چھوڑ کر پڑھائی خوب کی کمائی

عتیق احمد عزمی  اتوار 25 اگست 2013
کئی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں جہاں ترقی اور کام یابی کی مثال بننے والے افراد نے جیسے ہی اپنی جاری تعلیم کو خیرباد کہا تو اپنے اپنے شعبوں میں عروج حاصل کیا فوٹو : فائل

کئی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں جہاں ترقی اور کام یابی کی مثال بننے والے افراد نے جیسے ہی اپنی جاری تعلیم کو خیرباد کہا تو اپنے اپنے شعبوں میں عروج حاصل کیا فوٹو : فائل

اگر ہم دنیا میں معاشی اور سماجی طور پر کام یاب لوگوں پر نظر دوڑائیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان کی کام یابی کے پیچھے جہاں بہتر قوت فیصلہ اور قسمت کا موافق ہونا ہے تو دوسری جانب ایسے حالات کی تشکیل بھی ہے جو بنظر غائر مناسب نظر نہیں آرہے ہوتے، لیکن یہی حالات یا وجوہات ان کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کا باعث بن جاتے ہیں نہ صرف مثبت تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں، بلکہ ان مراحل سے بھی بچا لے جاتے ہیں جو وقت کا ضیاع کررہے ہوتے ہیں۔

لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ حالات، واقعات اور عوامل جو انسان کی زندگی میں تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں، ان میں صرف تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس سے دوری کو کسی بھی صورت میں حالات بدلنے کے جواز میں پیش نہیں کیا جاسکتا چاہے۔ یہ تبدیلی کتنی بھی کام یابیوں اور کام رانیوں سے سجی ہوئی ہو بل کہ تعلیم کو تو مروجہ ترقی کے معیار میں کلیدی حیثیت دی جاچکی ہے، لیکن ترقی اور کام یابی کے حوالے سے ہماری اس موجودہ دنیا میں گذشتہ دو تین دہائیوں میں کئی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں جہاں ترقی اور کام یابی کی مثال بننے والے افراد نے جیسے ہی اپنی جاری تعلیم کو خیرباد کہا تو اپنے اپنے شعبوں میں وہ عروج حاصل کیا کہ انتہائی تعلیم یافتہ اور کام یاب افراد بھی ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔

زیرنظر تحریر میں موجودہ عہد کی کچھ ایسی ہی ’’زندہ ‘‘ شخصیات کی کام یابیوں کا احاطہ کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے فطری رجحان یا میلان طبع کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے راستے خود تلاش کیے اور جب ان تعلیمی دور کے ان ’’نالائق‘‘ افراد نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو حیرت انگیز طور پر یہ ’’نالائق افراد‘‘ کرۂ ارض کے کروڑوں لوگوں کی امیدوں کا محور اور محبتوں کا مرکز بن گئے۔

٭بل گیٹس


مائیکرو سافٹ کارپوریشن کے مالک اور دنیا ئے کمپیوٹر کے نابغۂ روزگار شخص بل گیٹس کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ بل گیٹس اور ان کے دوست پال ایلن کی کوششوں سے 1975میں مائیکرو سافٹ کے نام سے شروع کیا جانے والا ادارہ جو بعدازاں مائیکرو سافٹ کارپوریشن میں تبدیل ہوگیا۔ کمپیوٹر سافٹ ویئر اور آپریٹنگ سسٹم کے حوالے سے گذشتہ چار دہائیوں سے اپنی دھاک جمائے ہوئے ہے۔

واشنگٹن کے مضافاتی علاقے سیٹل میں1955میں جنم لینے والے ’’ولیم ہنری گیٹس‘‘ جنہیں دنیا کے امیر ترین فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے، انہوں نے1973میں سیٹل شہر کے مقامی اسکول سے گریجویشن کیا، جس کے بعد انہوں نے کیمبرج میں واقع ہارورڈ یونیورسٹی کے ذیلی ادارے ’’ہارورڈکالج‘‘ میں داخلہ لیا۔ داخلے کے لیے منعقد کیے جانے والے ’’SATٹیسٹ‘‘ میں انہوں نے 1600میں سے1590شان دار نمبر حاصل کیے۔

