زندوں کا مسیحا کوئی نہیں

ڈاکٹر حمیدہ جیلانی  بدھ 25 مارچ 2015

9 مارچ 2015ء کے ایکسپریس میں وجاہت علی عباسی کا کالم ’’وہ سڑک‘‘ پڑھا تو یادوں کے دریچے وا ہو گئے۔ ابتدا میں جب وجاہت نے لکھنا شروع کیا تو اسکول کی ہم جماعتوں کو فون کیا، یہ دوستیاں پچاس اور ساٹھ کی دہائی سے تعلق رکھتی ہیں، ہم نے پہلی سے لے کر بی ایس سی تک ساتھ پڑھا ہے، 65 سال تک تعلقات کو قائم رکھنا اور نبھانا آج کل کے تناظر میں بڑی بات ہے۔

یہ دوستیاں حمیدہ غلام حسین اور زہرہ غلام علی سے تھیں۔ ’’وجاہت کالم لکھ رہا ہے‘‘ میں نے فون پر انھیں اطلاع دی۔ ’’کون وجاہت؟‘‘ نیلو کا بچہ، جواب دیا اور اب بات سمجھ میں آ گئی۔ اسکول کے زمانے میں ہم اسے ’’نیلو‘‘ کہا کرتے تھے پورا نام نیلوفر علیم تھا، ہم چاروں ایف سی مورس والا گرلز سیکنڈری اسکول میں پڑھا کرتے تھے، میں نے تو اسکول سے مشق کی تھی گجراتی ماحول میں گجراتی آج تک بولنے کی عادت پڑگئی ہے۔

لیکن نیلو کو کچھ زیادہ مزہ نہیں آتا تھا کہ ابھی بیسویں صدی کے آغاز میں اس نے میٹرک کا سرٹیفکیٹ لیا۔ اس کے کچھ دن بعد میں بھی اسکول کا دیدار کرنے گئی تو پتہ چلا کہ نیلو بھی آئی تھی۔ جو پرانے لوگ انڈیا ہائوس بلڈنگ سے واقف ہیں جس میں بھٹو کا دفتر تھا اسی گلی میں بائیں طرف اسکول اور تھوڑا آگے جاکر سیدھے ہاتھ پر مورس والا اسکول آتا تھا اور ہے۔

اس زمانے میں پرائیویٹ اسکولوں میں لوٹ کھسوٹ کا عمل دخل نہیں تھا۔ اس پرائیویٹ اسکول کی عام فیس 8 روپے ماہانہ تھی، ہر سال داخلہ فیس کا کوئی دستور نہیں تھا۔ یتیم طالبات سے صرف ایک روپیہ ماہانہ فیس لی جاتی تھی۔ جو پہلی کلاس سے میرے مقدر میں تھی۔

قلم بھی لکھتے لکھتے بھٹک جاتا ہے، بات ہو رہی تھی نیلو کے بچے کی۔ ’’پوت کے پائوں پالنے میں‘‘ یعنی وجاہت کے دو چار کالموں سے ہی اندازہ ہو گیا تھا بچے کی اڑان بہت اونچی ہے، ہم اس کے کالم بڑے شوق سے پڑھتے، بلکہ میں تو اس کے کالم کا انتظار کرتی، نیلو نے ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا اور ہم اسلامیہ سائنس کالج چلے گئے۔

جہاں سید سلیمان ندوی اور علامہ شبیر احمد عثمانی اور اسلامیہ کالجوں بلکہ تعلیمی اداروں کے بانی قریشی صاحب کی قبریں ہیں، سید سلیمان ندوی، مولانا شبلی نعمانی جنھوں نے سیرت النبیؐ لکھی جس کی تکمیل سے پہلے ان کا انتقال ہو گیا تو آخری دو جلدیں انھیں کی طرح سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔

سیرت النبیؐ پڑھنے کے بعد پتہ نہیں چلتا ہے کہ یہ دو مصنفین کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ بہت سے لوگوں کو معلوم ہے کہ جب پاکستان بنا تو سید سلیمان ندوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی پاکستان میں اسلامی قوانین بنانے میں مدد دینے آئے تھے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد جو بندر بانٹ کا ماحول دیکھا تو گوشہ نشین ہو گئے، یعنی منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

اس وقت اسلامیہ سائنس کالج کی فیس 24 روپیہ ماہانہ تھی اور ڈی جے سائنس کالج کی فیس گورنمنٹ کالج ہونے کی وجہ سے اور بھی کم تھی بعد میں ان تینوں نے یونیورسٹی کے مائیکرو ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا۔ آج کل کے طالب علموں کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بتا دینا بہتر ہے کہ 1936+ء تک کراچی یونیورسٹی، کراچی کالج فار ویمن میں قائم تھی۔

جہاں 1936ء، 1964ء کے تعلیمی سال کے لیے پہلے انٹر سائنس بیج کا داخلہ شروع ہوا جس میں، میں نے داخلہ لیا۔ پھر ان تینوں نے یونیورسٹی اور میں نے سینئر ڈپلوما آف فزیکل ایجوکیشن میں داخلہ لیا۔ جہاں میرا پہلے بیج میں پہلا داخلہ تھا اور داخلہ فیس 5 روپے تھی اب گورنمنٹ کالج آف فزیکل ایجوکیشن میں بیچلر آف فزیکل ایجوکیشن کی ڈگری دی جاتی ہے۔

