امریکا اور بھارت:ہماری ترجیحات

مقتدا منصور  جمعرات 29 جنوری 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب جس وقت امریکی صدر بارک اوباما کا جہاز بھارت کی جانب رواں دواں تھا، پورا پاکستان بجلی کے بریک ڈاؤن کے باعث اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔ابھی ملک کے بیشتر علاقوں میں بجلی بحال بھی نہ ہوپائی تھی کہ ان کا جہاز دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کرگیا۔

تین روزہ دورے کے دوران انھوں  نے بھارت کے بارے میں جو کچھ کہا اور جن معاہدوں پر دستخط کیے ، ان کے بعد امریکا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ہماری خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں کو ختم ہوجانا چاہیے لیکن شاید ہماری حکمران اشرافیہ کی سوچ عام آدمی کی سوچ سے مختلف ہے۔ اس لیے ماضی قریب کے دریچوں میں جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی کہ ان تعلقات کے حوالے سے ہم سے کہاں اور کس مقام پر کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئیں۔

جس وقت پاکستان وجود میں  آیا بے سروسامانی کا عالم تھا۔ لیکن جس خطے میں قائم ہوا، وہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ اگرقیام پاکستان کے بعد تہذیبی نرگسیت میں مبتلاہوکر خود کو اسلام کا قلعہ تصور کرنے کے بجائے حقیقت پسندی پر مبنی اہداف متعین کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کی جاتی، تو بلاشبہ پاکستان بھارت سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہوتا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو بہت کم اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔

آج ہم عقیدے، قومیتی اور لسانی بنیادوں پر جس تقسیم کا شکار ہیں، جس پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔جب کہ بھارت میں یہ تقسیم بہت زیادہ گہری اور پیچیدہ ہے۔ آئین سازی، تعلیم کا  فروغ، معاشی استحکام اور قومی مفادات کی عکاس خارجہ پالیسی کی تشکیل نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والی ریاستوں کی اولین ترجیح تھی۔ مگر فکری ابہام اور ریاست کے منطقی جواز کے بحران میں مبتلا حکمران اشرافیہ نے ان ترجیحات کے تعین کا موقع ہی نہیں دیا۔بلکہ پوری قوم کوقومی مقاصد کے ازسرنوتعین اور کشمیرکی آزادی کے مشن میں الجھادیا گیا۔ اسی رومان پرور سوچ اور فکری ابہام نے امریکا کی جانب جھکاؤ پر مجبور کیا۔ قوموں کے فکری رجحانات کے تعین کے حوالے سے ایک واقعہ پڑھیے۔

معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ70ء میں جب رومنوں نے یروشلم کا محاصرہ کیا اور یہودیوں کی عبادت گاہوں اور شہروں کو تباہ کرنا شروع کیا توبنیاد پرست یہودیوں کا ایک گروہ جوZealots کہلاتے تھے،Masada کے قلعے میں پناہ گزیں ہوگئے۔لیکن جب انھیں یقین ہوگیا کہ انھیں توہین آمیز موت کا سامنا کرنا پڑے گا تو انھوں نے اجتماعی خود کشی کرلی۔ دوہزار برس بعد جب اسرائیلی ریاست وجود میں آئی تو اس قلعے کو مقدس حیثیت دے کر بھرتی ہونے والے فوجیوں سے اسی مقام پر حلف لیا جانے لگا۔ انھیں بتایا جاتا کہ کس طرح غیرت مند یہودیوں نے قومی ناموس پر اجتماعی قربانی دی، ہرمحب وطن کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔

لیکن جب اسرائیلی ریاست کو قدر استحکام حاصل ہوا توMasada کے سانحے کو شکست خوردی کی علامت سمجھا جانے لگا اور فوجیوں کی اس مقام پر حلف برداری کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔اس واقعے کو نقل کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بیشک برٹش انڈیا میں آزادی کے حصول کے لیے مذہب یا مذہبی روایات کو بطور آلہ کار استعمال کرنے کے عمل کو تاریخی طورپر غلط نہیںکہاجاسکتا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد اس شناخت پر تسلسل کے ساتھ اصرار اور اسے اولین قومی ترجیح قراردینے کے باعث گورننس ان گنت پیچیدہ مسائل سے دوچار ہوگئی۔ اس میں شک نہیںکہ دنیا کی معلوم تاریخ میں بیشمار اقوام نے عقیدے اور قومی شناخت کی بنیاد پر آزادی کی طویل اور صبر آزماء تحاریک چلائیں۔ مگر کامیابی کے بعد انھوں نے ماضی سے لپٹے رہنے کے بجائے آگے بڑھنے کو ترجیح دی اور قومی ترجیحات کاعصری تقاضوں کے مطابق تعین کیا ۔

مگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئین سازی کے عمل میں تاخیر ہوئی،جس کی وجہ سے ریاست اپنی سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہی۔ سیاسی عمل کمزور ہوا اور فوج کو اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ 1947 سے 1965 کے دوران پاکستان میں جو صنعتکاری ہوئی، وہ کولمبو پلان کے تحت ملنے والی امداد اور مہاراشٹر اور بھارتی گجرات کے تاجر طبقات کی سرمایہ کاری کا نتیجہ تھی۔ جسے 1972 میں قومیائے جانے کے نام پر انتہائی بھونڈے انداز میں تباہ کردیا گیا۔ پھر دو جنگوں(1965 اور 1971) نے معاشی ترقی کے عمل کو بری طرح متاثر کیا۔ یوں معیشت وقت  گذرنے کے ساتھ بدترین تباہی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ اسی طرح تعلیم جو نوآبادیاتی نظام سے آزادہونے والے ممالک کی اولین ترجیح ہوتی ہے، پاکستان میں سیاسی ایڈونچر کا ذریعہ بن گئی۔

ہر حکومت نے اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے تعلیم کے شعبے کو تختہ مشق بنایا ۔ جس کے نتیجے میں انگریز سے ورثے میں ملنے والا تعلیمی نظام بھی تباہی کا شکار ہوگیا۔ اسی طرح تہذیبی نرگسیت میں مبتلا پاکستانی حکمران اور منصوبہ ساز حقیقت پرمبنی خارجہ پالیسی بھی ترتیب نہیں دے سکے۔نتیجتاً کسی بھی ملک کے ساتھ پائیدار تعلقات قائم نہیں ہوسکے۔چین کو بھی ہماری کئی پالیسیوں پر شدیدتحفطات ہیں۔ مگر خطے کی صورتحال کے پیش نظر وہ ہم سے تعاون پر مجبور ہے۔ اب جہاں تک پاک امریکا تعلقات کا تعلق ہے، تو پاکستان اور امریکا68برسوں کے دوران مختلف نوعیت کے مدوجذر کا شکار رہے ہیں۔

فروری 1950 میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکا کے نتیجے میںدونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات قائم ہوئے۔لیکن1952 میں منتخب ہونے والے ری پبلکن صدر آئزن ہاورکا دور پاک امریکاتعلقات میں گرم جوشی کا سب سے اہم دور تھا۔اس دوران پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں کا حصہ بنا۔جب کہ امریکا نے پبلک اور عسکری سیکٹر میں خطیر امداد دی۔ گرمجوشی کا یہ دورڈیموکریٹ جان کینیڈی کے صدر بننے کے بعد کم ہونا شروع ہوا۔ 1962ء میں جب امریکا نے میزائیل ٹیکنالوجی میں سوویت یونین پر برتری حاصل کرلی تو پاکستان کی تزویراتی اہمیت خاصی حد تک کم ہوجانے سے سرد مہری کا دور شروع ہوا۔