لیکن چوں کہ یہ دونوں دوست اوائل عمری ہی سے کمپیوٹر پروگرامنگ اور سافٹ وئیر کی دنیا میں کھوئے رہتے تھے، چناںچہ ہارورڈ کالج میں جانے کے بعد بھی بل گیٹس اور ان کے دوست کمپیوٹر پروگرامنگ میں انقلاب لانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ دونوں نے تعلیم پر توجہ کم کردی اور نتیجے کے طور پر بل گیٹس کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ہارورڈ کالج کو خیرباد کہنا پڑا۔ آج بھی ہارورڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر بل گیٹس کے نام کے آگے ’’نامکمل گریجویشن طالب علم‘‘ کی سطر لکھی ہوئی ہے۔

٭لیری ایلیسن


دنیا کے صف اول کے ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم کے ادارے ’’اوریکل‘‘ کے چیف ایگزیکٹیو اور بانی لیری ایلیسن کا شمار بھی ان کام یاب افراد میں ہوتا ہے جو اپنی مصروفیات کے باعث تعلیم کو ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

نیویارک سٹی میں1944میں پیدا ہونے والے لیری ایلیسن کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے ہے اور وہ اس وقت دنیا کے نویں امیر ترین شخص ہیں۔ 1977میں محض دو ہزار ڈالر سے اوریکل کارپوریشن کی بنیاد رکھنے والے لیری ایلسن نے ریاست Illinois کی جامعہ Illinois at Urbana–Champaignسے محض 20سال کی عمر میں تعلیم سے ناتا توڑ لیا تھا۔

اس وقت وہ دسویں درجے میں پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ شکاگو میں داخلہ لیا، لیکن صرف ایک ٹرم کے بعد وہاں سے بھی ان کا دل اچاٹ ہوگیا اور لیری ایلیسن شمالی کیرولینا منتقل ہوگئے اور کاروباری زندگی میں مصروف ہوگئے۔ اس طرح دنیا کو کمپیوٹر ہارڈویر، انٹرپرائز سافٹ ویر اور ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم دینے والے لیری ایلیسن مروجہ تعلیم کے حصول سے نابلد رہتے ہوئے بھی ایک ناقابل فراموش شخصیت بن چکے ہیں۔

٭لیڈی گاگا
رنگا رنگ شخصیت کی مالک گلوکارہ ’’لیڈی گاگا‘‘ کا اصل نام ’’اسٹفنی جاون اینجیلا جرمانوٹو‘‘(Stefani Joanne Angelina Germanotta) ہے۔ 27سالہ ’’لیڈی گاگا‘‘ کا شمار دنیا کی صف اول کی امیر ترین گلوکاراؤں میں کیا جاتا ہے۔

نیویارک میں1986میں پیدا ہونے والی لیڈی گاگا کے کئی گانے اور ویڈیو البم عالمی سطح پر شہرت رکھتے ہیں۔ لیڈی گاگا ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ تاہم اس کے باوجود ان کے والد نے 17سالہ لیڈی گاگا کو نیویارک یونیورسٹی کے ’’ٹش اسکول آف آرٹس‘‘ میں داخل کرادیا۔ تاہم اس دوران لیڈی گاگا نے محسوس کیا کہ وہ اپنے دیگر ہم جماعتوں سے زیادہ ذہین اور بہتر تخلیقی صلاحیتوں کی حامل ہے۔

چناں چہ اس نے تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر موسیقی کے شعبے میں عملی قدم رکھ دیا پانچ گریمی ایوارڈز، تیرہ MTVویڈیو میوزک ایوارڈز، نیویارک سے تعلق رکھنے والے کیبل نیٹ ورکVH1کے مطابق دنیا میں موسیقی کی سو بہترین خواتین میں چوتھے نمبر پر فائز، فوربس میگزین کی جانب سے 2010 سے لگاتار2013 تک دنیا کی سو موثر ترین خواتین میں شامل اور ٹائم میگزین کی جانب سے موثر ترین مقام پر فائز لیڈی گاگا روایتی تعلیم کو خیرباد کہنے کے باوجود آج نوجوانوں کی دلوں کی دھڑکن ہیں۔

