عمران خان کی شادی اور اخلاقیات

شبانہ یوسف  منگل 27 جنوری 2015
shaboroz@yahoo.co.uk

[email protected]

عمران خان کی شادی کا موضوع اگرچہ پرانا ہوچکا ہے، مگر میڈیا اور سوشل میڈیا پر ابھی بھی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے، عمران خان نے شادی کیا کی کہ آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی تحریر نظر سے گزرتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو شاید عمران خان کی شادی کا اتنا دکھ نہیں جتنا غم و غصہ اس بات پر ہے کہ انھوں نے ریحام خان سے شادی کی۔ ہمارے معاشرے میں انسانی زندگی گزارنے کا پیمانہ ور رسم و رواج کی بنیاد پر ہے یا مذہب پر یا پھر استحصالی مردانہ اخلاقیات کے فرسودہ قوانین پر؟ یہ سمجھنے کے لیے اسی شادی پر بات کر نے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ یہ موضوع ابھی تک زیرِ بحث ہے ۔

عمران خان کی شادی کے حوالے سے شایع ہونے والی زیادہ تر تحاریر ریحام خان کی گزشتہ زندگی کے ان پہلوئوں کو موضوعِ بحث بنائے ہوئے ہوتی ہیں، جو پاکستان کے مردانہ معاشرے کے فرسودہ رسم و رواج اور اجارہ دارانہ اخلاقیات کے مطابق ریحام خان کی شخصیت کی ان پیمانوں کے مطابق منفی عکاسی کرسکیں۔اسی لیے تنقید کے نام پر ریحام خان کی شخصیت اور گزشتہ زندگی کومسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جن باتوں کو شہ سرخیوں میں نمایاں کرکے بیان کیا جا رہا ہے ان میں تین اہم باتیں ہیں جن کوبیان کرنا ہی تحریرکا شاید اصل مقصد ہوتا ہے، مثلا ’’ ریحام خان پہلے بھی شادی شدہ تھیں اور طلاق یافتہ ہیں،ریحام خان تین بچوں کی ماں ہیں۔

اخبارات اور مختلف سوشل میڈیا میں مسلسل شہ سرخیوں کی صورت یہ تکرار پڑھ پڑھ کر میں حیران ہورہی ہوں کہ اس میں انوکھی یا انہونی کونسی بات ہے؟ ریحام کی اگر پہلے شادی تھی تو عمران خان کی بھی پہلے شادی تھی، ریحام اگر طلاق یافتہ ہیں تو عمران خان کی شادی کا انجام بھی طلاق پر ہوچکا ہے۔ ریحام خان اگر تین بچوں کی ماں ہیں تو عمران خان بھی دو بچوں کے باپ ہیں۔ رہی افئیرز کی بات تو ان میں کتنی سچائی ہے یا نہیں یہ بات ایک طرف ، مگر میڈیا سے تعلق رکھنے والے جو آج ان باتوں کو ہوا دے رہے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس فیلڈ کے لوگوں کے افئیرز کی داستانیں بنتی رہتی ہیں۔

ریحام خان کا میڈیا سے تعلق تھا دوسری طرف عمران خان بھی مشہور کرکٹر اسٹار ہونے کی وجہ سے ماضی میں اور اب اہم سیاست دان ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے میڈیا کی توجہ کا خصوصی مرکز رہے ہیں، پھر ان کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے صرف ریحام خان کو ہی تنقید کا نشانہ صرف اس لیے تو نہیں بنایا جارہا کہ وہ خاتون ہے اور مردانہ اخلاقیات کے تحت نام نہاد عزت کے محل مسمار کرنا آسان ہدف ہے۔ یہ کیوں نہیں لکھا جاتا کہ عمران خان جو دو بچوں کے باپ ہیں نے ریحام خان جو تین بچوں کی ماں ہے سے دوسری شادی کرلی؟مگر اس حوالے سے اور اس انداز میں لکھنے کی سوچ بھی ہمارے مردانہ معاشرے کی فرسودہ اخلاقیات کے دائرے میں نہیں آسکتی، کیونکہ ہماری استحصالی اخلاقیات کے سارے معیار عورت کے استحصال پر مبنی ہیں، صدیوں پرانے دنیا بھر کے سماجوں میں عورت کو کمزور رکھنے کے لیے ثقافتی و مذہبی سرگرمیوں کو سہارا لیا جاتا رہا ہے ۔

