حکومت کی نااہلی کا خلا فوج پر کر رہی ہے

غلام محی الدین / رانا نسیم  اتوار 8 فروری 2015
ن لیگ کے بعض لوگ فرقہ وارانہ دہشتگردی کرنے والوں کی مدد سے الیکشن لڑتے ہیں: سابق ڈپٹی وزیراعظم چودھری پرویزالٰہی سے انٹرویو۔ فوٹو: فائل

ن لیگ کے بعض لوگ فرقہ وارانہ دہشتگردی کرنے والوں کی مدد سے الیکشن لڑتے ہیں: سابق ڈپٹی وزیراعظم چودھری پرویزالٰہی سے انٹرویو۔ فوٹو: فائل

چودھری پرویزالٰہی نے یکم نومبر 1945ء میں گجرات کے ایک معروف صنعت کار اور سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔

1967ء میں فارمین کرسچین کالج یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کے بعد وہ والد چودھری منظورالٰہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لندن چلے گئے، جہاں انہوں نے 1971ء میں واٹفورڈ کالج آف ٹیکنالوجی سے انڈسٹریل مینجمنٹ میں ڈپلومہ کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد چودھری پرویزالٰہی نے اپنے کزن چودھری شجاعت حسین کے ساتھ خاندانی کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ 1977ء میں پیپلزپارٹی کی طرف سے صنعتوں کو قومیانے (Nationalization) کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ میدان سیاست میں آ گئے، تاہم سیاست میں باقاعدہ طور پر شمولیت 1983ء میں چچا ظہور الہٰی کے قتل (1981ء) کے بعد کی۔

سابق ڈپٹی وزیراعظم نے ضلع کونسل گجرات کی چیئرمین شپ سے سیاست کی شروعات کی۔ 1985ء میں وہ پہلی بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہو کر پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ چودھری پرویزالٰہی کا شمار پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں ہوتا ہے، جو اب تک تمام جنرل الیکشنز میں کامیاب ہوئے۔ 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات میں وہ رکن صوبائی یا قومی اسمبلی منتخب ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس دوران وہ وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی، ڈپٹی اپوزیشن لیڈر پنجاب، سپیکر پنجاب اسمبلی، وزیر اعلیٰ پنجاب، اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی اور ڈپٹی وزیراعظم کے عہدوں پر فائز رہے۔

چودھری پرویزالٰہی 1997ء تک میاں نواز شریف کی سربراہی میں قائم مسلم لیگ کے ساتھ جڑے رہے، لیکن پھر 1997ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پارٹی کی طرف سے مبینہ طور پر ان سے پنجاب کی وزارت اعلی کا وعدہ کیا گیا، جو پورا نہ ہونے پر دوریاں پیدا ہوئیں۔ 1999ء میں نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو چودھری پرویزالٰہی اور شجاعت حسین کو نیب نے کرپشن کے الزامات پر حراست میں لے لیا، تاہم بعدازاں یہ الزامات ختم کر دیئے گئے۔ مشرف دور میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا، جس کی کمان چودھری برادران نے سنبھال کر مسلم لیگ نواز سے ہمیشہ کے لئے راہیں جدا کر لیں۔

سیاست میں اتار چڑھائو اپنی جگہ لیکن چودھری پرویزالٰہی نے بطور وزیر اعلیٰ، پنجاب کے باسیوں کے لئے چند مثالی کارنامے سرانجام دیئے، جن میں مفت تعلیم (پہلی جماعت سے میٹرک تک)، شرح خواندگی میں اضافہ، تعلیمی و طبی اداروں کا قیام، ٹریفک وارڈنز کا نظام اور ریسکیو 1122 نمایاں طور پر شامل ہیں۔ سیاست میں ’’روشن خیالی‘‘ کے فلسفے کے مقتدی رکن قومی اسمبلی نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہمیشہ واضح موقف اپنایا۔

پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے صوبائی صدر کا سیاسی کیرئیر گو کہ تنقید اور اعتراضات سے مبرا نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ان کے بغیر ادھوری ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے ملک میں جاری موجودہ سیاسی اور معاشی بحرانوں پر سینئر سیاست دان کی رائے جاننے کے لئے ایک نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: وطن عزیز آج دہشتگردی، توانائی، لاقانونیت اور عالمی تنہائی سمیت متعدد بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ کیا اس صورتحال کا ادراک کیا جا رہا ہے اور اس سے نکلنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

چودھری پرویزالٰہی: مسائل کا ادراک جن کا کام ہے، یعنی حکمران تو وہ بالکل بھی نہیں کر رہے۔ اور عالمی تنہائی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لئے آرمی چیف دورے کر رہے ہیں۔ اگر اوباما بھارت گیا تو وہ چین کے دورے پر گئے، اس سے پہلے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دورے بھی کر چکے ہیں۔ میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم بن چکے ہیں، لیکن انہیں گارڈ آف آنر نہیں ملا، یہ اعزاز بھی آرمی چیف کے حصے میں آیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب متعلقہ حکمران یا شخص کارکردگی نہیں دکھا پا رہا یا کام نہیں کر رہا تو کسی نے تو یہ جگہ پُر کرنی ہے۔ تو ظاہر ہے وہ جگہ آرمی نے لی ہوئی ہے۔

ایکسپریس: فوج کو اس معاملہ میں اپر ہینڈ ملنا صاف نظر آ رہا ہے تو اس میں ان کی مرضی شامل ہے یا یہ صورتحال خودبخود بن گئی ہے۔

