لوہے کے خول

ڈاکٹر عفان قیصر  ہفتہ 24 جنوری 2015
www.facebook.com/draffanqaiser

www.facebook.com/draffanqaiser

کان بڑے،سر چھوٹے، ذہنی طور پر معذور ، شاہ دولے کے چوہے۔ایک تو ان کے سر چھوٹے ہوتے ہیں،یعنی یہ microcephaly کا شکار ہوتے ہیں،دوسرا کیوں کہ ان کا سر کا حجم  چھوٹا رہ جاتا ہے،دماغ بھی پوری طرح نشوونما نہیں پاتا،تو یہ ذہنی طور بھی معذور رہ جاتے ہیں۔ایک مزار کے دالانوں میں ان معذوروں کی کثرت پائی جاتی ہے۔

میڈیکل کی روح سے چند بیماریاں ایسی ہیں،جن میں سر کا خول( skull) بڑا نہیں ہوتا،اور ذہن چھوٹا رہ جاتا ہے،مگر یہاں یہ بات چونکا دینے والی ہے کہ جہالت کی وجہ سے ان دالانوں میں موجود کئی معذور میڈیکل کی روح سے معذور نہیں ہوتے،ان کے سر پر انھی کے والدین،کسی  بھیانک منت کی مد میں لوہے کی دیگچی یا لوہے کا خول چڑھا دیتے ہیں،یوں ان کا سر چھوٹا رہ جاتا ہے، اور ان کا دماغ بڑھ ہی نہیں پاتا اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت فقط کھانے پینے اور چند دیگر بنیادی ضروریات تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔

جو ان کی یہ ضروریات پوری کرتے ہیں یا پیار سے ان کو تھپکی دیتے ہیں،ان کے لیے بس یہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کرتے ہیں،ان معصوموں کے لیے یہی دالان کل کائنات ہیں۔ان کو نہ تو اس سے باہر کی دنیا سے  نہ ہی کوئی لینا دینا  ہوتاہے اور نہ ہی کوئی سروکار،بس انھیں ان کی زندہ رہنے کی بنیادی ضروریات چاہیے ہوتی ہیں،بدلے میں وہ بے ضرر سے انسان بن کر دعائیں دیتے ہیں،مذاق کا باعث بنتے ہیں،لوگوں کی جھڑکیاں سنتے ہیں۔

یہ دنیا ایجنسیوں کی دنیا ہے۔لوگ ہٹلر کو دنیا کا بدترین انسان مانتے ہیں، کیونکہ وہ جرمنی کو فاتح عالم بنانے کے جنون میں اندھا ہوگیا تھا۔اس نے اس جنون میں آدھی دنیا ختم کردی۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہٹلر کی خودکشی (1946ء)اور جرمنی کا زوال ،دنیا کے لیے عذاب بن گیا۔یہ وہ دور تھا، جب اقوامِ متحدہ بنائی گئی، جب برصغیر کی تقسیم ہوئی،جب انگریز اس خطے کو ہمیشہ کے لیے مسائل میں الجھا کر ،ساری زندگی اس خطے کو غلامی پر مائل کرکے چلے گئے۔اس وقت ہٹلر کی شکست کے بعد روس کے سٹالن پر دنیا پر راج کا خبط طاری تھا،ساتھ کے ساتھ امریکا پوری دنیا پر ہزار سالہ حکمرانی کا خواب دیکھ چکا تھا۔یہ نیوورلڈ آرڈر کے ذریعے ممکن تھا۔

روس کا شیرازہ ہمارے پڑوس میں بکھیر گیا،اس پڑوس کو ہم پانچواں صوبہ بنانے کے خواب میں،امریکا کی چالوں کا نشانہ بن کر،اپنے پہلے سے چار صوبے بھی داؤ پر لگا بیٹھے۔باقی مسلم دنیا بھی امریکا کے اسی نیو ورلڈ آرڈر کے تابع تبدیل ہوتی چلی گئی،اسلام کا خلافت کا نظریہ ، اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا،سو خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ ہی اس کو دفن کرکے،پوری امت مسلمہ کو divide and rule کی پالیسی پر تقسیم در تقسیم کردیا گیا،یہ تقسیم اتنی بھیانک تھی ،کہ عیاشی اور ترقی کے لالچ میں تیل کی دولت سے مالا مال خطوں میں ایک ایک شہر کے پورے پورے ملک تشکیل دیے گئے۔ہم  بٹتے چلے گئے۔انگریز جو چاہتے تھے،کرتے چلے گئے،ہماری دولت ،ہمیں ہی  سے لینے دینے کا ایسا چکر چلایا کہ ہم ان کے اربوں ڈالر کے مقروض ہوگئے۔