٭جیمز کیمرون


ٹائیٹنک، اوتار، دی ٹرمینٹر جیسی معرکتہ الآرا فلموں کے خالق جیمز کیمرون کا تعلق کینیڈا سے ہے۔ 1954میں پیدا ہونے والے آسکر ایوارڈ یافتہ جیمز کیمرون ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایک فلم ڈائریکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ہدایت کار، ایڈیٹر، اسکرین رائٹر، ماہر ماحولیات، مہم جو اور مصور کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔

بالخصوص 25 مارچ 2012 کو سمندر کے اندر دنیا کے گہرے ترین مقام کی عکاسی اور مہم جوئی نے انہیں ایک نہایت اہم مہم جو بھی ثابت کردیا ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اپنی تمام تر کام یابیوں کے باوجود جیمز کیمرون مروجہ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ اگرچہ ان کے والدین جب 1971میں کینیڈا کے شہر اونٹاریو سے امریکا منتقل ہوئے تو دو سال بعد 1973میں جیمز کیمرون کو کیلی فورنیا میں واقع Fullerton کالج میں فزکس کے شعبے میں داخل کرادیا گیا، لیکن جلد ہی انہوں نے فزکس کا مضمون تبدیل کرکے انگریزی کا مضمون لے لیا، لیکن ایک برس بعد ہونے والے امتحان میں شریک نہ ہوئے اور دوسری سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے، جن میں ٹرک ڈرائیوری اور سیلز مین کی نوکری بھی شامل تھی۔

تاہم اس دوران وہ فلم میکنگ سے متعلق اپنی معلومات میں ازخود اضافہ کرتے رہے، چناں چہ کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے تعلیم کے بجائے اپنی خداداد صلاحیتوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور مشہور زمانہ فلم ’’فرسٹ بلڈ پارٹ ٹو‘‘ کا اسکرین پلے اداکار سلوسٹر اسٹالون کے ساتھ مشترکہ طور پر تحریر کیا، جس کے بعد ٹرمینیٹر جیسی فلم پردہ سیمیں کی زینت بنا کر دنیا بھر سے اپنی صلاحتیں منوالیں اور آج بلاشبہہ جیمز کیمرون کا شمار فلمی دنیا کے چند ذہین ترین دماغوں میں کیا جاتا ہے۔

٭مارک زوکربرگ


کمپیوٹر کی دنیا میں یوں تو روزانہ ہی نت نئی اختراعات سامنے آتی رہتی ہیں لیکن ان اختراعات میں فیس بک پروگرام ایک ایسا اضافہ ہے جس نے سماجی تعلقات بنانے کے اچھوتے انداز کو روشناس کرایا ہے۔

اس منفرد پروگرام کے خالق 29 سالہ ’’مارک زوکر برگ‘‘ ہیں۔ انہوں نے یہ کارنامہ 2004میں اسوقت انجام دیا تھا جب وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ذیلی ادارے ہارورڈ کالج میں زیرتعلیم تھے۔ بنیادی طور پر مارک زوکر برگ نے نفسیات کے شعبے میں داخلہ لیا تھا۔ تاہم کمپیوٹر پروگرامنگ ان کا اولین شوق تھا۔ چناں چہ انہوں نے دوران تعلیم اپنے شو ق کے مطابق کمپیوٹر پروگرامنگ ہی کو اولین ترجیح دی اور اسی شوق کا نتیجہ فیس بک کی شکل میں آج دنیا کے سامنے ہے اور بالآخر فیس بک کی مقبولیت کے باعث مارک زوکربرگ ہارورڈ کالج سے ناتا توڑنے پر مجبور ہوگئے۔