پاکستان میں یہ بات واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے عورت کو مختلف لوک گیتوں کے تحت تقسیم کر کے آپس میں لڑنے کی ترغیب دی جاتی رہی اور عورت کی عورت ہی سے لڑائی جھگڑے کی فضا ہموار کر کے ان کی نفسیات کو ایک دوسرے سے اختلافی حوالے سے مستحکم کرتے آئے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقعے پر ڈھولک کی تھاپ پر گائے جانے والے گیت، ساس بہو، نند اور بھابھی کی آویزش کی اس طور عکاسی کرتے ہیں کہ ان رشتوں کا آپس میں اُلجھنا ہمارے معاشرے میں یہ کہہ کر نظر انداز کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ خواتین کی عقلی اور سوچی سمجھی سرگرمی ہو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے لاشعور میں ان رشتوں کو صدیوں سے لوک گیتوں کے ذریعے اس طور پختہ کیا گیا ہے کہ ساس، بہو، نند اور بھابی کی آویزش خواتین کی سوچ کی فطری ساخت معلوم ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی بہو اور سسر کا، داماد اور ساس کا ، دیور اور بھابھی کا، سالی اور بہنوئی کا جھگڑا ہمارے معاشرے میں خال خال ہی دکھائی دیتا ہے جب کہ عورت کا اپنے سسرالی رشتے کی عورتوں سے جھگڑا عمومی ہے، یعنی مرد نے اپنے ہر رشتے میں عورت کے ساتھ اپنے تعلقات تو بہت اچھے رکھے اور ان تعلقات کی شناخت اچھے حوالے سے مستحکم کی مگر خواتین کو آپس مین لڑنے کی ترغیب دی جاتی رہی تاکہ خواتین گھریلو سطح پر بھی تقسیم ہوکر کمزور رہیں اور سماجی سطح پر کمزور ہونا اس گھریلو سیاست کا منطقی نتیجہ تو ہونا ہی تھا۔

یہی وجہ ہے کہ اب جب عمران خان جو اس وقت دنیا بھر میں جانی پہچانے کرکٹ اسٹار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی زندگی کے حوالے سے اہم مقام اور اہم موڑ پر تھے نے ریحام خان سے شادی کی تو ہماری مردانہ اخلاقیات کے تحت جیسے یہ کوئی جرم کردیا انھوں نے ۔جس کے نتیجے میں عمران خان کو کم اورریحام خان کو زیادہ تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے اور اسی کی ذاتی زندگی کو زیادہ اُچھالا بھی جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی بہنیں جو اسی فرسودہ نطام کی پروردہ ہیں اور جن کی سوچ اسی استحصالی ثقافت اور مردانہ اخلاقیات کے زیر اثر پروان چڑھی، اپنے بھائی سے اس لیے ناراض ہوئیں کہ وہ اپنی بھابھی کی اُس سماجی حیثیت کو قبول نہیں کر پا رہیں، جس کی ہمارے معاشرتی رسم و رواج اور ادب پاروں کے تحت کہیں بھی مثبت شرح نہیں ہوئی، مگر عمران خان کے اس فعل کو کئی حوالوں سے سراہنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ انھوں نے شادی کی کوئی جرم نہیں کیا، دوسری بات اس لیے سراہنے کے قابل ہے کہ وہ اس وقت جس سیاست ، مقبولیت اور شہرت کے حوالے سے جس پوزیشن پر تھے ، اس پر رہتے ہوئے وہ بآسانی کسی بھی کم سن لڑکی کا شادی کے نام پر استحصال کر سکتے تھے، جو اکثر کسی بھی پوزیشن پر بیٹھا ماجا گاما بھی کرنے سے با ز نہیں رہ سکتا، مگر انھوں نے اگر کسی خاتون سے کوئی پیماں باندھا تو اس کی لاج رکھی ہے۔تیسری بات ہمارے عمل سے عاری اسلام کے داعیوں کو یہ بات سوچنی چاہیے کہ عمران خان نے ایک طلاق یافتہ خاتون سے شادی کرکے اسی طرح سنتِ رسول ﷺ کی پیروی کی ہے، جس طرح چار شادیوں کی خواہش رکھنے والے مرد سنت ِ رسولﷺ کے حوالے سے اپنے عمل کو جواز بخشتے ہیں۔

ایسے میں قرآن و سنت کی آیتیں اور احادیث پڑھ پڑھ کر سنانے والے ، اس شادی کی شرح بھی اسی حوالے سے کرتے تو اسلامی انصاف نظر آتا، مگر جن آیاتِ قرانی یا احادیث میں خواتین کی بھلائی کی بات کی گئی ہو وہ سنتِ رسول اور آیات بھلا دی جاتی ہیں۔ اگر ساٹھ یا ستر سالہ بڈھا سترہ یا اٹھارہ سالہ لڑکی کے والدین کی غربت یا کسی اور مجبوری کا نا جائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے شادی کر لے تو اس کے اس عمل کی سنتِ رسولﷺ یا قرآن کی آیات کی روشنی میں شرح کی جاتی ہے۔

مگر کوئی سترہ سالہ لڑکی اپنی پسند سے قرآن و سنت کی روشنی میں شادی کر لے تو اس کو ہمارے معاشرے کی مردانہ اخلاقیات اور فرسودہ رسم و رواج اور نام نہاد عزت کے مردانی قوانین کے تحت قتل کر دیا جاتا ہے۔ تو آخری فیصلہ کس کا ہوا ، قرآن و سنت کا یا مردانہ اخلاقیات کا؟ درحقیقت خواتین کے حوالے سے یہ رویے اور اخلاق کے مردانہ قوانین صدیوں سے ہمارے معاشرے کی ثقافتی و عملی سرگرمی کے ذریعے اتنے پختہ ہوچکے ہیںکہ دین و مذہب کا اصل چہرہ ہی مسخ کر دیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