یہ سب انھوں نے کیسے کیا؟ باقی اقوام کے ساتھ تو ان انگریزوں اور ان کی ایجنسیوں نے جو بھی کھیل کھیلا ،مگر یہ سچ ہے کہ ہمیں انھوں نے بطور قوم خودساختہ جمہوریت اور جاگیردارانہ ،وڈیرانہ،بیوروکریسی نظام کو عروج پر پہنچا کر شاہ دولے کے چوہے بنا دیا۔ہم کیا سوچیں گے،وہی جو وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کریں گے۔انٹرنیشنل میڈیا،ان کا ہے،جو دکھائے گا،پوری دنیا وہی دیکھے گی،وہی سوچے گی۔کونسی قوم پر امن ہے،کونسی دہشت گرد ہے،اس کا لیبل بھی وہی لگائیں گے۔ بطور قوم اس انٹرنیشنل گیم میں ہمارے ساتھ جو کیا گیا، وہ شرمناک حد تک ناقابلِ بیاں ہے۔ ہمیں جمہوریت، آمریت کے کھیل میں، مذہبی انتہا پسندی کے کھیل میں، صوبائیت کے کھیل میں اور نا جانے کون کون سے کھیل میںالجھا کر ،ہمارے سروں پر لوہے کے خول چڑھا دیے گئے،ہمارے ذہن ماؤف کردیے گئے۔

اس سب کے ساتھ،ہم پر بھوک،افلاس،غربت طاری کردی گئی۔جمہوریت کے نام پر ہمیں صرف ،یہ اجازت دی گئی کہ جو بھی وہ ہم پر مسلط کریں گے،ہمیں شاہ دولے کے چوہوں کی طرح اس کی طرف اپنی بنیادی ضروریات کے لیے دیکھنا ہوگا۔وہ ہماری سڑکیں پکی کروائے گا،بھوکے مر رہے ہوں گے،تو اس کے کارندے ہمیں امداد یا کم از کم تھپکی دینے پہنچ جائیں گے، ہمیں گرمی لگے گی ،تو بجلی کو ترسیں گے،اور اس سے اس بنیادی ضرورت کے لیے درخواست کریں گے،کچھ دن مل جائے گی تو ہاتھ اٹھا کر دعا کریں گے۔

کوئی سانحہ ہوگا، تو ہم اس کی طرف امداد کے لیے دیکھیں گے،جو تھوڑی بہت مل جائے گی، صبر کریں گے،اور دعا دیں گے۔ہمیں survival یعنی بقا کی جنگ  میں الجھا کر ،ہم سے انگریز کب کا یہ حق چھین چکے ہیں کہ life یعنی زندگی کسے کہتے ہیں۔ہمارے برعکس ان قوموں کو بنیادی ضروریات کے لیے ترسنا نہیں پڑتا۔ان کی سوچ فقط گیس، بجلی، سڑکوں، روٹی،پانی تک محدود نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ تو وہ تھپکیوں کے محتاج ہیں اور نہ ہی انھیں ہاتھ اٹھا اٹھا کر کسی کے لیے دعائیں کرنا ہے۔وہ دوسرے سیاروں  پر رہنے کی باتیں کر رہے ہیں،اور ہمیں آنے والے چند سالوں میں یہ زمیں بھی تنگ پڑتی نظر آرہی ہے۔

اب وقت آگیا ہے،کہ ہمیں ان کے چڑھائے لوہے کے اس خول کو اپنی نسلوں کے سروں پر منتقل کرکے ،اپنے ذہنوں کی چھوٹی سوچ کو ،ان تک منتقل ہونے سے روکنا ہوگا۔ہماری آنے والی نسلیں،شاہ دولے کے چوہوں کی طرح،صرف روٹی،پانی  کی بھیک تک محدود نہیں ہوں گی۔وہ بھی حقیقی life یعنی ترقی سے بھرپور زندگی جئیں گی۔وہ بھی عروج  حاصل کریں گی۔ہمیں اپنے سروں سے انگریزوں کے چڑھائے ان لوہے کے خولوں کو اتار پھینکنا ہوگا۔ایسا نہ ہوکہ ہم بقا کی جنگ لڑتے لڑتے فنا ہوجائیں اور وہ حقیقی زندگی جیتے جیتے امر ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