اپنے اسکول اور کالج کی فیسوں کا خیال اس لیے آ رہا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے ارباب اختیار کو بتایا جائے کہ فیس کتنی رکھنا چاہیے، پچھلے دنوں 200% فیسوں میں اضافہ کر کے بچوں کو احتجاج پر مجبور کیا اور پھر اضافہ واپس لیا۔ کراچی یونیورسٹی کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ 5 روپے داخلہ فیس کی رسید کسی تعلیمی عجائب گھر میں رکھنے کے لیے سنبھال کر رکھی ہے۔

ہم نے نیلو سے بھی ایک بڑی بات سیکھی ہے، وہ تھی پیسوں کا حساب کتاب رکھنا، لین دین کے وقت پیسے گن لینا۔ غالباً 1969ء کی بات ہے۔ وہ پہلے ہی ریڈیو کی اور بعد میں TV آرٹسٹ بن چکی تھی۔ والدہ نون خاتون بھی ریڈیو سے وابستہ تھیں۔ آگے پیچھے قابل خاندان تھا۔ اسٹوڈنٹ لائف سے ہی ’’آپ کمائی‘‘ کا سلسلہ تھا، اس لیے پیسہ خرچ کرنے کا ڈھنگ آتا تھا اور پھر میڈم میڈورا کی شاگردی، میں نے ان کو بڑا سگھڑ پایا، قابل استادوں سے بات کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔

میڈم میڈورا میرے کالج یعنی گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس میں مائیکرو بیالوجی میں بطور ایکسٹرنل ایگزامنر آیا کرتی تھیں۔ ہاں تو ہم نے شعبہ مائیکرو بیالوجی کی کینٹین میں نیلو کو دیکھا، کینٹین کے بیرے نے اس کو پیسے واپس کیے تو کچھ پیسے کم تھے۔ نیلو نے حساب کتاب کر کے اس کو بتایا یوں اس کو پیسے واپس ملے۔ آج کل کے شاگردوں نے ایک دو پیسے ایک دو آنے نہیں دیکھے ہیں۔ یہ آج کے دس روپے کے نوٹ کی طرح ردی کاغذ پر چھپے نہیں ہوتے تھے۔ ساٹھ پنسٹھ سال بعد بھی کچھ سکے رکھے ہیں جو ثابت سلامت ہیں۔ اس زمانے میں ایک دو پیسے یا ایک دو آنے اسٹوڈنٹس کے لیے قیمتی سرمایہ ہوا کرتے تھے۔

بسوں کے کرائے بھی ایک دو آنے ہی ہوتے تھے اور ٹرام کا کرایہ تو ایک آنے سے زیادہ کبھی نہ تھا۔ ٹرام کی تصویر ہو تو آج کے بچوں کو بتائی جائے کہ اس کو ٹرام کہتے تھے۔ ہماری گلی کے سامنے سے ٹرام گزرتی تھی یعنی گاڑی کھاتے کی طرف بندر روڈ سے کیماڑی (بولٹن مارکیٹ تک) جاتی تھی۔

یہ وہی گاڑی کھاتہ ہے جہاں پاکستان بننے کے بعد قراۃ العین حیدر اور بے شمار ادیبوں نے ’’لینڈنگ‘‘ کی تھی اور حکیم محمد سعید شہید (اﷲ کرے ان کے قاتل بھی پھانسی پر لٹکیں) آرام باغ کے آس پاس اور جہاں ہمدرد دواخانہ ہے اور جہاں انھیں شہید کیا، رہتے تھے۔ ہم نے کبھی بھی اچھوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ قراۃ العین حیدر پاکستان چھوڑ گئیں اور حکیم سعید دنیا۔

قمر علی عباسی کو جو اعزاز یعنی ان کے نام اور کام زندہ رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے تو وہ خود نیلو اور ان کے دونوں بیٹے بہت خوش ہوتے، اگر ان کے سامنے دیے جاتے۔

ابھی 23 مارچ کو بھی جو اعزازات دیے گئے ہیں اس میں بھی مرحوم بلند پایہ صحافی منہاج برنا کو بھی نوازا گیا، ان کے انتقال کو کم و بیش 5 سال ہو رہے ہیں، ہم چار دوستوں زبیدہ معراج محمد خان، برجیس کالج آف ہوم اکنامکس کی سابقہ ہیڈ آف دی آرٹ ڈپارٹمنٹ اور ڈاکٹر زمینہ اور میں خود ان کی بیٹی افشان کے ساتھ اسلام آباد کے قبرستان میں ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کر چکے ہیں۔ کیا ہم ان کی زندگی میں اعزاز نہیں دے سکتے تھے۔ کیا زندگی میں ان کے ہاتھ میں اعزاز نہیں دے سکتے۔

یہ نشان حیدر تو نہیں ہیں، عام شہری اعزاز ہیں، ان کو جیتے جی دیے جائیں۔ مرحوم صحافی منہاج برنا کا اعزاز ان کے بھائی معراج محمد خان صاحب خدا ان کو صحت اور زندگی دے، نے وصول کیا، وہ جو مٹی کے اندر چلے گئے ان کی زندگی میں ہم یہ خوشیاں بھی نہیں دے سکتے ہیں۔

منیبہ شیخ اور ادا جعفری خوش نصیب ہیں کہ ان کی زندگی میں انھیں سراہا گیا ورنہ اعزازات کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں برسوں پہلے انتقال کرنے والوں کے نام بھی شامل ہوتے ہیں کیوں کہ وطن عزیز میں زندوں کا مسیحا کوئی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