چودھری پرویزالٰہی: اگر جگہ خالی ہے تو اس کو پُر کرنے کے لئے کسی کو پوچھنے کی ضرورت نہیں، وہ خود بخود ہو جاتی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا کام نہیں کیا۔ آپ دیکھ لیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے، کتنی حکومتیں آئیں، چلے کوئی نالائق ہی سہی لیکن کبھی پٹرول کا بحران نہیں آیا۔ یہ واحد حکمران ہیں، جن کے دور میں پٹرول کا بحران آیا، انہیں بہت شوق ہے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام لکھوانے کا، انہوں نے پٹرول بحران میں یہ شوق بھی پورا کر لیا۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی کارکردگی، خاص طور پر پنجاب میں ان کا تیسرا دور اور مسلسل ساتواں سال ہے، چلیں وفاق میں تو پیپلزپارٹی کو یہ کہتے ہیں، لیکن خود تو اپنا حساب دیں، اسی لئے میں نے شہباز شریف کو یہ چیلنج کیا ہے کہ بھائی تمھارے دس سال میرے پانچ سال، آئو موازنہ کر لیتے ہیں۔

ہمارا جو ویژن تھا، اس میں ہم پنجاب کو پانچ، دس اور بیس سال کے بعد دیکھ رہے تھے، یعنی مستقبل کے پلان ہم نے تشکیل دیئے، اپنے دور میں ہم نے ایک سروے کرایا تو پتہ چلا کہ دس سال بعد سب سے زیادہ جو بیماری ہوگی وہ دل کی بیماری ہے، تو میں نے پی آئی سی کی صلاحیت کو دوگنا کر دیا، فوری طور پر ملتان اور فیصل آباد میں کارڈیالوجی ہسپتال بنائے، اسی طرح وزیرآباد جو ایک کروڑ کی آبادی کا ڈویژن ہے، وہاں بھی ہم نے کارڈیالوجی ہسپتال بنا دیا، لیکن ہماری حکومت ختم ہوگئی، اب ان کا حال دیکھ لیں کہ سات سال میں اس سنٹر کو چالو نہیں کیا جا سکا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ڈویژن میں سات سال کے دوران ساڑھے چار ہزار اموات صرف دل کی بیماریوں کی وجہ سے ہو چکی ہیں۔

ہسپتال بنانے کے بجائے پیسا جنگلہ بس پر لگایا جا رہا ہے، مجھے بتائیں کہ حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ لوگوں کو گجومتہ سے شاہدرہ چھوڑ کر آئے یا لے کر آئے، بھائی سارا پنجاب پڑا ہے، ترجیح کیاہے، اس وزیراعلیٰ کو یہ نہیں پتا کہ ترجیح کیا ہے؟ آپ چلے جائیں پی آئی سی، میں گزشتہ ماہ وہاں گیا تو ڈاکٹروں نے کہا جو آپ پیسا دے کر گئے تھے اس کے بعد کچھ نہیں ملا، ایک بیڈ پر تین تین مریض پڑے ہیں، آپریشن کی تاریخ ایک ایک سال بعد کی دی جا رہی ہے۔ دوسری طرف جنگلہ بس کے لئے ایک ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔ جب پنڈی اور ملتان والی شروع ہو گی تو یہ سبسڈی تین ارب پر چلی جائے گی۔

ہم نے شعبہ تعلیم کی بہتری کے لئے انقلابی اقدامات کئے، لیکن انہوں نے ہمارے منصوبوں کو بند کر دیا۔ حالاں کہ دہشتگردی کو روکنے کا اصل حل لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، کیوں کہ بنیاد یہ ہے۔ مدرسوں میں جو پڑھائی ہوتی ہے وہ کیا ہے، یہی ناںکہ وہاں کھانا، رہائش، پڑھائی ہر چیز فری ہوتی ہے تو سٹیٹ کیوں نہیں دے سکتی؟ مدرسے بند کرنا کوئی حل نہیں، ان کو کمپیٹ (مقابلہ) کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس: آپ کے دور میں پنجاب میں مدرسہ ریفارمز کے لئے کام شروع کیا گیا، لیکن وہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، اس کی وجوہات کیا تھیں؟

چودھری پرویزالٰہی: ہم نے تو مدرسہ ریفارمز کی تھیں، لیکن ہم نے ایسے نہیں کیا جیسے یہ کر رہے ہیں۔ ہم نے مدرسے والوں کو ساتھ ملایا، ان کے لوگ کون ہیں، قاری حنیف جالندھری، میں نے جو قرآن بورڈ بنایا یہ اس کے چیئرمین تھے، اس کے علاوہ تمام مکتبہ فکر کے علماء اس میں موجود تھے، یوں ان کو ساتھ لے کر کام کیا، ان سے فتوی یا حکم لے کر حکومت اس پر عملدرآمد کرتی تھی اور ان سے طے پایا تھا کہ اگر کوئی غلط تعلیم دے رہا ہے تو آپ نے ہمارے ساتھ جا کر انہیں پکڑنا ہے۔

پھر ہم نے انہیں کہا کہ اگر آپ ہمارا کورس پڑھائیں گے تو مفت کتابیں، فرنیچر اور گرانٹ بھی ملے گی، جس پر بہت سے مدرسے والوں نے ہمارا کورس پڑھایا۔ لیکن جہاں تک بات ان ( موجودہ حکومت) کے مدرسہ ریفارمز کی ہے تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان کی نیت ہی ٹھیک نہیں، نیت اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ جو دہشتگرد ہے، اسے نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ نے پالا ہے، یعنی سیکٹیرین کلر، ان کے ساتھ مل کر رانا ثناء اللہ الیکشن لڑتے ہیں، ان کو پروٹوکول دیتے ہیں۔ کبھی بھی کوئی سٹیٹ کسی دہشتگرد تنظیم کو سپورٹ کرکے کامیاب نہیں ہو سکتی، دیکھیں اندرا گاندھی کے ساتھ کیا ہوا تھا اس نے سکھوں کی تنظیم بنائی تھی، پھر سکھوں نے ہی اسے مارا۔