2004 میں انہوں نے کیلی فورنیا کے علاقے Palo Alto میں ’’فیس بک کارپوریشن‘‘ کی بنیاد ڈالی اور آج اپنی انہی ذاتی کوششوں اور کاوشوں کے سبب مارک زوکر برگ کو دنیا کے سب سے کم عمر دولت مند ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ واضح رہے کہ جب مارک زوکر برگ 2011میں ہارورڈ کالج میں بحیثیت چئیرمین اور چیف ایگزیکٹیو ’’فیس بک کارپوریشن ‘‘ کے خطاب کرنے کے لیے مدعو کیے گئے تو ان کی سابق مادر علمی کے طالب علموں نے ان کا استقبال ایک سپر ہیرو کے طور پر کیا تھا۔

٭مائیکل ڈیل


پاکستان جیسے ملک میں جہاں متوسط طبقے کے زیر استعمال کمپیوٹرز زیادہ تر استعمال شدہ ہوتے ہیں ’’ڈیل‘‘ (Dell)کمپنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، کیوں کہ ڈیل کارپوریشن کے استعمال شدہ کمپیوٹر پاکستان کی مارکیٹ میں ارزاں اور وافر تعداد میں موجود ہیں۔

اس کمپنی کے مالک ’’مائیکل ڈیل‘‘ کا شمار بھی ان امیر و کبیر کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے یونیورسٹی کی تعلیم کو نامکمل چھوڑ کر کاروبار شروع کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا 1965میں پیدا ہونے والے مائیکل نے آسٹن میں واقع جامعہ ٹیکساس میں پری میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا لیکن اس دوران وہ اپنے طبعی رجحان کے باعث کمپیوٹر اشیاء کی خریدوفروخت سے بھی وابستہ رہے اور رفتہ رفتہ اسی شعبے کی جانب ان کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔

بالآخر وہ میڈیکل کی تعلیم سے دست بردار ہوگئے اور محض 19برس کی عمر میں اپنے ذاتی کمپیوٹر ہارڈویر کے کاروبار کی بنیاد رکھ دی جو محض چند سال بعد 1984میں ’’ڈیل کارپویشن‘‘ کی شکل اختیار کرگئی۔ مشہور رسالے ’’فاربس‘‘کے مطابق مائیکل ڈیل اس وقت دنیا کے اکتالیسویں امیر فرد ہیں۔

٭شیلڈن ایڈلسن


کسینو اور جوئے کے حوالے سے امریکا کے مشہور زمانہ شہر لاس ویگاس کے ارب پتی تاجرSheldon Adelson محض 19برس کی عمر میں تعلیم کو خیرباد کہہ کر کاروبار کی دنیا میں داخل ہوگئے تھے۔

سیاحتی سرگرمیوں کے بین الااقوامی ادارے Las Vegas Sands Corp کے مالک اور دنیا کے 24ویں امیر ترین شخص کی حیثیت پر فائز شیلڈن ایڈلسن سٹی کالج نیویارک کے طالب علم تھے۔ تاہم اپنی افتاد طبع کے باعث انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر کاروباری سرگرمیاں شروع کردیں اور آج شیلڈن ایڈلسن کا شمار اپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی کرنے والے کام یاب تاجروں میں ہوتا ہے۔

٭ٹائیگر وڈز


کھیلوں کی دنیا کا ایک بڑا اور اہم نام ٹائیگر وڈ ز کا ہے۔ گولف میں اپنی مہارت کے بل بوتے پر دنیا کے امیر ترین کھلاڑیوں میں شامل موجود ہ عالمی نمبر ایک ٹائیگر وڈز کا تعلق امریکا کی ریاست کیلیفورنیا سے ہے۔

37 سالہ ٹائیگر وڈز کو ان کی گولف میں مہارت کے باعث امریکا کی کئی نام ور جامعات نے انہیں اسکالر شپ دینے کی پیشکشیں کیں۔ ان پیشکشوں کے جواب میں ٹائیگر وڈز نے1994میں کیلیفورنیا کی جامعہ اسٹین فورڈ کے شعبۂ ’’معاشیات ‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران ٹائیگروڈز نے اگرچہ اپنی جامعہ کو گولف کے مقابلوں میں تو بہت کام یابیاں دلائیں، لیکن اپنی پڑھائی سے انصاف نہ کرسکے اور بالآخر کھیل کی محبت اور مصروفیت کے باعث ٹائیگروڈز بھی ان شخصیات میں شامل ہوگئے، جنہوں نے اپنے شوق کے آگے تعلیم کو خیرباد کہتے ہوئے اپنے خوابوں کی تعبیر اپنی خداداد صلاحیتوں میں تلاش کی۔

