لوگ جو اس قوم اور ملک وملت کے دشمن ہیں، میرے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلا رہے ہیں کہ میں نے سارے ووٹ خریدے ہیں، آپ سامنے بیٹھے ہیں، بتائیں کہ میں نے آپ میں سے کس کا ووٹ خریدا ہے؟

یا آپ نے مجھے ووٹ بیچا ہے۔ بتائیں، بتائیں، ایمانداری سے بتائیں کہ میں نے کسی کا بھی ووٹ خریدا ہے یا آپ میں سے کسی نے مجھے ووٹ بیچا ہے،جب آپ نے بیچا نہیں ہے تو میں نے خریدا کیسے؟

جھوٹ بولتے ہیں، بکواس کرتے ہیں، یہ لوگ۔یہ غدار ہیں ،ملک دشمن ہیں، شرپسند ہیں بلکہ عوام دشمن بھی ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ ملک ولولہ انگیز قیادت کی نگرانی میں اور ببنیادی جمہوریت کی برکت سے ترقی کرے۔

اس زمانے میں کنونشن مسلم لیگ والے، ادب و احترام سے ایوب خان کا نام نہیں لیتے تھے، ولولہ انگیز قیادت کہتے تھے جیسے آج کل لوگ مارے ادب و احترام کے بانی کا نام استعمال کرتے ہیں۔

خیر تو ہمارے نئے نویلے اور میرٹ پر آئے ہوئے وزیراعلیٰ نے برسر عام میرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرٹ بردار لوگوں کو تقرری کے آرڈر دیے۔ 

اس قسم کے مظاہرے پولیس والے بھی کرتے ہیں، جب وہ کسی ملزم کو ’’جسمانی ریمانڈ‘‘ میں اچھی طرح’’نرم‘‘ کرنے کے بعد عدالت میں پیش کرتے ہیں تو وہ اگر طوطے کی طرح رٹا ہوا یہاں بیان دہرائے تو ضمانت ہوجاتی ہے اور اگر کچھ اور بولے تو جیسے ہی ہتھکڑی کھلتی ہے، دوسرے ہاتھ میں کسی دوسری دفعہ کی ہتھکڑی پڑجاتی ہے۔

ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ درجہ چہارم و پنجم کی تقرریاں کیسے ہوتی ہیں، وہ اس’’میرٹ‘‘ پر آتے ہیں جو جمہوری شہنشاہوں کی جیب میں ہوتا ہے۔ تبادلوں کی اپنی الگ داستان ہے، جو الگ الگ مقامات کے لیے الگ الگ ہے۔

لیکن اگر صوبے کے وزیراعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ میرٹ ہے تو پھر میرٹ ہی ہے کیونکہ ان مناصب پر فائز لوگ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ’’مردہ‘‘ زندہ کیسے ہوگیا، ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف کے ’’جنتر منتر ڈیپارنمٹ‘‘ نے یہ چمتکار دکھایا ہو۔

مقبول خبریں