ایکسپریس: کتنے فیصد مدرسوں کو اس دائرے میں لایا گیا؟

چودھری پرویزالٰہی : دیکھیں جی! بات یہ ہے کہ فیصد کی بات اس وقت ہوتی ہے، جب کام مسلسل چلتا رہے، انہوں نے اس کا تسلسل ہی توڑ دیا۔ میں آپ کو بتائوں کہ ہمارا تعلیم کا جو منصوبہ تھا وہ پندرہ سال کا تھا، لیکن پانچ سال بعد ہی مانیٹرنگ سسٹم کو تعلیم سے ہٹا کر گندم کی خریداری پر لگا دیا، تو پھر وہ خراب تو ہونا تھا۔

ایکسپریس: پٹرول بحران کسی ایک شخص یا ادارے کی غفلت کا نتیجہ ہے یا حکومت قصوروار ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : ان کو اب یہ ماڈل تبدیل کر لینا چاہیے، یہ بہت پرانا ہو چکا ہے کہ بیورو کریسی کو ذبح کر کے خود نکل جائو۔ یہاں کوئی چیز ہوتی ہے تو ڈی پی او اور ڈی سی او معطل، اور یہ اب تک یہی کام کر رہے ہیں۔ اپنی غلطی کی اصلاح نہیں کرنی بلکہ اس کو کسی اور کے گلے ڈال دیتے ہیں، اور یہی کچھ پٹرول بحران میں بھی ہوا۔

ایکسپریس: اوباما کی طرف سے صرف بھارت کا دورہ کرنے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ حالاں کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہم امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : دیکھیں جی! دو تین چیزیں ہیں، ایک تو ہمیں خطے میں کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا، امریکہ ہمیں نظرانداز نہیں کر سکتا، کیوں کہ خطے میں ہماری پوزیشن ایسی ہے۔ افغانستان میں اگر استحکام چاہیے تو وہ پاکستان کے بغیر نہیں ہو سکتا، بھارت کے ساتھ ہمارا کشمیر کا ایشو ہے، اور اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

تیسری جو بہت بڑی زمینی حقیقت ہے کہ بھارت ہم سے بہت بڑا ملک ہے، جس میں امریکا کا بزنس انٹرسٹ ہے، امریکا کو بڑی مارکیٹ مل رہی ہے تو بھارت کو نئی ٹیکنالوجی مل رہی ہے۔ اس حوالے سے وہ ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ پھر ایسے معاملات چلا کر امریکا چین کے خلاف ایک ’’پٹھہ‘‘ تیار کر رہا ہے۔ اور آخری بات یہ ہے کہ اگر امریکہ ہمارے ساتھ ایسا کر رہا ہے تو یہ حکمرانوں کی ناکامی بھی ہے، انہیں پہلے سے ہی چیزوں کو کائونٹر کرنا چاہیے تھا۔

ایکسپریس: فوجی عدالتوں کے بارے میں آپ کی جماعت کا کیا موقف ہے؟ تقریباً تمام جماعتوں نے ایوان میں تو حق میں ووٹ دیا لیکن بعد میں اکثر جماعتوں کے اراکین تنقید کرتے بھی نظر آ رہے ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : ہم نے تو ایوان میں سب جماعتوں نے جو بات کی اس پر عمل کیا ہے، اب یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ کس طرح اور کب اس پر عملدرآمد کرتی ہے۔

ایکسپریس: نواز حکومت اور فوج کے تعلقات میں کشیدگی کی خبریں زبان زد عام رہیں اور اب بھی ہیں۔ آپ کے مطابق تعلقات کی کشیدگی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : یہ ذمہ داری نواز اور شہباز شریف پر عائد ہوتی ہے، یہ جو لوگ جدہ میں 8 سال بیٹھ کر بھی ٹھیک نہیں ہو سکتے ان کو میں اور آپ ٹھیک نہیں کر سکتے۔ اب خانہ کعبہ جا کر تو کوئی جھوٹ نہیں بولتا لیکن یہ وہاں بھی کہتے رہے کہ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں، لیکن پھر پانچ سال اور سات سال کے معاہدے کی بات کرتے رہے اور اب جو کرائون پرنس مقرن بنے ہیں، انہوں نے لہرا کر معاہدہ دکھایا کہ یہ دس سال کا تھا۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے اب کی بار حکومت اور فوج کی تعلقات کی کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مشرف بنے، آپ کیا کہیں گے؟

چودھری پرویزالٰہی: بات یہ ہے کہ ان کے اندر اصلاح کا پہلو نہیں ہے، حالاں کہ بندہ وقت اور حالات سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ لیکن جب آپ نے ایک ہی تہیہ کر رکھا ہے کہ میں جب بھی آئوں گا تو لوگوں کی خدمت کے بجائے بدلے لوں گا، تو وہ بدلے لے رہے ہیں۔ کبھی جنرل مشرف کی شکل میں فوج سے لے رہے ہیں تو کبھی دیگر لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ایکسپریس: بحرانوں میں گھری موجودہ حکومت آپ کو کہاں تک چلتی نظر آ رہی ہے؟ یعنی کیا یہ اپنی آئینی مدت پوری کرے گی؟