٭ٹام ہینکس

تعلیم کو خیرباد کہ کر اپنے پسندیدہ شعبے میں قسمت آزمائی کرنے والوں میں اداکار ٹام ہینکس کا نام بھی شامل ہیں۔

1956میں پیدا ہونے والے ٹام ہینکس نے بے شمار فلموں میں اپنی عمدہ اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ ٹام ہینکس نے ابتدائی تعلیم ہیورڈ، کیلی فورنیا کے Chabotجونئیر کالج میں حاصل کی جس کے بعد انہوں نے کیلیفورنیا کے شہر Sacramentoکی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

اس دوران انہوں نے ریاست اوہائیو میں منعقد کیے جانے والے ’’گریٹ لیک شیکسپیر فیسٹیول‘‘ میں شرکت کی۔ اس فیسٹیول میں مسلسل شرکت کے باعث ٹام ہینکس نے1980میں یونیورسٹی سے اپنا تعلق توڑ لیا اور اداکاری میں اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے نیویارک چلے آئے جہاں وقت نے انہیں ایک کام یاب اداکار ثابت کردیا ہے۔

٭ہیریسن فورڈ


امریکا سے تعلق رکھنے والے شہرۂ آفاق اداکار ہیریسن فورڈ کا شمار معاوضے کے لحاظ سے دنیا کے منہگے ترین فن کاروں میں کیا جاتا ہے ’’انڈیانا جونز‘‘ فلم سیریز اور ’’اسٹار وار‘‘ فلموں سے شہرت پانے والے ہیریسن فورڈ1942میں شکاگو میں پیدا ہوئے اور آج 71سال کی عمر میں بھی چاق و چوبند اداکار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

1960میں انہوں نے ریاست Wisconsinکے علاقے Riponکے ’’ریپون کالج‘‘ کے شعبہ نفسیات اور انگریزی زبان میں داخلہ لیا۔ تاہم انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ ان کا فطری رجحان روایتی تعلیم کے بجائے اداکاری کی جانب ہے چناں چہ ہیریسن فورڈ نے پڑھائی چھوڑ کر ہالی وڈ کی راہ لی اور آج انہیں دنیا ایک کام یاب اور منفرد اداکار کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔

٭اسٹف ورتھی مر


اسرائیل سے تعلق رکھنے والے ’’اسٹف ورتھی مر‘‘ 1926میں پیدا ہوئے اور اس وقت بھی اسرائیل کی سب سے بڑی دھاتی کمپنی ’’انٹرنیشنل میٹل ورک کمپنیز‘‘ کے گروپ IMCکے اعزازی چئیرمین ہیں۔

1937میں جرمنی سے تل ابیب منتقل ہونے کے بعد اسٹف ورتھی مر نے مقامی اسکولTel-Nordau میں داخلہ لیا، لیکن عدم دل چسپی کے باعث16سال کی عمر میں کیمروں کی مرمت کی ایک ورکشاپ میں نوکری کرلی، جہاں انہوں نے نازک اور باریک عکسی کاموں کے حوالے سے اوزاروں کا استعمال سیکھا اور یہی شعور انہیں اپنے ذاتی کاروباری ادارے کی تخلیق کے لیے مہمیز لگانے کا باعث بنا۔

1952میں انہوں نے اپنے گھر کے پچھلے حصے میں ایک چھوٹا سا دھاتی اشیاء کی کٹنگ یا تراش خراش کے آلات بنانے کا کارخانہ شروع کیا، جس کی آج ISCARکے نام سے دنیا کے پچاس ممالک میں شاخیں ہیں اور یہ کمپنی فی زمانہ دھاتی اشیاء کی کٹنگ کے آلات کی فروخت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کا درجہ رکھتی ہے، جس کے خریداروں میں جنرل موٹرز اور فورڈ جیسے ادارے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اسٹف ورتھی مرکا 1969میں تخلیق کردہ ادارہ ’’بلیڈٹیکنالوجی لمیٹڈ‘‘ جیٹ انجن اور گیس ٹربائن کی تیاری کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس ادارے کی خدمات کا دائرہ کار رولس رائس، سولر ٹربائن، جنرل الیکٹرک، ٹیک اسپیس ایرو جیسے اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔

٭رچرڈ لی


ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے ’’رچرڈ لی‘‘ ایک کام یاب تاجر ہیں۔ چھیالیس سالہ رچرڈ لی کے پاس ہانگ کانگ اور کینیڈا کی دہری شہریت ہے، جو ان کے کاروبار کی ترقی میں نہایت ممدو مددگار ثابت ہوئی ہے۔ رچرڈ لی نے ابتدائی تعلیم ہانگ کانگ کے ’’سینٹ پال کو ایجوکیشنل کالج‘‘ سے حاصل کی جس کے بعد انہیں ان کے مالدار والد Li Ka-Shingنے مزید تعلیم کے لیے کیلیفورنیا کے ’’مینلو اسکول‘‘ بھیج دیا، لیکن دورانِ تعلیم رچرڈ لی تعلیم حاصل کرنے سے زیادہ پیسے کمانے کی فکر میں لگے رہے۔

اسی فکر میں انہوں نے ایک ریسٹورنٹ میں پارٹ ٹائم ملازمت بھی شروع کردی اور گولف کورس میں بھی خدمات انجام دینے لگے۔ تاہم اسکول سے فارغ ہونے کے بعد رچرڈلی نے ’’اسٹین فورڈ یونیورسٹی‘‘ میں ’’کمپیوٹر انجنیئرنگ ‘‘ میں داخلہ لے لیا، لیکن ڈگری کے حصول سے قبل ہی تین سال بعد انہوں نے پڑھائی کو خیربادکہ کر کاروبار پر بھرپور توجہ دی اور آج رچرڈ لی کا شمار دنیا کے صف اول کے پچاس امیر افراد میں کیا جاتا ہے۔

رچرڈ لی کی کمپنی ’’پیسیفک سینچری سائبر ورک‘‘ (PCCW) ہانگ کانگ میں ٹیلی کام کے شعبے میں مرکزی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ رچرڈ لی کا ’’پیسیفک سنچری گروپ‘‘ ایشیا پیسفک ممالک سنگاپور، ہانگ کانگ اورجاپان میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے اولین گروپ میں شمار کیا جاتا ہے۔

٭مکی جگتیانی


انڈیا کے شہرمدراس سے تعلق رکھنے والے مکی جگتیانی اس وقت دبئی میں رہائش پذیر ہیں۔

ساٹھ سالہ مکی جگتیانی کا روز مرہ کے گھریلو سامان صرف کا کاروبار Landmarkکے نام سے پورے خلیج کی عرب ریاستوں میں پھیلا ہوا ہے۔ مکی جگتیانی نے ابتدائی تعلیم مدراس، ممبئی اور بیروت میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ لندن منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے ’’لندن اکائونٹنگ اسکول‘‘ میں داخلہ لیا، لیکن اس سلسلے کو اپنی کاروباری طبیعت کے باعث جاری نہ رکھ سکے۔

اس فیصلے کے فوری بعد مکی جگتیانی نے ابتدائی طور پر لندن میں ٹیکسی بھی چلائی۔ تاہم کچھ عرصے بعد انہوں نے روزمرہ کے سامان صرف کا کاروبار شروع کردیا اور آج اس وقت ان کے ڈپارٹمنٹل اسٹور Landmark کی خلیجی ریاستوں، انڈیا، اسپین اور چین میں ایک ہزار سے زاید شاخیں کام کررہی ہیں، جن میں اٹھائیس ہزار سے زاید افراد برسرروزگار ہیں۔

