اختلاف رائے اور ہمارا معاشرتی رویہ

جبار قریشی  جمعرات 12 مارچ 2015
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

زمانہ طالب علمی کی بات ہے، کالج کے ایک طالب علم ساتھی جو ایک دینی سیاسی جماعت کی ذیلی طلبا تنظیم سے وابستہ تھے، وہ میرے ہم جماعت ہونے کے ساتھ میرے گہرے دوست بھی تھے۔ ایک دن انھوں نے مجھے اپنی تنظیم کے کراچی میں واقع ایک مرکز میں منعقد ہونے والے ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔

میں نے کچھ اپنے تنہائی پسند مزاج اور کچھ سیاست سے عدم دلچسپی کی وجہ سے اس پروگرام میں شرکت سے معذوری ظاہر کر دی لیکن جب میرے اس دوست نے زیادہ اصرار کیا تو میں انکار نہ کر سکا اور اس پروگرام میں شریک ہونے کی حامی بھر لی، شام ہوتے ہی میں مقررہ وقت پر اس پروگرام میں شرکت کے لیے ان کے مرکز پہنچ گیا۔

یہ ایک سیاسی نوعیت کا پروگرام تھا۔ جس میں ایک مذاکرے انعقاد کیا گیا تھا جو روس اور افغانستان کے مابین جنگ میں اپنائی گئی خارجہ پالیسی کے حوالے سے تھا۔ اس میں مقررین نے بڑی ولولہ انگیز تقاریر کیں۔ ان مقررین کا کہنا تھا کہ روس کی جانب سے افغانستان میں فوجی مداخلت در اصل کفر اور اسلام کی جنگ ہے اگر روس کا راستہ نہ روکا گیا تو عالم اسلام بالخصوص پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

اس لیے ضروری ہے کہ اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان میں جہاد کے جذبے کو فروغ دے کر کفر اور اسلام کی اس جنگ میں کفر یعنی روس کو شکست سے دوچار کیا جائے، روس کی شکست سے نہ صرف پاکستان کی سالمیت کو تحفظ حاصل ہو جائے گا بلکہ روس کی شکست کے نتیجے میں اسلامی بلاک وجود میں آ جائے گا اور اسلام ایک عالمی طاقت بن کر دنیا کے سامنے آ جائے گا اور اس طرح دنیا پر اسلام کی بالادستی قائم ہو جائے گی۔

میں تمام تقاریر بغور سن رہا تھا۔ ان مقررین کے بعد ایک مقرر جو اپنے لباس سے ہی دوسرے مقررین سے مختلف تھے معلوم نہیں انھیں کس بنیاد پر اس پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا وہ اسٹیج پر آئے۔ میں اس وقت انٹر کامرس کا طالب علم تھا مجھے ان کا نام یاد نہیں وہ غالباً کوئی دانشور تھے انھوں نے تمام مقررین کی تقاریر سے ہٹ کر بالکل مختلف بلکہ ان کے برعکس بات کی۔

انھوں نے روس افغانستان جنگ میں اپنائی گئی خارجہ پالیسی پر نرم انداز میں مگر کڑی تنقید کے ساتھ پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی مہلک اور نقصان دہ قرار دیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد کمیونزم کے پھیلاؤ نے سرمایہ داری نظام کے حامی ممالک کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ کمیونزم ایک نظریاتی تحریک ہے اور نظریاتی تحریک کا مقابلہ نظریاتی تحریک سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا سرمایہ داری نظام کے حامی ممالک بالخصوص امریکا نے سیاسی حکمت عملی کے تحت کمیونزم کی تحریک کے مقابلے میں مذہب بالخصوص اسلام کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔

وہ خطے جہاں کمیونزم کی تحریک کو پذیرائی حاصل ہو رہی ہے وہاں دینی، سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کر کے انھیں روس جو کمیونزم کا مرکز ہے، اس کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ روس اور افغانستان کے مابین لڑی جانے والی جنگ دراصل عالمی طاقتوں کے مفادات کے حصول کی جنگ ہے۔ اسے کفر اور اسلام کی جنگ قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔

ہمیں خود کو اس جنگ سے الگ رکھنا چاہیے۔ اگر اس جنگ میں ہم فریق بنے تو اس جنگ کا دائرہ وسیع ہو جائے گا اور ایک نہ ختم ہونے والی اس جنگ کی آگ ہمارے خطے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور ہمیں اس آگ کو ختم کرنے کے لیے کئی دہائیاں در کار ہوں گی۔