چودھری پرویزالٰہی : اس حکومت کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ سب سے زیادہ انہیں خود جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ ان کو کس نے کہا تھا کہ یہ چوتھی بار فوج سے لڑائی کریں۔

ایکسپریس: آپ اپنے بیانات میں اپنے دور حکومت کے عوامی منصوبوں کا ذکر کرتے ہیں، اس کے باوجود 2008 ء اور 2013 ء کے عام انتخابا ت میں عوام نے آپ کی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیئے ؟اگر دھاندلی بھی ہوئی ہے تو یقیناً وہ سو فیصد تو نہیں ہوئی ہو گی؟کیا آپ نے اقتدار کا بھر پور دور گزارنے کے بعد دو انتخابات ہارنے کی وجوہات کا تجزیہ کیا؟

چودھری پرویزالٰہی : دیکھیں! پہلی بات تو یہ ہے کہ 2008ء کے الیکشن میں ہمیں ووٹ کم نہیں بلکہ بہت پڑے ہیں، 2008ء کے عام انتخابات کا رزلٹ دیکھیں، جس میں ووٹ حاصل کرنے والی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ق ہے۔ نواز شریف تو پنجاب میں دوسرے نمبر پر بھی نہیں تھے، وہ پیپلزپارٹی تھی، یہ تیسرے نمبر پر تھے۔

ان کو تو محترمہ کی شہادت کا فائدہ ملا، لیکن اب لوگ ہمارے کاموں کو یاد کر رہے ہیں کہ جی! مشرف صاحب والا دور اچھا تھا، اس زمانہ میں ترقی ہوئی، مہنگائی، توانائی جیسا کوئی بحران نہیں تھا۔ اب جرائم (چوری، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان وغیرہ) کی شرح کو دیکھ لیں جو تین سو گنا بڑھ گئی ہے اور یہ پولیس کی اپنی رپورٹ ہے۔ ہمارے دور میں ہر سال پنجاب کے اندر دس لاکھ ملازمتوں کو مواقع پیدا ہوتے تھے، جی ڈی پی کی شرح 8 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جو آج پنجاب میں ساڑھے چار فیصد ہے۔

ایکسپریس: نائن الیون کے واقعہ کے وقت آپ کی حکومت تھی، تو آپ نے اس وقت کے پریشر کو کس طرح ہینڈل کیا، حکمت عملی کیا بنائی گئی؟ اور وہ کن حوالوں سے موجودہ حکمت عملی سے مختلف تھی؟

چودھری پرویزالٰہی : اس میں ہم نے سب سے پہلے یہ حکمت عملی بنائی کہ دہشتگرد کس راستے سے آتا ہے، تو سٹڈی کرنے کے بعد پتا چلا کہ وہ دیہات کی سڑکیں ہیں، کیوں کہ یہاں توجہ کم ہوتی ہے۔ تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ہم 5 سو پٹرولنگ پوسٹیں بنا دیں تو پورا پنجاب کور ہو سکتا ہے، جو کشمور سے لے کر اٹک سے آگے تک بنتا ہے۔

تو سوا تین سو پٹرولنگ پوسٹیں ہم نے بنا دیں، جس میں ہم نے پڑھے لکھے لوگوں کو شامل کرکے کمانڈوز ٹریننگ دلوائی، ان کو مانیٹرنگ اور پٹرولنگ کے لئے ایک ایک گاڑی، سپیشل الائونس دیا۔ انہیں قیام و طعام کی سہولت بھی پٹرولنگ پوسٹ کے اندر دی گئی، کیوں کہ یہ لوگ خراب اس وقت ہوتے ہیں، جب شام کو جواء وغیرہ کھیلنے باہر جاتے ہیں، اس میں ہم نے آرمی ماڈل کو فالو کیا، جس کے نتائج آپ کو کرائم ریٹ میں واضح کمی کی صورت میں نظر آئیں گے۔

پھر یہ لوگ فوری ریسپانڈ کرتے ہیں، لیکن شہباز شریف نے آتے ہی ’’اچھا‘‘ کام کیا کہ ان کا پٹرول اور الائونس بند کر دیا، اب یہ دس ہزار کی فورس ہے، جس کو تعلیمی اداروں میں دہشتگردی کو روکنے کے لئے موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے، یعنی ہر پٹرولنگ پوسٹ اپنے علاقوں میں موجود سکولوں کی مانیٹرنگ اور حفاظت کر سکتی ہے۔ لیکن انہوں نے آتے ہی ان کا پٹرول بند کر دیا تو وہ اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔

گاڑیاں پرانی ہو چکی ہیں، جو چل نہیں سکتیں۔ پھر ان پوسٹوں کے ذریعے دیہات میں گائے بھینس کی چوری کے واقعات بھی رک گئے، کیوںکہ جب کوئی مویشی لے کر گزرتا تو اس سے پوچھ گچھ ہوتی کہ وہ اسے کہاں سے لے کر آیا ہے، اگر خریدی ہے تو کوئی رسید دکھائے؟ پھر ٹریفک وارڈنز کو دیکھ لیں، ان کو ہم نے ٹریننگ کے ساتھ چھوٹے پسٹل بھی دیئے،کیوں کہ کرائم سین پر سب سے پہلے جس بندے سے واسطہ پڑنا ہے وہ سڑک پر کھڑا وارڈن ہے، لیکن انہوں نے ان سے پسٹل بھی چھین لئے۔