٭ایکا باتستا


برازیل سے تعلق رکھنے والے 56سالہ ’’ایکا باتستا‘‘ ایک کام یاب تاجر ہیں۔

جہاز رانی، کان کُنی اور توانائی کی چھے مختلف کمپنیوں کے EBXگروپ کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ایکا باتستا کی عمر جب 17برس تھی تو ان کے والدین یورپ منتقل ہوگئے۔ اس دوران ایکا باتستا نے1974میں جرمنی کیRWTH Aachenیونیورسٹی میں ’’دھات کاری‘‘ کی سائنس کے شعبے میں داخلہ لے لیا۔

تاہم ان کے والدین اس اثنا میں دوبارہ برازیل چلے گئے اور اس طرح ایکا باتستا کا تعلیمی تسلسل ٹوٹ گیا، لیکن دوسری جانب ایکا کی یہی خواہش بھی تھی کیوں کہ ان کا رجحان کاروبار کی جانب تھا۔ چناں چہ انہوں نے برازیل میں اپنی کاروباری سرگرمیاں شروع کردیں اور 2012 کے اختتام تک ایکا باتستا کا شمار برازیل کے سب سے امیر شخص بن گئے تھے اور دنیا کے ساتویں امیر ترین فرد بن گئے۔

٭تھامس ہوفا


جرمنی میں میڈیا آئیکون کی حیثیت رکھنے والے تھامس ہافا نے 19سال کی عمر میں تعلیم کو چھوڑ کر نوکری شروع کردی تھی۔ تھامس ہافا کا بچپن ہی سے کاروبار کی جانب رجحان تھا، جس کا عملی اظہار انہوں نے 21سال کی عمر میں IBM کی ملازمت کے دوران گھروں پر جاکر اشیاء فروخت کرنے والے سیلزمین کے طور پر کام کرکے کیا تھا۔

اس وقت 62 سالہ تھامس ہافا جرمنی کی مشہور ایرلائن ’’ایر انڈیپنڈنٹ‘‘ کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور جرمنی کی امیر ترین شخصیات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

٭گیب لوگانیوویل


کمپیوٹر ویڈیو گیمزڈیولپمنٹ اور ان کی آن لائن ڈسٹری بیوشن کی سب سے بڑی کمپنی Valveکارپویشن کے بانی ’’گیب لوگا نیو ویل‘‘ کا شمار ارب پتی کاروباری حضرات میں ہوتا ہے۔

بل گیٹس کے مانند ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلے کے باوجود تعلیم کو خیرباد کہنے کے بعد انہوں نے بل گیٹس ہی کی کمپنی مائیکروسافٹ میں تیرہ برس تک ملازمت کی۔ 1996میں انہوں نے اپنی کمپنی Valveقائم کی اور کمپیوٹر ویڈیو گیمز اور سافٹ ویر ڈیولپمنٹ میں انقلاب لے آئے 2.5بلین ڈالر کی مالیت کے اثاثے رکھنے والی یہ کمپنی گیب لوگا نیوویل کے کاروباری ذہن اور محنت کا شاہ کار ہے۔

٭جاوید کریم


کیا آپ کو معلوم ہے یو ٹیوب پر سب سے پہلی ویڈیو کس نے اپ لوڈ کی تھی؟ یہ کارنامہ بنگلادیش سے تعلق رکھنے والے34سالہ جاوید کریم نے 23اپریل2005 کو انجام دیا تھااور جاوید ہی یوٹیوب کے تین مشترکہ بانیوں میں سے ایک تھے۔

بنگلادیشی والد نعیم الکریم کے ہاں جرمنی میں پیدا ہونے والے جاوید کریم1992میں امریکا منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے جامعہ Illinois at Urbana-Champaign میں داخلہ لیا، لیکن ای کامرس کے ادارے PayPalمیں نوکری کے باعث تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ تاہم2011 میں انہوں نے کمپیوٹر سائنس کے مضمون میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور جب یوٹیوب کو گوگل نے خرید لیا تو محض 21سال کی عمر میں تعلیم کو خیرباد کہنے والے جاوید کریم کو اس وقت کے حساب سے 64ملین ڈالر رقم حاصل ہوئی جس نے انہیں دنیا کے امیر افراد کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