روس کے وجود کی صورت میں دنیا میں عالمی طاقت کا جو توازن قائم ہے روس کے خاتمے کی صورت میں یہ توازن برقرار نہیں رہ سکے گا اور یہ توازن ختم ہو جائے گا جو دنیا کو ایک نئے عالمی سیاسی بحران میں مبتلا کر دے گا۔ اگر ہم نے روس افغانستان جنگ میں اپنائی گئی خارجہ پالیسی پر نظرثانی نہیں کی اور خود کو اس سے الگ اور دور نہیں رکھا تو ہمارا اور ہمارے بعد آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔

میں نے دیکھا کہ محترم دانشور کے اس زاویہ نگاہ نے پروگرام میں شریک ہر فرد پر ایک سکوت طاری کر دیا۔ ان کی تقریر کے بعد ایک مقرر آئے ان کا تعلق صحافت کے شعبے سے تھا۔ انھوں نے خارجہ پالیسی پر کوئی بات نہیں کی بلکہ ’’محترم دانشور صاحب‘‘ کو اپنی تقریر کا موضوع بحث بنایا اور انھوں نے موصوف کے ذاتی کردار کو ہدف بنا کر ایسی کڑی تنقید کی کہ محترم دانشور نے وہاں سے چلے جانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔

مجھے محترم دانشور کے ساتھ کیا جانے والا یہ سلوک ناگوار اور نا مناسب لگا اس کا اظہار میں نے اپنے دوست سے کیا تو اس نے بھی محترم دانشور کو روس نواز، کمیونزم کا حامی اور لادینی قرار دے کر مجھے خاموش کر دیا۔ (ممکن ہے کہ محترم دانشور کی باتیں درست ثابت ہونے کے بعد بھی میرے دوست کے وہی خیالات ہوں) مجھے نہیں معلوم کہ روس اور افغانستان کے مابین جنگ میں اپنائی گئی خارجہ پالیسی کے پیچھے قوت ایمانی کا جذبہ تھا یا امریکن ڈالروں کے حصول کی کوشش، اس پر علمی رائے کا اظہار اہل سیاست ہی کر سکتے ہیں۔

میں جب اس محترم دانشور کے ساتھ کیے گئے سلوک پر غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ہمارے یہاں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا کلچر سرے سے موجود ہی نہیں ہے یقین نہ آئے تو مختلف الخیال جماعتوں چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہوں یا سماجی، دینی ہوں یا سیکولر قوم پرست ہوں یا فرقہ پرست کبھی بھی ان کے پروگراموں میں شرکت کر کے دیکھ لیں ہر ایک نے اپنی الگ دنیا بنائی ہوئی ہے۔

ہر ایک اپنی ہی بانسری بجا رہا ہے دوسری دنیا سے آشنا ہی نہیں یا آشنا ہونا ہی نہیں چاہتا یعنی اپنے مخالف نظریات سننے کے لیے تیار ہی نہیں ان جماعتوں اور تنظیموں میں ایسے لوگوں کی کمی ہے جو سمجھتے ہیں کہ سچ وہی ہے جسے وہ سچ سمجھتے ہیں حالانکہ درست رویہ یہ ہے کہ اپنے مخالف نقطہ نظر کے لوگوں کی بات بھی سنی جائے اس طرز عمل کی بدولت آدمی اپنی سوچ کے خول سے باہر نکلتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچتا ہے وہ پورا سچ یا حتمی حقیقت نہیں ہے اس سے کسی معاملے کا پوری طرح ادراک حاصل ہوتا ہے جس سے درست عمل کی راہیں متعین کرنے میں مدد ملتی ہے اور اس طرح ہم کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔

اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے یہاں اعتدال، تحمل، رواداری اور جمہوریت کا رویہ فروغ نہ پا سکا۔ رواداری، تحمل کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ اختلاف رائے کو سننے اور اسے برداشت کرنے کے کلچرکو فروغ دیا جائے بلکہ اگر مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کے دلائل مضبوط ہوں تو انھیں تسلیم بھی کیا جانا چاہیے۔

اس طرز عمل سے معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کی جو لہر ہے اس کے خاتمے میں مدد ملے گی۔میں نے جب کالم نگاری کا آغاز کیا تو کوشش کی کہ جب کسی معاملے پر لکھا جائے تو اس سے متعلق جو بھی نقطہ نظر ہوں انھیں سامنے لایا جائے، تا کہ معاملے کا صحیح ادراک ہو سکے۔ صحیح ادراک ہونے کی صورت میں عمل کی صحیح راہیں متعین کی جا سکیں۔

اس تحریری اسلوب کو جہاں پسند کیا گیا وہاں ناپسندیدگی کا اظہار بھی سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں مجھے متعدد ای میلز موصول ہوئی ہیں جس کا تذکرہ میں آیندہ اپنے کسی کالم میں کروں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