ایکسپریس: آپ کے دور حکمرانی میں قرضوں کی معافی کا میگا سکینڈل سامنے آیا، سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000سے 2006ء تک 125 بلین روپے کے قرضے معاف کئے گئے جبکہ 1985سے1999تک رہنے والی تین حکومتوں (جونیجو، بے نظیر، نواز شریف) کے دور میں صرف 30 بلین روپے کے قرضے معاف ہوئے۔ آپ کیا کہیں گے؟

چودھری پرویزالٰہی : بنکوں کے قرضے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا، اسٹیٹ بنک جانے اور وہ جانیں۔ حکومت نے کوئی قرضے معاف نہیں کئے، یہ غلط اعداد و شمار ہیں۔ ہمارے خلاف قرضوں کے حوالے سے جو کام کیا گیا، وہ نواز شریف نے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے ذریعے کروایا، تاکہ ہم آئندہ الیکشن نہ لڑ سکیں۔

دیکھیں! امریکہ میں بھی جو بنک ہے وہ دیکھتا ہے کہ میری ساری رقم ڈوب جائے یا متعلقہ انڈسٹری کو تھوڑا ری شیڈول کردوں تاکہ یہ کھڑی ہو جائے اور میرا پیسا واپس مل جائے۔ اسٹیٹ بنک نے یہ پالیسی بنائی تھی ہمارے خلاف شہباز شریف سمیت متعدد لوگ عدالتوں میں گئے، اور افتخار چودھری کی موجودگی میں گئے، لیکن عدالتوں نے کہا کہ ثبوت لائیں جو جج خصوصی طور پر ہمارے کیس کے لئے تھا، انہوں نے بھی لکھا کہ الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔

ایکسپریس: دھرنوں کے موسم میں کچھ افواہیں یہ گردش کرتی رہیں کہ علامہ طاہر القادری نے جب دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے انہیں روکنے کی کوشش کی، جس پر قائد عوامی تحریک نے آپ سے دھرنوں میں بندے لانے کا مطالبہ کیا لیکن آپ وہ پورا نہ کر سکے؟

چودھری پرویزالٰہی : اس دھرنے میں دو اڑھائی ہزار ہمارا بندہ تو پہلے ہی موجود رہتا تھا، بلکہ ہم تو ان کے بندوں کا بھی پہرہ دیتے تھے۔

ایکسپریس: لاہور ہائی کورٹ میں سیاست دانوں کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق ایک نہایت اہم کیس زیر سماعت ہے، ان سیاستدانوں میں آپ کا بھی ذکر ہے۔ کیا واقعی آپ کے اثاثے بھی بیرون ملک ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : ہمارے لئے یہ بڑی اچھی بات ہے، (قہقہہ لگاتے ہوئے) بیرون ممالک میں اگر ہمارے اثاثے ہیں تو ہمیں بھی بتا دیں تاکہ ہم وہ لے سکیں۔

ایکسپریس: حکومت نے غیرملکی بنکوں میں پڑا پاکستانی سرمایہ واپس لانے کا اعلان کیا ہے، کیا یہ ممکن ہے؟ لوٹی رقم کی واپسی کے ساتھ ملوث افراد کا احتساب ممکن ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : میرے خیال میں یہ سوال آپ عمران خان سے پوچھیں وہ زیادہ اچھے طریقے سے آپ کو اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ اور وہ یہ جواب دے بھی چکے ہیں کہ ’’اسحاق ڈار صاحب سب سے پہلے اپنے پیسے باہر سے واپس لائیں‘‘

ایکسپریس: عمران خان گزشتہ جنرل الیکشن کو آر اوز کا الیکشن قرار دیتے ہوئے اس میں تاریخی دھاندلی کے دعوے کر رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں انتخابی دھاندلی کا ذمہ دار کون ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : اصل ذمہ دار سابق چیف جسٹس افتخار چودھری ہیں اور ماسٹر مائنڈ خلیل رمدے ہیں کیوں کہ آر اوز انہوں نے لگائے تھے۔ خلیل رمدے نے جی او آر میں بیٹھ کر آر اوز تعینات کئے اور پھر جو ٹریبونل کے جج بنے، وہ بھی رمدے نے لگائے تاکہ فیصلے ہی نہ ہو سکیں۔ 77ء کے بعد پاکستان میں یہ سب سے بڑی انتخابی دھاندلی تھی، جس میں مینڈیٹ کو چرایا گیا۔

ایکسپریس: انتخابی دھاندلی کو کس طرح سے ثابت کر کے ملوث افراد کو سزا دی جا سکتی ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : اس کا بہترین حل عمران خان کا مطالبہ ہے، یعنی سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن سے اس مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام سے بلی تھیلے سے باہر آ جائے گی۔ دیکھیں! اتنا تو آراوز نے مجھے بھی بتایا کہ چودھری صاحب آدھے آدھے تھیلے ہمیں ملے اور اعتراض پر کہا گیا کہ جو کچھ مل رہا ہے، خاموشی سے لے لو۔

ایکسپریس: جنرل ایوب سے لے کر مشرف تک آپ کے طرز سیاست پر جمہوریت پسندی کے بجائے آمریت کے سائے چھائے رہنے کا تاثر عام ہے۔ مشرف دور میں آپ انہیں سوبار باوردی منتخب کروانے کے دعوے بھی کرتے رہے۔ کیا آپ اپنے اس سیاسی رویے کو درست سمجھتے ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : اس کا بہترین جواب ہماری تاریخ میں پوشیدہ ہے۔ ہماری تاریخ یہ ہے کہ 70ء کے الیکشن میں مغربی پاکستان سے چودھری صاحب اور سردار شوکت صاحب پیپلزپارٹی کے خلاف جیتے تھے، اس کے بعد بھٹو کے دور میں ہماری زمینیں بھی نیشنلائز ہو گئیں، ہمارا سب کچھ چلا گیا، میں، میرے والد اور شجاعت صاحب 1974ء میں پہلی بار جیل گئے، دو ماہ کوٹ لکھپت رہے، بڑے چودھری صاحب (ظہورالٰہی ) چار سال بھینس چوری جیسے کیسز میں جیلوں میں رہے، ہمارے خاندان پر 118 کیسز بنائے گئے۔

