بچے آخر پڑھتے کیوں نہیں؟

فرمان نواز  ہفتہ 24 جنوری 2015
ہر کلاس میں بہت کم ہی ایسے بچے ہوتے ہیں جو پڑھائی پر دھیان دیتے ہیں، اکثر بچے بس خانہ پوری کرنے اسکول آتے ہیں۔ فوٹو فائل

ہر کلاس میں بہت کم ہی ایسے بچے ہوتے ہیں جو پڑھائی پر دھیان دیتے ہیں، اکثر بچے بس خانہ پوری کرنے اسکول آتے ہیں۔ فوٹو فائل

راحت فتح علی خان کا گانا ’آؤ پڑھاؤ‘ سن کر تو ایسا لگتا ہے کہ سماج میں بہت سے لوگ تعلیم کے زیور کے لئے ترس رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ گورنمنٹ اسکولوں میں مفت تعلیم کے باوجود بے شمار بچے اب بھی اسکولوں میں داخلے سے محروم ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سماج کے نچلے طبقے کو مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ اور بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ غریب والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کام پر بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کا بنیادی مسئلہ روزی روٹی ہے۔ یہ مسئلہ حل کئے بغیر پڑھے لکھے پاکستان کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔


یہ دیکھ کر اور بھی حیرانی ہوتی ہے کہ جن بچوں کواسکول کالجوں میں پڑھنے کے مواقع مل رہے ہیں وہ کیوں تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حال ہی میں جس ادارے میں میں پڑھا رہا ہوں وہاں ایک ہی کلاس کے ماسوائے تین بچے باقی سارے طلباء بورڈ سے پہلے اسکول کے امتحان میں فیل ہوگئے۔ مہینہ بعد دوبارہ اُسی کورس میں آٹھ کے بجائے چار مضامین میں امتحان لیا گیا تو دوبارہ 24 بچے فیل ہوگئے۔ ہم نے بہت غور کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کوئی غلطی کررہے ہوں، لیکن یہ بات بھی حیران کن تھی کہ بچوں نے کچھ لکھا ہی نہیں تھا۔ وہ فیل ہوکر ہمیں کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں یا اپنے والدین کو؟ ہم نے اپنی سالانہ اور ماہانہ پلانگ دیکھی تو اُس میں بھی ایسا نہیں تھا کہ بچوں پر بہت زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہو۔

ہر کلاس میں بہت کم ہی ایسے بچے ہوتے ہیں جو پڑھائی پر دھیان دیتے ہیں، اکثر بچے بس خانہ پوری کرنے اسکول آتے ہیں۔ اسکول آئے، کلا س میں بیٹھے، کچھ سُنا اور اَن سُنا کردیا اور چھٹی کے بعد گھر واپس چلے گئے۔ نا لائق بچوں کو کلاس میں دیکھ کر غصہ تو آتا ہے لیکن دوسری طرف یہ اطمینان ضرور ہوتا ہے کہ چلو یہ بچے اسکول میں ہی ہیں، آوارہ گردی تو نہیں کررہے۔ کچھ نہ کچھ لکھ پڑھ ہی لیں گے۔ بس یہ سوچ کر دل مطمئن ہوتا ہے۔ لیکن یہ سوال تو پھر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ بچے آخر پڑھتے کیوں نہیں؟

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان بچوں کو موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی بے تحاشا سہولیات میسر ہیں، جن کا وہ استعمال صرف اس لئے کرتے ہیں کہ انٹرٹینمنٹ کی کوئی نئی شکل کا مزہ لیا جائے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور رکھا جائے، بے شک انہیں نئی چیزیں دیکھنے کا موقع ملنا چاہئے لیکن ضرورت سے زیادہ کسی بھی چیز کا استعمال نقصان دہ ہے۔

ایک وقت تھا کہ بچوں کو روزاسکول میں سیکھنے کو نئی نئی باتیں ملتی تھی لیکن اب یہ نئی نسل تو اُستاد کے مقابلے میں زیادہ معلومات رکھتی ہے۔ اُن کو ہم فیکٹرائیزیشن اورماخذ تو سکھادیتے ہیں لیکن اُس کے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا ہوتا ہے۔ ریاضی، فیزکس اور کیمسٹری کے فارمولے اُن کو وقت کا ضیاع معلوم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی آرٹس کے مضامین میں بھی بچوں کے اچھے نمبر نہیں آتے۔ چلوں کچھ بچے تو کھیل کود میں نام کمالیتے ہیں. جیسے میرے دوطالب علم پاکستان انڈر 19 کے کرکٹ اور فٹبال ٹیموں میں کھیل رہے ہیں، لیکن کچھ بچے تو کچھ کرتے ہی نہیں ہیں۔

یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ بچے تعلیم میں دلچسپی کیوں نہیں رکھتے؟ جو بات میری سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ ہر بچہ پڑھائی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ خاص کر جب اساتذہ اور والدین اُن سے اچھے مستقبل کے لئے نہ صرف اُمیدیں لگائے بیٹھے ہوں بلکہ بار بار اُن کو اچھے مستقبل کی ڈیکٹیشن بھی دی جاتی ہو۔ قابل بچہ ابتدائی سالوں میں یہ سب کچھ  سہہ لے گا لیکن بعد میں پرفارمنس پریشر کی وجہ سے اُ س کی کارکردگی بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ اکثر والدین بھی یہی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھائی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ لیکن نا اساتذہ اور نا ہی والدین اِس عدم دلچسپی کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔

اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ایسے مسائل پر تحقیقی ادارے تحقیق کا آغاز کریں۔ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے طلباء، اساتذہ اور والدین کے درمیان ایک میٹینگ کی جائے اور اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ بچوں پر پڑھائی کا بوجھ لادنے سے گزیز کیا جائے۔ اگر بچوں کو بلا وجہ مستقبل کے خواب دیکھا دیکھا کر پریشان کیا جا رہا ہے تو اُس کا سدِباب کیا جائے اور اگر واقعی سائنسی ترقی کی وجہ سے معاشرے کے دیگر پہلووں پر اثر پڑرہا ہےتو نئے معاشرے کے خدوخال وضع کئے جائیں اور طلباء کے نئے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے نئی تعلیمی منصوبہ بندی کی جائے۔ پھر شاید ایک پڑھے لکھے پاکستان کا خواب پورا ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