1968 میں ریپبلکن رچرڈ نکسن کے صدر بن جانے کے باوجود سرد مہری کی فضاء برقرار رہی۔حالانکہ اس دوران پاکستان نے سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر کے چین کے خفیہ دورے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔سرد مہری کا یہ دور بھٹو حکومت تک قائم رہا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب سوویت فوجیں افغانستان میں اتریں اور امریکا میں ایک بار پھر ریپبلکن صدر ریگن اقتدار میں آئے تو پاکستان افغانستان میں امریکاکی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا۔یہ باہمی تعلقات کی گرمجوشی کا دوسرا اہم دور تھا۔ مگر یہ ہنی مون زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔

جنیوا معاہدے کے بعد امریکا  نے پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کی فوجی امداد بند کردی،کیونکہ امریکا کو شک تھا کہ پاکستان نے درپردہ جوہری ہتھیار بنا لیے ہیں لیکن 9/11کے بعد امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی، تو تعلقات میں گرمجوشی کا تیسرا دور شروع ہوا، جو 2008 میں ختم ہوگیا۔گو کہ افغانستان کی صورتحال اور پاکستان کی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر امریکا پاکستان کو مکمل طورپر نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لیکن شکوک وشبہات کے گہرے بادل بہرحال تعلقات پر چھائے ہوئے ہیں۔ جن کا سبب امریکیوں کی موقع پرستی اور طوطاچشمی کے علاوہ خود ہماری ان گنت غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہیں۔

بھارت کے ساتھ امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا ابھرتے ہوئے نئے عالمی سیاسی منظر نامے اور گلوبل معاشی ترجیحات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو اس کی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔اول، بھارت کی 45 کروڑ پر مشتمل مڈل کلاس جو امریکی مصنوعات کے لیے بہت بڑی عالمی منڈی ہے۔ دوئم،بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی ہنر مند افرادی قوت،جو جدید سائنس وٹیکنالوجی کا علم اور مہارت رکھتی ہے۔

سوئم،جدید صنعتی انفرا اسٹرکچر اورٹیکسیشن کا جدید نظام۔ چہارم، صنعتی علاقوں میں امن وامان کی تسلی بخش صورتحال۔ پنجم،بحرہند کے ساحلوں پرنصف درجن سے زائد بندرگاہوں کے ذریعے مصنوعات کی عالمی سطح پر فوری ترسیل کی سہولت ۔ ششم، چین کے ساتھ معاشی مسابقت کے لیے مکمل طورپر تیار حکومت۔اس کے برعکس پاکستان میں امن وامان کی انتہائی دگرگوں صورتحال۔ فرسودہ اور کار از رفتہ صنعتی انفرا اسٹرکچر، توانائی کا بدترین بحران ، ٹیکسیشن کا فرسودہ نظام اور انتظامی ڈھانچے میں حد سے بڑی ہوئی کرپشن اور بدعنوانی، پورا ملک دہشت گردی سے غیر محفوظ، ریاستی اورغیر ریاستی عناصر کی صنعتی یونٹوں سے بھتہ کی وصولیابی اور انتظامیہ کا بے بس ہونا۔وہ عوامل ہیں جو بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے روکنے کا سبب بن رہے ہیں۔

حکومت کی ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں ناکامی، جمہوری نظم حکمرانی اور پائیدار گورننس کے ذریعے عالمی سرمایہ کوسرمایہ کے محفوظ ہونے کی یقین دہانی میں ناکامی بھی  پاکستان میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ لہٰذا بارک اوباماکے حالیہ دورہ ِبھارت کا جائزہ لیتے وقت ہمیں خطے کی بہت سی حقیقتوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق امریکی حکومت نے پاکستان پر واضح کردیا تھا کہ امن وامان کی حالیہ صورتحال کے پیش نظر امریکی صدر کا دورہ پاکستان ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس دورے کے نا ہونے اور بھارت کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخطوں کے باوجود ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ جو Geo-Strategicپوزیشن ہمیں حاصل ہے، اس نے اس خطے میں ہمارا کلیدی کردار متعین کردیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