اس کے بعد یو ڈی ایف (یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) ہمارے گھر میں بنا، چودھری صاحب اس وقت بھی جیل میں تھے۔ پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) ہمارے گھر میں بنا، جس میں، میں اور چودھری شجاعت پیش پیش تھے، ہم 77ء میں بھی امیدوار تھے، اور اس وقت بھی جیل گئے۔ اسی گھر میں جس میں آپ بیٹھے ہیں، یہاں لیاقت بلوچ، جاوید ہاشمی، فرید پراچہ اور مجیب الرحمن شامی صاحب چھپے رہے۔ اس وقت مونس کی والدہ نے لاہور میں ایک جلوس کی قیادت کی، جس میں ان کی آنکھ پر آنسو گیس اور ڈنڈا لگا، جس سے بننے والا زخم پانچ سال بعد ٹھیک ہوا۔

ایکسپریس: مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر آپ نے الگ پارٹی بنا لی، میاں برادران کی جلاوطنی سے واپسی پر ایک بار پھر ن لیگ سے جڑنے کی خبریں آئیں اور کہا جاتا ہے کہ چودھری شجاعت کسی حد تک راضی تھے لیکن آپ نے سخت گیر رویہ اختیار کیا، وجوہات کیا ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : دیکھیں! ہم دس بارہ سال اکٹھے رہے ہیں اور اگر ہم اتنے عرصے میں ایک دوسرے کو نہیں سمجھ سکے تو پھر ہمیں یہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔ ہم انہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کہتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں۔ مجید نظامی صاحب نے بہت کوشش کی، تو چودھری شجاعت نے کہا کہ لو جی نظامی صاحب ہماری طرف سے آپ صدر اور جائیں نواز شریف سے پوچھ آئیں، لیکن پھر وہ واپس ہی نہیں آئے۔

ایکسپریس: اس وقت پارلیمنٹ میں 3 مسلم لیگیں ہیں، کیا مسلم لیگ کے اتحاد کا کوئی امکان ہے؟ اگر نہیں تو وجوہات کیا ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ آپ ان تینوں کو سامنے رکھیں اور جس جس کی حکومت رہی ہے، اس کی کارکردگی جانچ لیں، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ حق کس کا زیادہ بنتا تھا، اس میں آپ سیاسی جدوجہد، تجربہ اور ڈلیوری دیکھ لیں۔ باقی تو کہتے ہیں کہ ہم آ گئے تو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے، لیکن ہم نے تو کر کے دکھا دیا۔ جو اتحاد کی آپ نے بات کی تو اس میں یہ ہے کہ مائنس شریف فیملی مسلم لیگوں کا کسی سطح پر کوئی اتحاد بن سکتا ہے۔

ایکسپریس: موجودہ پنجاب حکومت کی پالیسیوں سے کسان غیریقینی صورت حال کا شکار ہیں، یہ ایک تاثر ہے، آپ کیا کہیں گے؟

چودھری پرویزالٰہی : درحقیقت مسلم لیگ ن کی حکومت کسان دشمن ہے، اب چاول، کپاس کو دیکھ لیں، کسان کو لاگت بھی پوری نہیں مل سکی، اور اب آئندہ گندم اور گنا کے کاشتکاروں کے ساتھ یہی سلوک ہونے جا رہا ہے۔ تواس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہمیں بھارت سے مقابلہ کرنا ہے۔ بھارت اپنے کسانوں کو 15 بلین ڈالر کی سبسڈی دے رہا ہے۔

امریکہ 22 بلین اور چاپان 40 بلین ڈالر کی سبسڈی دے رہا ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے، لیکن یہ ایک پیسے کی سبسڈی نہیں دے رہے۔ ہمارے دور حکومت میں کسان بجلی کا آدھا بل دیتا تھا، اسے ٹیل تک پانی ملا اور پختہ کھالے بنائے، ساڑھے 12 ایکڑ پر ٹیکس معاف کیا، لیکن شہباز شریف نے دوبارہ لگا دیا۔ پانی چوری کی سزا دو سال کرتے ہوئے مانیٹرنگ سسٹم بنایا، جس سے چوری رکی، پانی بڑھا اور مالیا بھی بڑھ گیا۔

ایکسپریس: اطلاعات کے مطابق کالاباغ ڈیم کے حوالے سے بھی آپ نے کام کیا، اس کو بنانے پر کوئی اتفاق رائے ہو سکتا ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : سب سے پہلے آپ دیکھیں کہ اس کی اہمیت کیوں ہے؟ دنیا کا کوئی ملک 18 روپے فی یونٹ بجلی دے کر کبھی ترقی نہیں کر سکتا، یہ صرف پاکستان میں ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں پانچ، سری لنکا ساڑے چار، بھارت میں پانچ روپے اسی پیسے اور ہم 18 روپے فی یونٹ لے رہے ہیں۔ یہ سب جھوٹ بولتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم بننے سے کسی ایک صوبے کو فائدہ ہوگا اور کوئی دوسرا ڈوب جائے گا۔ سب سے زیادہ پانی سندھ کو چار بلین ایکڑ فٹ ملے گا، جس سے تھر کا سارا علاقہ آباد ہو جائے گا، یہ جتنے بڑے جاگیر دار ہیں، یہ لوگ ڈیم نہیں بننے دے رہے کیوں کہ وہاں تو اصلاحات ہوئی ہی نہیں، یہ تو صرف پنجاب میں ہوئی تھیں۔

پھر کے پی کے کو 3 ملین ایکڑ پانی ملے گا، اسی طرح بلوچستان اور پنجاب کو 2.2 ملین ایکڑ پانی ملے گا، جس سے سارا بنجر علاقہ ، چولستان آباد ہو جائے گا اور اڑھائی روپے فی یونٹ کی بجلی بھی عوام کو میسر آئے گی۔ کالاباغ ڈیم بنانے پر اتفاق کی جو آپ نے بات کی تو اس کے لئے سب سے پہلی چیز نیت ہے، اگر اُس وقت ضیاء الحق کی نیت ہوتی تو یہ بن چکا ہوتا، جہاں بھی دنیا میں ڈیم بنے ہیں وہاں جھگڑے ہوئے ہیں، لیکن قومی مفاد میں انہوں نے ڈیمز بنائے ہیں۔ ہمارے دور حکومت میں، ہم نے بھی کالاباغ ڈیم بنانے کی کوشش کی۔

ہوا یوں کہ این ایف سی ایوارڈ میں سندھ نے یہ شرط لگائی کہ جو چیز جہاں پیدا ہوتی ہے، اس کے استعمال کا پہلا حق اسے ملنا چاہیے، آبادی کا فارمولہ ختم کر دیا جائے۔ مگر میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہماری آبادی زیادہ ہے، تو ہمیں زیادہ سکول، ہسپتال اور فورس چاہیے۔ دوسرا بجلی اگر آپ کے ہاں پیدا ہوتی ہے تو وہ استعمال تو زیادہ پنجاب میں ہوتی ہے، جس کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں، آپ لوگ تو بل بھی نہیں دیتے۔ اسی طرح پنجاب سے گیس اور بجلی کی مد میں ملنے والا ریونیو دیکھ لیں، یہ کتنا زیادہ ہے۔

مشرف صاحب نے پھر مجھے کہا کہ اب دوسال رہ گئے ہیں تو اس معاملہ پر نظرثانی کر لیں، میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم سب جب مل کر بیٹھے تو میں نے کہا تینوں چیف منسٹرز کالاباغ ڈیم بنانے پر دستخط کر دیں، میں آپ کی بات مان لیتا ہوں، پانی بھی ان کو زیادہ دیں، بجلی بھی دیں، کیوں کہ اس سے ملک کو تو بجلی ملے گی، لیکن پھر کیا، وہ سب بھاگ گئے۔ مگر جب پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو نواز شریف نے اپنی تیسری باری لینے کے لئے ان کی بات مان کر پنجاب کو کنگال کر دیا، اب دیکھیں ان کی صنعتیں چل رہی ہیں، لیکن ہماری بند ہیں۔ آئینی ترمیم کرکے یہ سب کچھ اپنی باری کے لئے کیا گیا۔

امرتسر سے لاہور۔۔۔۔ براستہ دہلی

بھارتی پنجاب کے وزیراعلی کو 4 سو قیدیوں کی رہائی کا تحفہ

لاہور سے دہلی بس سروس ہمارے دور میں شروع کی گئی، اس وقت مجھے سکھوں کا ایک وفد ملنے آیا کہ ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے، جس کا حل صرف آپ کے پاس ہے، پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ بس سروس کے ذریعے ہمیں پاکستان آنے کے لئے پہلے امرتسر سے دہلی جانا پڑتا ہے اور پھر وہی گاڑی گھر (امرتسر) کے سامنے سے گزر کر لاہور جاتی ہے۔ آپ انہیں کہہ کر امرتسر سے سیدھا لاہور آنے کا بندوبست کروا دیں۔ میں نے کہا ’’یار! تسی مائنڈ نہ کرنا۔۔۔۔ فیر تاں تُساں سکھاں والا کم ہی کیتا ناں‘‘ پھر میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کی دعوت پر فیملی سمیت وہاں گیا، تو میں نے انہیں کہا کہ ہمیں یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے بلکہ ہمیں ایک سڑک بنانی چاہیے، ہم ننکانہ صاحب کو ضلع ڈکلیئر کرتے ہیں،کیوں کہ یہ آپ کے لئے ایک مقدس جگہ ہے اور آپ اپنی طرف سڑک بنائیں۔

کیپٹن امریندر سنگھ نے مجھے کام کرنے کی تھوڑی یقین دہائی کرائی،اُس وقت امریندر سنگھ کا برادر نسبتی نٹور سنگھ وزیر خارجہ تھا، وہ بھی ہمیں اچھی طرح جانتا تھا، کیوں کہ وہ یہاں ہائی کمشنر رہا تھا۔ میں نے اسے بھی کہا کہ یہ کام کر دیں، تو اس نے کہا کہ میں نے وزیراعظم کے ساتھ آپ کی میٹنگ رکھوائی ہے، آپ وہاں بات کرنا، میں بھی وہیں ہوں گا۔ اچھا۔۔۔ اب جب ہم وزیراعظم سے ملے تو میں نے انہیں ایک تصویر دکھائی، جو پاکستان میں رہنے والے ان کے ایک دوست کی تھی، جس کے بعد وہ میرے ساتھ تھوڑا کھل کر گپ شپ کرنے لگے، جس دوران میں نے سکھوں کا مسئلہ بھی بیان کر دیا، جس پر انہوں نے نٹور سنگھ کو یہ مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کر دی۔

واپسی پر انہوں نے ایک گوردوارے پر بھی ہمارے استقبال کا اہتمام کر رکھا تھا، جہاں موجود لوگوں نے مجھے ایک اپیل کی کہ گزشتہ 8 سال سے ہمارے چار سوبندوں کو آئی ایس آئی نے جاسوس سمجھ کر پکڑ رکھا ہے، حالاں کہ وہ عام آدمی ہیں، وہ سب تو باہر کے ملک جانے کی خواہش میں ایجنٹوں کا نشانہ بن گئے، جنہوں نے پیسے لے کر انہیں ایران کے بارڈر پر چھوڑ دیا، جہاں سے آئی ایس آئی نے انہیں اٹھا لیا۔ اچھا جو افراد پکڑے گئے تھے، ان کے گھر والے بھی وہاں موجود تھے، جو بڑی دردمندانہ اپیل کر رہے تھے، تو میں نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر یہ لوگ بے گناہ ہیں، تو میں انہیں چھڑوائوں گا۔ پھر یہ ہوا کہ برطانیہ کے وزیرخارجہ جیک سٹرا نے مجھ سے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے ووٹ لے کر دینے کی بات کی، تو میں نے برطانیہ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان کا کام کروا دیا۔

پھر میں نے اسے کہا کہ ایک کام ہمارا بھی کر دیں کہ آپ بھارت جائیں گے تو انہیں کہیں کہ لاہور دہلی بس سروس کے روٹ پر نظر ثانی کریں، تو اس نے کام کرنے کا وعدہ کر لیا۔ اچھا۔۔۔۔ جب وہ جیت گیا تو میں نے اسے مبارکباد دی کہ دیکھ لیں ہم نے آپ کا کام کر دیا، تو اس نے جواب میں کہا کہ وہ بھی میرا کافی کام کر آئے ہیں، لیکن انہیں (بھارتی حکومت) سکھوں کے حوالے سے پاکستان پر شکوک و شبہات ہیں۔ بعدازاں نٹور سنگھ یہاں پاکستان آیا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ کے کہنے پر بس والا کام کر دیا گیا ہے۔ پھر امریندر سنگھ بھی میری دعوت پر پاکستان آیا، تو میں نے مشرف صاحب کو کہا کہ اس نے بھارت میں میرا بڑا استقبال کیا۔

مشرف صاحب نے کہا کہ اچھا تو پھر اسے کیا تحفہ دیں، میں نے ایک دو پُرانے پسٹل دیکھے ہیں۔ میں نے انہیں کہا آپ پسٹل کو چھوڑیں ان کے چار سو قیدی ہیں، ان کا پتہ کروا دیں۔ میرے کہنے پر انہوں نے پتہ کروانے کی حامی بھر لی۔ پھر جاننے پر معلوم ہوا کہ وہ چار سو بندے بے گناہ ہیں، تو میں نے مشرف صاحب کو کہا کہ آپ انہیں ان چار سو بندوں کی رہائی کا تحفہ دے دیں۔ پھر جب امریندر سنگھ آیا تو میں نے مشرف صاحب کو کہا کہ آپ کی مہربانی ہے، جو آپ نے بندوں کی رہائی کا فیصلہ کیا ہے تو ایک اور مہربانی کر دیں کہ یہ بندے بھارتی پنجاب کے وفد کے ساتھ ہی واپس چلے جائیں، جس پر وہ مان گئے تو پھر ہم سب انہیں واہگہ بارڈر پر چار سوبندوں سمیت چھوڑنے گئے۔ آپ یقین کریں اس وقت ان سب کی آنکھیں نم تھیںکہ میں نے ان کا اتنا بڑا کام کر دیا۔

ہاکی، دلیپ کمار، مہدی حسن

میں نے سکول کے زمانے تک ہاکی کھیلی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کرکٹ پسند نہیں وہ بھی بہت پسند ہے، لیکن کھیلی صرف ہاکی ہے۔ غیرسیاسی لوگوں کی بائیوگرافی پڑھتا ہوں، تاکہ ان کے تجربات سے سیکھ سکوں۔ فارغ وقت اپنی فیملی کے ساتھ گھر میں گزارنا پسند کرتا ہوں۔ وقت ملے تو فلم اور ڈرامہ دونوں دیکھ لیتا ہوں۔ پسندیدہ اداکار دلیپ کمار جبکہ گلوکار مہدی حسن ہیں۔ پاکستانی گائیگی پسند ہے۔

اڈیالہ جیل کے دن ۔۔۔۔!

پیپلزپارٹی کے دور میں جب مجھے قید ہوئی تو وہاں ہم سب ساتھ تھے۔ شہباز شریف کمر درد کا بہانہ بنا کر باہر چلے گئے، لیکن ان کا بیٹا حمزہ ہمارے ساتھ ہی رہا۔ 6 ماہ ہم اڈیالہ جیل میں رہے، جہاں بے نظیر نے ہم پر بڑی سختی کی اور آئی بی کا ایک بندہ وہاں تعینات کیا گیا تاکہ ہمیں کوئی شخص نہ مل سکے، لیکن ہم نے اسی بندے کے ساتھ تعلق بنا لیا اور پھر وہ ویسے رپورٹ بناتا جیسے ہم کہتے تھے، یعنی اس نے ہمیں فلاں شخص سے ملنے دیا نہ فلاں سے، یوں ہم اس سے اپنا سارا کام لیتے رہے۔ جیل میں جو کھانا ہمارے لئے آتا تھا، اس کا مینیو حمزہ طے کیا کرتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